ترکی میں اسلامی تحریک کی پیشقدمی اور کامیابیاں

جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے زیر اہتمام سیمینار سے معروف اسکالر مسعود اعجازی اور محمد حسین محنتی کا خطاب

جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے تحت قبا۔آڈیٹوریم میں ترکی میں۔اسلامی تحریک کی پیش۔قدمی۔اور کامیابیاں کے موضوع۔پر سیمینار منعقدہوا۔اس موقع پر صوبائی امیر محمد حسین محنتی و دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے مسعود احمد اعجاز ی نے کہا کہ15جولائی2016 ءکو ترکی میں فوجی مارشل لا کے خلاف جب عوام کھڑے ہوئے تو صرف ایک ہی نعرہ تھا۔
بسم اللہ ۔ سبحان اللہ۔اللہ اکبر۔۔ یہ وہ۔ہی نعرہ ہے۔جو ماضی میں ترک فوج لگایا کرتی تھی۔
ترک مارشل لا اللہ تعالی کے کرم سے چند منٹ کے فرق سے کامیاب نہیں ہوسکا۔تھا۔
صدر اردوان کو جب فوجی بغاوت کی اطلاع ملی تو انہوں نے سرکاری طیارہ کے بجائے سفر کے لئے دوسرا جہاز استعمال کیا اور استنبول کی طرف روانہ ہوگئے۔کسی نے قتل کا خدشےکا اظہار کیا تو کہا شہادت کا موقع یہی ہے۔دوران سفرسی این این سے براہ راست خطاب میں عوام سے اپیل کی تو پورا شہر استنبول اذانوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔لوگ بتاتے ہیںکہ آج سے پہلے اتنی زبردست اذانوںکی گونج کبھی سنائی نہیں دیں۔
پوری قوم آذان کی آواز پر سڑکوں پر آگئی اور فوجی ٹینکوںکے سامنے آکر لیٹ گئی درجنوں لوگ شہید ہوئےاور بالآخرعوام کی قربانی رنگ لائی اور پولیس اور عوام کے ہاتھوں باغی فوجی اہلکاروںکو گرفتارہونا پڑا۔
ترکی میں دین کو سمجھنے کی بڑی ترپ ہےماضی میں دینی لٹریچرکی بڑی کمی تھی۔مگر اب امام مودودی کی تمام کتب کا ترجمہ ترکی کی لائبریریوںمیں موجودہےاور ترجمان القرآن کے ایڈیشن بھی موجودہیںاس کے علاوہ سید قطب۔اورابوالحسن ندوی صاحب کی کتب کا ترجمہ بھی ہوچکاہے۔
ترکی میں لوگ کتابیںبہت پڑھتے ہیں۔2030ءمیںچھ ہزارسے زائدکتب شائع ہوئی تھیںاور آج 58 کروڑ کتابیںموجودہیں جوکہ ہر شہری پر سات کتب بنتی ہیں۔کتب کے حوالے سے ترکی کا گیارہواں نمبر ہےاور پاکستان کا 58واں نمبرہے۔ ترکی میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کا رواج زیادہ ہے۔ ترکی میں تربیت تعلیم و دعوت کے لئے بہت سے لوگ مصروف عمل ہیں۔مگر تحریک اسلامی کی تنظیم موثر و منظم انداز سے دعوت کی وسعت میں مصروف عمل ہے۔ترکی میں جو گفتگواور مکالمے کا فن جانتے ہیں کتابیں پڑھتےاور پڑھاتے ہیں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے،آگے بڑھاتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ15 جولائی 2015ء کا جب فوجی انقلاب آیا تو پوری قوم صدرکی پشت پر کھڑی ہو گئی اور جو لوگ سیاست میں کبھی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔وہ بھی رات تین بجے اپنے تین سالہ بیٹے اور بیوی کے ہمراہ سڑکوں پر آکر لیٹ گئے۔مارشل لاکے خلاف عوامی ردعمل قابل دید تھا۔ صدر کے خلاف حزب اختلاف کی جماعت بھی صدر کے ساتھ تھی۔بائیں بازوکی جماعتیں بھی مارشل لاکے خلاف مصروف عمل رہیں۔تمام علمائے کرام بھی بحالی جمہوریت کے لئے متحدتھے۔یہ ایک ایسامثالی اتحادتھاکہ جس کی نظیرمشکل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا 2023کے بعد ترکی کو کچھ آزادی مل جائے گی۔مگر جس طرح پاکستان یا دیگر ممالک میں تاثر پھیلا ہوا ہے اس طرح ہونا فی الحال ممکن نہیں ہے۔بس ترکی پیٹرول و گیس نکال سکتا ہے۔ بحرحال ترکی غیر معمولی پاور تو حاصل کرچکا ہے مگر وہ ابھی گیم چینجر نہیںہے اس کے باوجود وہ امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔یورپی یونین اسکے بغیر کام نہیں کرسکتا۔ نیٹو کی اس خطے میں کارروائی ترکی کی رضامندی کے بغیرممکن نہیں رہی ہے۔
40لاکھ مہاجرین کی وجہ سے گوکہ ترکی کی معیشت متاثر ہے۔ترکی نے ڈالر کی اڑان اور افراط زر سے بھی مار کھائی ہے۔مگر ترکی کی تجارت اب بھی بڑھی ہے۔افرادی قوت میں اضافہ ہواہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں مسعود احمد اعجاز ی نے کہا کہ نظریاتی لوگ اسلام کے مکمل نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔خلافت کا نام لئے بغیر سرکاری سطح پر دینی کام ہورہاہے۔ملک میں سیکولرازم کو تبدیل نہیں کرسکتے۔مگر جب ایک ریاست میں 4ملین بچےقرآن پڑھتے ہوں اور تربیت و تنظیم کی ہزاروں کتابیں تقسیم کی جاتی ہیں تو یقیناملک میں مثبت تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔
نجم الدین اربکان سیکولرازم اور مغرب کے بڑے ناقد تھے۔انہیں بہت سی مشکلات آئیں اور متعدد بار پابندسلاسل بھی رہناپڑا اور اپنی پارٹی کا نام بھی متعدد باربدلناپڑا ، ان کے ساتھیوں کو ترکی میں شہیدبھی کیا گیااور جو ستر 70طلبہ پاکستان دورے پر آئے تھےانہیں بھی واپسی پر شدید مصائب کا سامناکرنا پڑااور کچھ کو اس جرم کی پاداش میں شہیدبھی کردیاگیا۔ انہوں نے مزید بتایا ان تمام تر ماضی کی مشکلات کے باوجود آج ان قربانیوں کا ثمرہے کہ سرکاری وسائل کا بڑا حصہ ملک میں دینی تعلیم پر خرچ ہورہاہے۔یہی تحریک کی پیش قدمی کی حقیقی بنیاد ہے۔ سرکاری وسائل کے استعمال سے 24گھنٹے سرکاری ٹی وی چینل پر دینی پروگرام نشر ہورہاہے۔مسلم سوچ کی وسعت کے لئے ارطغرل،عثمان جیسے ڈرامےبنائے جارہےہیں۔ اس سے تحریک کا راستہ آسان ہورہاہے اور رائے عامہ اسلامی نظام کے حق میں ہموار ہورہی ہے۔اس کے علاوہ مختلف طبقہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے بہت سے ٹرسٹ بنے ہوئے ہیں۔جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ تحریک کے کاموں میں خواتین کا کردارمردوں سے زیادہ موثر ہے۔ خواتین کا بڑا رول ہےجسے نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔یہاں سیاسی شعور زیادہ ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر کا نوجوان الیکشن میں ووٹ ڈال بھی سکتا ہےہ اور امیدواربن کر الیکشن میں کھڑا بھی ہوسکتاہے۔
سودکے حوالے سے سوال کے جواب میں معروف اسکالرنےکہا کہ
ترکی میں سودختم تو نہیں کیا جاسکا۔مگر 17 بینک اس سلسلے میں کام کررہےہیں اور اسلامی بینکوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔