بلوچستان۔ افغان حکومت کی ثالثی؟

صوبے میں امن و امان کی خرابی حکومتی دعوؤں کی نفی ہے

افغان حکومت کی ثالثی سے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات اور روابط کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دنوں کابل میں اہم نشست ہوئی۔ کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید، دوسرے حکام اور خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع کے عمائدین ملاقاتوں اور امن کے قیام کے عمل میں حصہ لے چکے ہیں۔ کابل میں گفتگو اور مذاکرات ماہ جون میں ہوئے ہیں۔ اس ذیل میں افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد دوٹوک مؤقف پیش کرچکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔
خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے اندر حالات کی سنگینی معروضی حقیقت ہے، جس کی وجہ مختلف خیال و ترجیحات کے حامل شدت پسندگروہ ہیں۔ ٹی ٹی پی گروہ سے پچھلے دنوں ہونے والے مذاکرات، پیش رفت اور دوسرے امور سے متعلق 22جون کو ایوانِ وزیراعظم میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس بند کمرے میں منعقد کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ذرائع ابلاغ کے سامنے چیدہ چیدہ باتیں رکھیں۔ وزیراعظم سمیت اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت شریک تھی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔ پیش ازیں پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں پارلیمنٹ کوآن بورڈ لینا چاہیے۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی نے شیری رحمان، فرحت اللہ بابر اور قمر زمان کائرہ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے تاکہ اس ضمن میں دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطہ رکھا جائے۔ ایوانِ بالا کے رکن سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی سینیٹ اجلاس میں نکتہ اعتراض پر پارلیمنٹ کو اعتماد اور آن بورڈ لینے کا کہا ہے۔ مشتاق احمد خان نے مزید توجہ مبذول کرائی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا ممبر ہونے کے باوجود انہیں اعتماد میں لیا گیا اور نہ کسی اجلاس میں طلب کیا گیا۔ بہرکیف یقیناً یہ سارا عمل پارلیمنٹ کے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ عسکری قیادت کو شانہ بشانہ لے کر چلنا چاہیے۔ یوں اشتراکِ کار اور ہم آہنگی سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں گے۔ اور اگر کہیں کوئی سقم پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے کسی ایک کو مورد الزام نہ ٹھیرایا جا سکے گا۔ یعنی پارلیمنٹ، قومی اور عسکری قیادت یک صف ہوگی، اورعوام کوئی بھی پیش رفت قومی اجماع سمجھیں گے۔ یاد رہے کہ مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہی نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ یہاں اگر ضرورت دینے کی پڑتی ہے تو وسیع تر مفاد میں جزوی نقصان قبول کرلینا چاہیے تاکہ مزید بربادی کا تدارک ہو۔
نئی افغان حکومت بلوچستان کے مسئلے کے بارے میں بھی ثالثی کی پوزیشن میں ہے، کیوں نا بلوچستان کے سخت گیر رہنمائوں سے بات چیت کا آغاز بھی کابل حکومت کے توسط سے ہو، تاکہ خیر کا پہلو برآمد ہو۔ یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ بلوچستان میں امن وامان کی حالت خراب ہے، مسائل گمبھیر ہیں۔ حکومتیں تو عوامی حمایت حاصل کرنے یا عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کی خاطر سطحی، بے معنی اقدامات کرتی ہیں، اس کے برعکس معروضی حقائق اپنی جگہ کچھ اور ہوتے ہیں۔ صوبے کی حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے شہر کوئٹہ اور قومی شاہراہوں پر فورسز کی چیک پوسٹیں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اوّل تو یہ محض باتیں تھیں، جبکہ دراصل مرکزی شاہراہوں کو مزید محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی بجٹ 2022-23ء میں امن وامان برقرار رکھنے کی خاطر خطیر رقم کا مختص کیا جانا حکومت کی باتوں کی نفی ہے۔ مزید برآں 8جون کو کابینہ کے اجلاس میں وفاقی اور صوبائی منصوبوں اور قومی شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں کی حفاظت اور تکمیل کی خاطر سیکورٹی دینے کا فیصلہ ہوا۔ بتایا گیا کہ اخراجات نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) ادا کرے گی۔ صوبائی وزیر خزانہ، تعمیرات و مواصلات عبدالرحمان کھیتران نے البتہ وفاق سے درست طور پر امن وامان کے بجٹ کا بوجھ اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے کہ وفاق کا رویہ حالات کی خرابی کی وجہ ہے۔صوبے کی قومی و دوسری شاہراہیں غیر محفوظ ہیں۔ 18جون کو ہرنائی میں شاہراہ کی تعمیر پر مامور، تعمیراتی کمپنی کے چارمزدور اغوا کرلیے گئے۔ تعمیراتی مشینری اور اوزار جلادیے گئے۔کوئٹہ کے نواحی علاقے اسپین تنگی کے مقام پر کول مائن کمپنی کے چیف انجینئر سمیت چار ملازم اغوا ہوئے۔رہائی کے بدلے کمپنی کے مالک سے کروڑوں روپے تاوان کا مطالبہ ہوا ہے۔ کوئٹہ اور کچھی کی کوئلہ کی صنعت مسلح گروہوں کے زیراثر ہے،جنہوں نے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں واقع مارگٹ اور کوئٹہ کی حدود میں مارواڑ، اسپین کاریز اور گرد و نواح کی کوئلہ کانیں عرصہ ہوا ،بند کرادی ہیں۔اسپین کاریز میں واقع حبیب اللہ کول مائنز کمپنی،ایم ایم کول مائنز اور ہزارہ کول مائنز کمپنی بند ہے۔یہ کوئلہ کانیں کوئٹہ اور کوئٹہ چھائونی سے متصل ہیں۔ اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہرنائی کی کوئلہ کانوں کو بھی درپیش ہے۔ مسلح گروہ ایک کوئلہ کان سے ماہانہ ساٹھ ہزار روپے جبری ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ اب فی مزدور دس ہزار روپے وصولی کی دھمکی دی ہے۔ یعنی ہل من مزید کے مطالبے کے تحت کوئلے کی صنعت بند کرائی گئی ہے۔ بند ہونے کی وجہ سے کان میں پانی بھر آتا ہے، اس طرح کوئلہ کان مالکان اور کمپنیوں کو مزید کروڑوں روپے کے نقصان کا سامناہے۔ مسلح گروہوں نے اپنے پاس کول کمپنیوں اور کان مالکان سے مزدوروں کی رجسٹریشن کا حکم بھی دیا ہے۔ مچھ میں55کوئلہ کان کمپنیاں کام کررہی ہیں،جہاں کوئلہ کانوں کی تعداد284ہے اور 3416مزدور کام کرتے ہیں۔ ضلع ہرنائی میں 38کول مائنز کمپنیاں کام کررہی ہیں،کوئلہ کانوں کی تعداد 941ہے اور 8927مزدور کان کنی کے روزگار سے وابستہ ہیں۔ کوئٹہ کے مضافات میں 43کمپنیاںہیں اور 513کانوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے۔کوئٹہ کی ان کانوں سے9672مزدوروں کا رزق وابستہ ہے۔ یعنی ایک مزدور ماہانہ 10 ہزارروپے کس طرح مسلح گروہوں کو ادا کرسکتا ہے؟ظاہر ہے ایسے حالات میں مزدور ان علاقوں میں جانے سے گریز ہی کریں گے۔ اور پھر صنعت کو دو مختلف مسلح گروہوں کے قہر کا سامنا ہے۔نیز پیشگی ادائی کی صورت میں کام شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ تصور کیا جائے کہ یہ گروہ محض ان علاقوں سے ماہانہ کس قدر بڑی رقم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں یہ بھی نگاہ میں رکھا جائے کہ حکومتی عمل داری کہاں قائم ہے؟پیش ازیں فورسز بھی تحفظ کے نام پر فی ٹن 300روپے معاوضہ لیتی تھیں جو کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے تعیناتی کے ساتھ ہی ختم کرایا ہے۔ مچھ اور کوئٹہ کی حدود کے مائننگ علاقوں میں کچھ عرصے کے لیے فوج تعینات ہوئی تو بہتری واقع ہوئی اور کوئلے کی صنعت سے وابستہ افراد نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چناں چہ سوال امن کی صورت حال کا ہے۔ یہ اجمال کوئٹہ اور اس سے متصل مچھ اور ہرنائی کا ہے۔ سوچیے، وسیع صوبے کے دوسرے دور دراز علاقوں کی صورت حال کیا ہوگی؟ لہٰذ لازم ہے کہ مسئلۂ بلوچستان سے متعلق سخت گیر مؤقف کے حامل بڑوں سے بات چیت کی حکمتِ عملی پر کاربند ہوا جائے۔ ملک اور بلوچستان کے سیاسی بڑے، اس تناظر میں مؤثر کردار نبھا سکتے ہیں، اور موجودہ افغان حکومت ثالثی کے لیے سخت گیر بلوچ رہنمائوں کے لیے بااعتماد ہے۔