’’جڑنے کی بات کبھی نہیں کی!‘‘

بلاشبہ صوبہ سندھ امن و آشتی کی سرزمین ہے اور یہاں کے عام افراد باہم مل جل کر رہتے ہیں، تاہم کثیر اللسانی صوبہ ہونے کی بنا پر بسا اوقات کسی معاملے پر اختلاف کا ہوجانا عین فطری ہے۔ زیر نظر تحریر ممتاز دانش ور اور کالم نگار پروفیسر عبداللہ ملاح کی ہے، جو بروز جمعۃ المبارک یکم جولائی 2022ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر شائع ہوئی ہے، جس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے پیش نظر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے پسِ پردہ یہ نیک نیتی بھی کارفرما ہے کہ سندھ کے دانش ور طبقے میں سے چند اہلِ دانش و بینش جس نظریے اور سوچ کے حامل ہیں اس کے بارے میں دیگر اہلِ سندھ اور اہلِ وطن بھی آگہی حاصل کرسکیں اور باہم غلط فہمیوں کے تدارک کے لیے سعی کی جاسکے۔ بہ قول حفیظ ہوشیار پوری
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
نوٹ: کالم کے مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
………………
’’گزشتہ ہفتے سے خصوصاًسندھ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی جانب سے مختلف ٹی وی چینلوں، اخباری پریس کانفرنسوں، اسمبلی میں خطابوں، نیز عام سوالات جوابات میں سندھ اور اہلِ سندھ پر بے حد غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر امین الحق اور سابق میئر کراچی وسیم اختر صاحب نے ایک نجی ٹی وی چینل پر کی گئی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اگر حکومت نے ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عمل نہیں کیا تو ہم بہادرآباد کو تالا لگاکر راستوں پر نکل آئیں گے۔ شاید ان کا اشارہ توڑ پھوڑ، گھیرائو، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی طرف ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’معاہدے کے مطابق سندھ کے شہروں کے سیاسی طور پر وارث ہم ہیں۔ ان شہروں کے انتخابات میں سیٹیں ہمیں ملنی چاہیے تھیں۔ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ میرپورخاص، سکھر اور نواب شاہ ڈویژن کے تمام شہروں میں حقِ حاکمیت ہمارا ہے اور ان شہروں کی سیاست کے وارث ہم ہیں۔ ان شہروں کے سارے انتخابی حلقے ہماری مرضی کے مطابق تشکیل دیئے جانے یے تھے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اظہارالحسن صاحب نے بھی ایک نجی ٹی وی چینل پر دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات کی ہے کہ بلدیاتی نظام کے قانونی اختیارات کے متعلق سابق چیف جسٹس گلزار صاحب نے جو فیصلہ دیا ہے، سندھ سرکار اس پر عمل کرے اور ہمیں بلدیاتی نظام کے ذریعے شہروں کے تمام تر اختیارات دے دیئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم آج تک وفاقی حکومت کے اتحادی رہے ہیں، سندھ سرکار سے معاہدے بھی کیے ہیں، لیکن اس سارے سیاسی سفر میں ہمیں صرف پرویزمشرف نے ہی بااختیار بنایا۔ پرویزمشرف کے دور ہی میں ہمارے سیاسی اختیارات اور حقوق بحال ہوئے، ہم نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس کے بعد سے آج تک ہمیں ہمارے مطلوبہ اختیارات نہیں دیئے گئے۔ اگر ہمیں شہروں میں انتظامی اختیارات نہیں ملے تو ہم بھی پھر دوسرا راستہ اپنائیں گے اور ہم مطلوبہ انقلاب لاکر شہروں کی سیاست کے مالک بنیں گے۔
قومی اسمبلی کے رکن اسامہ قادری نے بجٹ اجلاس کے اختتام کے وقت دورانِ خطاب کہاکہ ’’آنے والا بلدیاتی الیکشن ملتوی کیا جائے۔ نئی حلقہ بندیاں کرکے نئے قوانین کے تحت انتخابات کروائے جائیں۔ اگر کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ہم اتحادی جماعت کی نشستوں سے اٹھ کر دیگر سیٹوں پر بیٹھنے میں دیر نہیں لگائیں گے‘‘۔ ان کی یہ بات درست ہے، کیوں کہ ایک قافلے کو چھوڑ کر دوسرے قافلے میں شامل ہوتے وقت، ایک ہاتھ کو جھٹک کر دوسرے ہاتھ کو تھام لینا… اس کا تعلق دراصل انسانی ضمیر کے فیصلے سے ہے۔ اگر دل، روح اور ضمیر کو خیرباد کہہ کر کوئی فرد اپنا قافلہ تبدیل کرتا ہے تو اس میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ شاید ان (متحدہ) کا اتحادی جماعت سے جو تعلق ہے وہ ان کے دل اور روح کے دھاگوں کے ساتھ بندھا ہوا نہیں ہے۔ موقع پرستی، مفاد پرستی اور کسی سیاسی مقصد کے تحت ہے۔ اس لیے ایک سیٹ سے دوسری سیٹ تو رہی ایک طرف، دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک کا فاصلہ بھی ان کے لیے مختصر سی مسافت طے کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ سابق حکومت اور موجودہ حکومت ہمارے ووٹوں سے قائم ہے۔ انہوں نے نہ صرف سخت ترین زبان میں اور نفرت انگیز لہجے میں اتحادی حکومت پر غصے کا اظہار کیا بلکہ اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا۔ تیسرے دن بھی ایم کیو ایم والوں نے پاکستان اسٹڈی کے پرچے میں بنگال سے آنے والے بہاریوں کے بارے میں پوچھے گئے سوالات پر اعتراض کیا اور کہا کہ بہاری ہمارے بھائی ہیں، ان کے خلاف اس قسم کے منفی سوالات نصاب اور امتحانی پرچوں میں نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے بنگال سے آنے والے بہاریوں کو پاکستان بنانے والا اور بچانے والا قرار دیا اور کہاکہ ان کے سندھ میں آنے سے کون سا مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ سندھ بورڈ کے امتحانی پرچے میں اس قسم کے سوالات شامل کیے گئے ہیں! ان کے اس غصے اور اعتراض کا تدارک کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ان کے اعتراض کو قومی اسمبلی کی کمیٹی کے حوالے کیا ہے۔ ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی سندھ بورڈ کو جھاڑ پلادے، آئندہ بہاریوں کے بارے میں اس قسم کے سوالات جوابات پر بندش لگادے، لیکن بہاریوں نے بنگال میں اپنی قوم کو جس بے دردی سے ذبح کیا، جس بے رحمی کے ساتھ بنگال کو آگ لگائی، تاریخ کے اس لکھے ہوئے کو دنیا کا کون سا بورڈ تبدیل کرسکے گا؟ دنیا کی ظالم نسلوں، افراد اور حکمرانوں کے گناہوں کو دھونے کے لیے آج تک کوئی بھی قلم وجود میں نہیں آیا ہے۔ بورڈ کا پرچہ اور اس میں کیے گئے سوالات، ان کے دیئے گئے جوابات تو قومی اسمبلی کی کمیٹی ضرور رد کردے گی، لیکن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘، عالمی صحافیوں کے چشم دید مشاہدات پر تشکیل شدہ رپورٹس پر مبنی کتاب ’’جو کچھ بنگال میں ہوا‘‘ کو کوئی کس طرح رد کرے گا؟
اس شکایت اور اس لہجے کا تعلق بھی اس بدترین سیاسی خواہش سے ہے کہ مہاجرین کو سندھ میں منگوا کر سندھ کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والی اردو آبادی کی تنظیموں، شخصیات اور اہلِ قلم، صحافیوں کا شروع سے لے کر سندھ کے لوگوں کے بارے میں یہ منفی، انسان دشمن سیاسی رویہ رہا ہے۔ سندھ کی سیاسی شخصیات، جمہوریت پسند، ترقی پسند اور قوم پرست پارٹیوں نے ہمیشہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والی اردو داں آبادی کو بے حساب عزت اور مان دے کر اپنا بھائی بنانے کی ہزارہا مساعی کیں، اپنے شہر دیئے، روزگار دیا، ان کی زبان کی عزت کی، ان کی زبان میں سندھ کے قومی شعرا نے شاعری کی، اہلِ قلم نے کتابیں لکھیں، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو تک نے اردو زبان میں بات چیت کرنے میں فخر محسوس کیا۔ جی ایم سید سے لے کر بلاول بھٹو تک نے ان کی دعوتیں کیں، ان کا استقبال کیا، اپنے ساتھ لے کر چلنے کے سو سو جتن کیے، اس ملک کی ہر جمہوری سیاسی پارٹی نے اردو بولنے والوں کو اپنا سیاسی شریکِ سفر بنانے کے لیے سیکڑوں کوششیں کیں… لیکن ان تمام سیاسی، سماجی اور اخلاقی مہربانیوں کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے جمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ مصالحت اور سمجھوتا نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس اُس نے ملک کی غیر آئینی، جمہوریت دشمن حکومتوں کا ساتھ دیا، سندھ اور اہلِ سندھ کے ساتھ جنگ کی جس کی وجہ سے دشمنیاں بڑھیں۔ ضیا الحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تو ایم کیو ایم نے منظم صورت میں ضیا کی حمایت کی (اُس وقت ایم کیو ایم کا وجود ہی کہاں تھا؟ (مترجم)۔ ضیا کے خلاف جاری ایم آر ڈی کی جدوجہد کی عملی طور پر شدید مخالف کی (لیکن اُس وقت یعنی 1983ء میں بھی ایم کیو ایم کا وجود ابھی عمل میں نہیں آیا تھا۔ مترجم)، شہروں میں بڑی رکاوٹیں پیدا کیں، پرویز مشرف کے دور میں جمہوریت کا تختہ الٹ دیا گیا، بے نظیر بھٹو اور اُن کے سیکڑوں ساتھیوں کو شہید کردیا گیا تو اس موقع پر بھی ایم کیو ایم آمرِ وقت کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آئی۔ اِس وقت بھی ایم کیو ایم اتحاد کی حکومت میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اتحادی حکومت نے اسے گورنر شپ دی ہے، وفاق میں وزارتیں دی ہیں، چیف سیکریٹری سندھ، کراچی اور حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹر اردو بولنے والی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں، پھر بھی ان کی سندھ سے، جمہوریت سے نفرت اور غصہ ہے۔ اظہارالحسن نے صاف کہا ہے کہ ہم پر مہربانیاں پرویزمشرف نے کیں، باقی دوسروں سے کیا گیا لین دین (لینا دینا) یاد نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے سیاسی رہنما سندھ کو توڑ کر اس کے دو ٹکڑے کرکے اپنا ایک صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ اب ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ اتحادی سرکار پر دبائو ڈال کر کیے گئے معاہدے پر عمل کرایا جائے، یعنی ایک تو سابق چیف جسٹس گلزار کے دیئے گئے فیصلے کے مطابق بلدیاتی اداروں کو مکمل بااختیار بنایا جائے اور ان اختیارات کے بعد کراچی، سکھر اورمیرپور خاص میں سندھ کے لوگوں کو تنگ کیا جائے، انہیں شہر خالی کرنے پر مجبور کردیا جائے۔ یہ سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے حسبِ منشا حلقہ بندیاں کرائی جائیں اور ان حلقوں سے بڑی تعداد میں منتخب ہوکر پھر شہروں پر قبضہ کرلیا جائے۔ لیکن ان کی اس تمنا کے سامنے سندھ کی سیاسی قوتیں خاص طور پر پی پی ابھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، کیونکہ اگر سندھ میں شہروں کے حاکم ایم کیو ایم والے بنتے ہیں تو اس صورت میں پھر پی پی والے آخر کیا کریں گے؟ 18 ویں ترمیم کے بعد مرکزی حکومت کے پاس صوبوں میں اپنی من پسند سیاسی قوت کو اُس کی خواہش کے مطابق قانون اور آئین کے ذریعے کچھ بھی دینے کا کوئی بھی اختیار اب باقی نہیں رہا ہے۔ ایم کیو ایم کو اب جو کچھ بھی حاصل کرنا ہے وہ سندھ سرکار سے ہی حاصل کرنا پڑے گا۔ اس لیے اب وہ اپنی اس پرانی سیاسی تمنا کی تکمیل کے لیے شہروں کو بااختیار بنانے اور حسبِ مرضی حلقے بنانے، بہاریوں کو سندھ میں آباد کرنے جیسے مطالبات کو پورا کرانے کے لیے مرکزی حکومت کو آنکھیں دکھا رہی ہے کہ مرکزی سرکار حکومتِ سندھ کو مجبور کرے کہ وہ ایم کیو ایم کے یہ تینوں مطالبات منظور کرے۔ سب باتیں اپنی جگہ پر موجود ہیں، یہ ہو بھی سکتا ہے، لیکن سندھ کے لوگ کسی بھی غیر کی اس قسم کی سندھ دشمن خواہش کو کبھی بھی حتی المقدور پورا ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اُن کے ان مطالبات کے خلاف سندھ ہمیشہ لڑے گا۔ سندھ میں سندھی زبان بولنے والا جب تک ایک بھی فرد موجود ہے اُس وقت تک ایم کیو ایم کی یہ بدترین سیاسی خواہشات پوری نہیں ہوں گی۔ اس لڑائی میں آج نہیں تو کل اردو آبادی کی آنکھوں پر جہالت کی سیاہ پٹیاں باندھ کر ان کی رہنمائی کرنے والے یہ سب خوار اور خراب ہوں گے (ستم ظریفی یہ ہے کہ کالم نگارنے اردو بولنے والی سارے آبادی کو یک طرفہ طور پر ایم کیو ایم کے ساتھ غیر ضروری حد تک نتھی اور وابستہ کردیا ہے، درآں حالیکہ ان کی ایک معتدبہ تعداد جماعت اسلامی، جے یو پی، جے یو آئی، پی پی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی وابستہ اور سرگرم عمل ہے جو متحدہ کے سخت خلاف ہیں۔ (مترجم)۔ ایم کیو ایم اپنے اعمال اور افعال کے سبب ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اب محض گلیوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
اردو بولنے والی آبادی کے وہ افراد جو شروع سے لے کر ایم کیو ایم کی اس سندھ اور جمہوریت دشمن، آمریت نواز سیاست کے مخالف تھے انہیں اب باہر نکل کر آنا چاہیے اور فوراً ہی انہیں اردو دان آبادی کی رہنمائی کرنی چاہیے، اور فاشسٹ تنظیم اور اس کے رہنمائوں کو اردو بولنے والی آبادی کے بیچ سے نکال باہر کرنا چاہیے، تاکہ اردو بولنے والی آبادی سندھ میں امن اور انصاف کے ساتھ اس ملک کے اصل باشندوں اور وارثوں کے ساتھ مل کر اپنی نسل اور مستقبل کو محفوط بناسکے۔‘‘