موجودہ حکومت نے 2022ء کے بجٹ میں جائداد کی خرید و فروخت کے معاملات کو خصوصی طور پر اپنے اصلاحاتی پروگرام میں شامل کیا ہے، اور خالی زمینوں کی خریدو فروخت کے سودوں پر مختلف نوعیت کے ٹیکسوں میں اضافے اور بعض رعایتوں کا خاتمہ کرکے رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کو خاصا متاثر کردیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ حکومت کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر ہم گزشتہ دو برسوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ سال 2020ء کے آخری چند مہینوں سے کراچی شہر میں پلاٹوں کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس لہر نے بتدریج پورے شہر کے خالی پلاٹوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، حتیٰ کہ شہر کراچی کے وہ علاقے جہاں گیس، بجلی اور پانی تک دستیاب نہ تھے وہ بھی مہنگے ہوکر دگنی تگنی قیمتوں میں فروخت ہورہے تھے، جب کہ شہر کے وہ مقامات جہاں پلاٹ پہلے ہی کروڑوں روپے مالیت کے تھے، مزید مہنگے ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ بعض مقامات پر ہونے والا یہ اضافہ ان کی کُل مالیت کا نصف اور کہیں کہیں دگنا بھی ہوگیا، اور پھر یہ سلسلہ اتنا دراز ہوگیا کہ جب مہنگے پلاٹوں پر کی جانے والی تعمیرات کے بعد فروخت کا مرحلہ آیا تو وہ تیار مکانات بھی انتہائی زیادہ قیمت میں عوام کو فروخت ہورہے تھے، جس کے ردعمل میں پرانے مکانات بھی پلاٹوں کی قیمت میں ہونے والے اضافے کے تناسب سے مہنگے ہونے لگے۔
رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں رونما یہ انقلاب تقریباً ہر شعبۂ حیات کے افراد نے واضح طور پر محسوس کیا، جو کہ درحقیقت سٹّے ہی کی ایک مثال قرار دی جاسکتی ہے۔ پراپرٹی ڈیلرز باہمی اشتراکِ عمل سے ازخود زمینوں کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھارہے تھے۔ ان کی اس سرمایہ کاری کے جواب میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی کشش نے دیگر لوگوں اور کاروباری افراد کو اپنی جانب متوجہ کرلیا، اور یوں عوامی سرمایہ بھی جائدادوں کی خرید و فروخت میں شامل ہوگیا۔ عوامی سرمائے کی شمولیت کے بعد ان پراپرٹی ٹائیکونز کے لیے اس کھیل کو جاری رکھنے کا مزید کوئی فائدہ نہ تھا۔ ان کی یہ سرمایہ کاری عوامی سرمایہ کاری کے بعد کسی حد تک ان کو واپس حاصل ہوچکی ہے، جب کہ ان کا پراپرٹی مارکیٹ میں لگا ہوا بچا کھچا سرمایہ بھی مہنگے پلاٹوں اور جائدادوں کی شکل میں محفوظ ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں ہونے والا یہ اضافہ محض رہائشی پلاٹوں اور جائدادوں تک محدود نہ تھا، بلکہ صنعتی پلاٹ و جائدادیں بھی ان پراپرٹی ڈیلرز نے خود خرید کر مہنگے داموں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا، اور ہر پلاٹ ایک یا ایک سے زائد مرتبہ فروخت ہوکر حقیقی گاہک تک پہنچ رہا تھا۔
ان حالات میں پراپرٹی کے شعبے سے وابستہ مختصر سے اداروں اور افراد نے تو ضرور مالی منفعت حاصل کی، لیکن مجموعی طور پر ہماری معیشت اور معاشرے پر بھی اس ساری صورت حال کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ اثرات مثبت کم اور منفی زیادہ ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت، تعمیر و ترقی اور استحکام کا انحصار بڑی حد تک پیداواری سرگرمیوں پر ہوا کرتا ہے جس میں ہماری زراعت، صنعت، لائیو اسٹاک انڈسٹری جس میں نہ صرف جانوروں کا دودھ، گوشت بلکہ پولٹری اور فشنگ انڈسٹری بھی شامل ہیں، اور درحقیقت یہ تمام ہماری پیداواری سرگرمیوں کے اہم ترین شعبے ہیں۔ تاہم اس تناظر میں دیکھا جائے تو تعجب ہوتا ہے کہ جب ہماری زراعت، صنعت اور لائیو اسٹاک انڈسٹری اس قدر پسماندگی اور زبوں حالی کا شکار ہیں ان حالات میں بھی ہماری بچتیں، ہماری غیر ملکی ترسیلاتِ زر، کمرشل و تجارتی اداروں کے قرضے اور عوام و اداروں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا مرکز و محور ہماری اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
معیشت کے اہم ترین شعبوں یعنی زراعت، صنعت اور لائیو اسٹاک انڈسٹری کو اس طرح نظرانداز کرکے غیر پیداواری سرگرمیوں یعنی رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری حقیقتاً دو اہم رجحانات و رویوں کی نشاندہی کرتی ہے، جن میں سے ایک تو ریاستی اور حکومتی سطح پر موجود پالیسیوں، سہولیات و ترغیبات کے حوالے سے عوامی سطح پر عدم اطمینان و بے یقینی کی کیفیت ہے۔دوسری چیز عوام کے اندر لاعلمی، ناخواندگی، محنت و مشقت کے جوش و ولولے کا فقدان ہے۔ عوام کی اکثریت بغیر جدوجہد کے آسان ذرائع سے حصولِ آمدن کے لیے ایسے غیر پیداواری شعبوں کو ترجیح دیا کرتی ہے۔ گویا کہ وہ سرمایہ جس کی اشد ضرورت ہماری صنعت و زراعت اور لائیو اسٹاک انڈسٹری کو تھی وہ غیر پیداواری شعبوں کی نذر ہوگیا اور یوں ہم اپنی زراعت و صنعت اور لائیواسٹاک کے شعبوں کی ترقی و استحکام سے نہ صرف محروم ہوگئے، بلکہ ہمارے یہ متذکرہ بالا شعبے نئی سرمایہ کاری، تحقیق و جدت اور نئے خون کے جوش و ولولے اور روزگار کے نئے مواقع بھی گنوا بیٹھے۔
جب کہ رئیل اسٹیٹ و پراپرٹی کے مہنگے داموں نے صرف معیشت ہی کو ترقی کے مواقع سے محروم نہیں کیا بلکہ عوام کی سماجی و معاشرتی زندگی کو بھی مشکلات سے دوچار کردیا ہے، خصوصاً بے گھر افراد کو، جو کہ کرائے کے مکانات میں رہائش پذیر ہیں، اُن کے لیے اپنے ذاتی گھر کا حصول مزید دشوار اور بہتوں کے لیے تو تقریباً ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔
اسی طرح پراپرٹی سرمایہ کاروں کے صنعتی پلاٹوں کی بار بار خرید و فروخت نے صنعتی پلاٹوں و جائدادوں کو بھی خاصا مہنگا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نئی صنعتوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور پرانے چلتے ہوئے صنعتی یونٹوں کی توسیع و ترقی کے امکانات کو بھی لاگت میں ہونے والے اضافے نے خاصا دشوار بنا دیا ہے، اور یوں ہماری صنعتی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں اضافہ ان کی نشوونما کو مزید غیر مستحکم کررہا ہے، جبکہ اس معاملے کا دوسرا پہلو صنعتی کارکنوں کے حصولِ روزگار کے امکانات میں کمی کا تشویش ناک اور قابلِ افسوس مسئلہ مجموعی بے روزگاری میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ ایسے مواقع پر یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اگر پراپرٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے تو وہ بھی تو بے روزگاری میں کمی اور نئے روزگار میں اضافے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے۔
یہ دلیل یقیناً بڑی حد تک درست ہے، مگر محض اس دلیل یا ایسی دیگر مثالوں کو بنیاد بناکر ہم نے کبھی ان شعبوں کو تسلیم کیا ہے جو کہ غیر قانونی، غیر شرعی یا غیر اخلاقی ہیں؟ حالانکہ ان شعبوں یا کاروبار و تجارت میں بھی درجنوں یا سیکڑوں افراد کو روزگار میسر ہوا کرتا ہے۔
اسمگلنگ، جوا، سٹہ، ذخیرہ اندوزی، نقلی و جعلی مال کی تیاری، شراب و منشیات کی پیداوار و ترسیل اور تجارت وغیرہ وغیرہ… آخر ان تمام معاملات کو چلانے والے بھی تو انسان یعنی مالکان و ملازمین ہی ہوا کرتے ہیں اور یہی ان کا پیشہ یا روزگار ہوا کرتا ہے۔ تو کیا کبھی کسی نے ایسے کسی بھی غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی کاروبار و دھندے کو محض بے روزگاری کے خاتمے یا حصولِ روزگار میں اضافے کی خاطر جائز، قانونی یا گوارہ قرار دیا ہے؟
اوپر دی گئی ان چند مثالوں کا مطلب ہرگز بھی یہ نہیں کہ پراپرٹی یا شیئرز کا کاروبار غیر قانونی یا غیر شرعی ہے۔ تاہم اگر اسلامی قوانین و تجارت کے تحت نہ صرف پراپرٹی بلکہ کوئی بھی خرید و فروخت یا لین دین اس جنس، شئے یا مال پر قبضہ حاصل کرنے سے پہلے ہی دوبارہ فروخت کردیا جائے تو وہ تجارت و منافع اسلامی قوانین کے تحت ممنوع ہوجایا کرتا ہے۔
اس اسلامی قانون کے پیشِ نظر ہمارے پراپرٹی اور شیئرز سے وابستہ افراد و سرمایہ کار اپنے کاروباری لین دین کے معاملات کا بخوبی تجزیہ و فیصلہ کرسکتے ہیں۔
اس صورتِ حال کا تجزیہ باآسانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ مگر اسلامی ملک میں معیشت و تجارت کے فروغ و نشوونما اور استحکام کے لیے بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند کیے جانے والے فیصلے… جن میں معیشت و تجارت کی درست، حقیقی اور مثبت و جائز سمت کا تعین نہ ہو… ملک و معیشت اور عوام کے لیے مزید دشواریوں اور انحطاط کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔
دو دہائی قبل ایک ایسا ہی فیصلہ اُس وقت کیا گیا تھا جب بینکوں کو کنزیومر فائنانسنگ (Consumer Financing) کی عجلت میں اجازت دے دی گئی تھی، جس کے بعد عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے بینکوں کے نئے قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے دھڑا دھڑ گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور دیگر اشیاء حاصل کرنا شروع کرد ی تھیں۔ ہمارے ملک کا قیمتی لوہا اور دیگر معدنیات و میٹریل ان گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کی نذر ہوگیا اور ہو رہا ہے۔ جس لوہے اور میٹریل کو صنعتی مشینری کی منیوفیکچرنگ میں استعمال کیا جاسکتا تھا وہ آج مہنگا درآمدی ایندھن پی رہا ہے۔ بہرکیف ان گاڑیوں کی اندھا دھند تیاری اور فروخت نے ہمارے غریب ملک میں درآمدات کا ایک بہت بڑا سلسلہ شروع کر دیا۔ گاڑیوں کے درآمد کردہ انجن، باڈی پارٹس اور آرائش و سجاوٹ سے لے کر ان کا CNG فیول، پیٹرول، ڈیزل اور انجن آئل تک منگوائے جارہے ہیں۔ ہمارا قیمتی زرمبادلہ اس فضول کی عیاشی اور نمودونمائش پر بڑی بے دردی سے ضائع ہو رہا ہے،جس کے نتیجے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے کرنٹ اکائونٹ کے خسارے میں بہت بڑا دخل آٹو انڈسٹری کے فروغ کا بھی ہے۔ جبکہ ٹریفک کا بڑھتا ازدحام، سڑکوں کی تنگی، اور مرمت کے اخراجات، پارکنگ کے مسائل اور ماحولیاتی آلودگی و صوتی آلودگی کے وبال اضافی ہیں۔
اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ آٹو انڈسٹری نے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کیے ہیں،لیکن اگر دیانت داری سے اس ساری صورتِ حال کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ تمام فوائد و مقاصد زراعت، صنعت، لائیو اسٹاک، برآمدات اور درآمدات کے متبادل ذرائع کو اختیار کرکے بھی بخوبی حاصل کیے جا سکتے تھے۔
متذکرہ بالا شعبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہماری زرعی پیداوار اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے ذریعے خودکفالت اور ایکسپورٹ کو بڑھا سکتی تھی۔ لائیواسٹاک میں کی جانے والی سرمایہ کاری بھی گوشت اور دودھ میں خودکفالت کے بعد برآمدات کے ذریعے قیمتی زرِ مبادلہ حاصل کرسکتی تھی۔ اسی طرح برآمدی صنعتوں کا فروغ اور درآمدی مصنوعات کے متبادل کے حصول اور درآمدی بل میں کمی لاکر ہمارے توازن ادائی یعنی کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم کرسکتی تھی، جبکہ ان تمام شعبوں میں مطلوبہ اہداف و مقاصد کا حصول بغیر عوامی شرکت و تعاون یا اشتراکِ عمل کے ممکن نہ تھا۔ گویا بے روزگاری میں کمی اور روزگار کے نئے مفید، بامقصد اور زیادہ اہمیت کے حامل شعبے عوام و خواص کو میسر آسکتے تھے۔
nn