’’ اب تک جتنے مقامات کو اصحابِ کہف سے منسوب کیا گیا ہے ان سب میں قرائن و شواہداردن والے غار کے حق میں ہیں ‘‘
غارِ کہف(کہف کے معنی غار کے ہیں) اردن کے شہر عمان سے تقریباً سات کلومیٹر جنوب میں واقع ہے، اور اردن کی مرکزی شاہراہ جوعقبہ سے عمان تک گئی ہے اس کا فاصلہ3کلومیٹر ہے۔ اصحابِ کہف کا واقعہ قرآن کریم میں آیا ہے اور اسی واقعے کی وجہ سے پوری سورت کا نام سورہ کہف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک بت پرست بادشاہ کے زمانے میں کچھ نوجوان دینِ توحید پر ایمان لے آئے تھے اور شرک و بت پرستی سے بیزار تھے۔ بت پرست بادشاہ اور اُس کے کارندوں نے ان پر ظلم و ستم توڑنے شروع کیے، لہٰذا یہ لوگ بستی سے فرار ہوکر ایک غار میں مقیم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند مسلط فرمادی اور یہ سالوں تک پڑے سوتے رہے۔ غار کا محلِ و قوع ایسا تھا کہ سورج کی روشنی اور ہوا تو بقدرِ ضرورت اندر پہنچتی تھی لیکن دھوپ کسی وقت اندر نہیں آتی تھی۔ کئی سال گزرنے کے بعد بت پرست بادشاہ کی حکومت ختم ہوگئی اور اس کی جگہ ایک موحد اور صحیح العقیدہ نیک بادشاہ برسرِ اقتدار آگیا۔ اس کے زمانے میں یہ لوگ نیند سے بیدار ہوئے۔ بھوک لگی ہوئی تھی، انہوں نے ایک ساتھی کو سکے دے کر شہر بھیجا اور یہ تاکید کی کہ خفیہ طریقے سے جاکر کوئی حلال کھانا خرید لائے۔ وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ابھی تک اسی بت پرست بادشاہ کی حکومت ہے، چنانچہ یہ صاحب چھپتے چھپاتے بستی میں پہنچے اور ایک نانبائی کی دکان سے کھانا خریدنا چاہا، لیکن جب سکہ اُس کے حوالے کیا تو راز کھلا کہ یہ تو تقریباً300سو سال پرانے سکے ہیں۔ انہیں یہ معلوم کرکے اطمینان ہوا کہ حکومت بدل چکی ہے۔ بادشاہِ وقت کو بھی اطلاع پہنچی اور ان صاحب نے اپنے ساتھیوں کو بھی نئے حالات کی اطلاع دے دی۔ یہ کُل سات نوجوان تھے، اگرچہ ان سب کو دینِ برحق کی نشر و اشاعت پسند تھی لیکن انہوں نے اپنے لیے دنیا کے ہنگاموں سے دور، باقی ماندہ زندگی اسی غار میں گزارنا پسند کی۔ بعض روایات میں ہے کہ جب بادشاہِ وقت ان کی زیارت کے لیے غار پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔
قرآن کریم نے یہ واقعہ بیان کرکے ایک مسجد کی تعمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم میں اس واقعے کی تاریخی اور جغرافیائی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں، چنانچہ مفسرین اور محققین نے اس سلسلے میں مختلف آراء ظاہر کی ہیں۔
بعض محققین نے دلائل دیئے ہیں کہ غار ترکی کے شہر انس میں ہے(جس کا اسلامی نام فرسوس ہے)، بعض نے اندلس کے ایک غار کا بتایا، بعض نے کہا کہ یہ اردن میں ہے، بعض نے کہا کہ شام میں ہے، اور بعض کا خیال ہے کہ یہ یمن میں ہے، لیکن1953ء میں اردن کے محقق تیسیر طویان کو اس غار کے متعلق معلوم ہوا اور وہ ایک دشوار گزار راستہ طے کرکے وہاں پہنچ گئے جو ایک چٹیل پہاڑ پر واقع تھا اور رجیب نامی ایک بستی کے قریب ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تو قیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اب اس بستی کا نام رقیم رکھ دیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے اصحابِ کہف کو اصحاب الکہف والرقیم کہا ہے۔ تیسیر طیان صاحب نے تحقیق جاری رکھتے ہوئے محکمہ آثارِ قدیمہ کو اس طرف متوجہ کیا اور ماہر قدیمہ رفیق رجانی نے ماہرانہ تحقیق کے بعد یہ رائے ظاہر کی کہ یہی غارِ اصحابِ کہف ہے۔ چنانچہ1961ء میں اس کی کھدائی کا کام شروع ہوا اور قرآن کریم کے بیان کے مطابق شواہد ملتے چلے گئے اور آج تک ان نفوسِ قدسی کی ہڈیاں اور روٹیاں بھی محفو ظ و مامون ہیں۔
غار باہر سے تنگ، اندر سے کشادہ اور صحن کی طرح ہموار ہے کہ اس کے اندر دس بارہ افراد آسکتے ہیں۔ غار پہاڑی کے دامن میں واقع ہے اور اس کا منہ جنوب کی جانب ہے، چنانچہ صبح کے وقت سورج نکلتا ہے تو سورج غار کے دائیں طرف سے ہوتا ہوا نکل جاتا ہے اور دھوپ غار کے اندر نہیں آتی، صرف عکس نظر آتا ہے۔ اس کے دائیں جانب اوپر کی طرف بڑا سا سوراخ ہے جس سے روشنی چھن چھن کر غار میں آتی ہے اور ہوا بھی آتی ہے جس کی ضرورت اصحابِ کہف کو تھی۔ اب اس سوراخ کو مٹی و دھول سے حفاظت کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ شام کے وقت سورج غار کے بائیں جانب سے کتراتا ہوا نکل جاتا ہے اور غار میں صرف دھوپ کا عکس نظر آتا ہے۔ غار کے اندر پتھر سے بنی ہوئی سات قبریں ہیں، تین قبریں غار کے دائیں اور چار قبریں غار کے بائیں جانب ہیں۔ اب تمام قبروں سے نوجوانوں کی ہڈیاں نکال کر ایک قبر میں رکھ دی گئی ہیں اور قبر کو بند کردیا گیا ہے، صرف ایک سوراخ رہنے دیا گیا ہے جس سے لوگ ان کی زیارت کرتے ہیں۔ اس میں سات کھوپڑیاں، ہاتھ پائوں اور پسلیوں کی ہڈیاں رکھی ہیں۔ غار کے اندر ایک الماری میں پرانی ساخت کے مٹی کے لوٹے، تسبیح، پرانی روٹی، ایک چھوٹے کتے کے سر کی ہڈی بھی رکھی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اصحابِ کہف کے ساتھ تھا۔ غار کے اوپر کچھ پیچھے پرانی ساخت کی ایک مسجد کی بنیاد موجود ہے جس کا محراب بیت اللہ کی جانب ہے۔ مسجد دس میٹر لمبی اور دس میٹر چوڑی ہے۔ ابتدا میں یہاں رومیوں کی عبادت گاہ تھی۔عہدِ اسلام میں، غالباً عبدالملک بن مروان کے زمانے میں اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا جہاں ایک کتبہ کی تحریر سے اخذ کیا گیا ہے کہ احمد بن طولون کے بیٹے غمارویہ کے زمانے میں 895ء میں اس مسجد کی مرمت کی گئی تھی۔ غار کے مشرقی حصے میں بلند ہوتی ہوئی چھوٹی سی سرنگ ہے جو دھواں نکالنے والی چمنی کی شکل میں ہے۔ جب یہ غار دریافت ہوا تو اس پر ایک پتھر رکھا ہوا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے لشکر کے ایک جنرل اسامہ بن معقد نے اپنی کتاب ’’الاعتبار‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ وہ تیس سواروں کے ساتھ وہاں سے گزرے تو اس غار میں گئے اور وہاں نماز پڑھی لیکن وہاں ایک تنگ سرنگ تھی اس میں داخل نہیں ہوئے۔
پاکستانی محقق مولانا تقی عثمانی صاحب نے تمام محققین جن میں ابن جریر، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا ابوالکلام آزاد، تیسیر طویان اور رفیق جانی شامل ہیں، کی تحقیقات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے، اس کے بعد آثار کا مشاہدہ کیا ہے۔ بہرکیف اتنے پرانے واقعے کے محلِ وقوع کے بارے میں حتمی طور پر سو فیصد یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اب تک جتنے مقامات کو اصحابِ کہف سے منسوب کیا گیا ہے ان سب میں قرائن و شواہد اس غار کے حق میں ہیں، کسی اور غار کے حق میں نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ تیسیر طویان صاحب نے اپنی کتاب میں انس کے غار کا اس غار سے موازنہ بھی کیا ہے، اس موازنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے بیشتر محققین کا کہنا یہ ہے کہ وہ بادشاہ جس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اصحابِ کہف نے غار میں پناہ لی، ٹراجان تھا جو 117 تک حکمران رہا۔ اس غار کے زمانے کے سکے پڑے ہوئے ملے تھے اور بادشاہ جس کے عہد میں اصحابِ کہف بیدار ہوئے اس کا نام تھیوڈوسیس تھا جو پانچویں صدی کے آغاز میں گزرا۔ مولانا تقی عثمانی نے غارِ کہف کا 1986ء میں مشاہدہ کیا تھا اور اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ راقم نے بھی اپنے والدِ محترم مولانا فاضل عثمانی مہاجر مکی اور دیگر اہلِ خاندان کے ساتھ بذات ِخود اصحاب ِکہف کے آثار کا مشاہدہ کیا ہے۔