پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی بقا کی جنگ
پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں 17 جولائی کو ہونے والے انتخابات وفاقی و صوبائی حکومت، تحریک انصاف کی شکل میں موجود اپوزیشن، اور اس ملک کی طاقت ور اور بے مہار اسٹیبلشمنٹ تینوں کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں، جب کہ ملک کی دیگر جماعتوں خصوصاً حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں اور اس سارے عمل سے بظاہر لاتعلق نظر آنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مستقبل کی سیاسی منصوبہ بندی کا انحصار بھی بڑی حد تک ان انتخابات کے نتائج پر ہی ہے (پنجاب کی حد تک)۔ یہ انتخابات اُن 20 صوبائی حلقوں میں ہورہے ہیں جو تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے Deseat ہونے پر الیکشن کمیشن نے خالی قرار دی تھیں۔ اس طرح یہ بیس کی بیس نشستیں تحریک انصاف کی ہیں جس کے لیے اب یہ تمام نشستیں جیتنا ناممکن ہے۔ ان منحرف ارکان میں سے دس تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ہی جیتے تھے، البتہ دس جیتے تو آزاد حیثیت میں تھے مگر بعد میں انہوں نے ہماری ماضی کی روایات کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ہماری پارلیمانی جمہوریت کا یہ ایک سنگین مذاق ہے کہ جو امیدوار متحارب سیاسی جماعتوں کو ہرا کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور متعلقہ حلقوں کے عوام نے ان سیاسی جماعتوں کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہوتا ہے، یہ ارکان ان ہی میں سے اقتدار میں آنے والی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں، یہ بھی عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، اور اس کا مقصد صرف سیاسی و مالی مفادات کا حصول ہے۔ اس طرح پہلے ہی مرحلے پر اپنے مینڈیٹ سے انحراف کرکے مالی و سیاسی مفادات حاصل کرنے کا قانونی جواز فراہم کردیا جاتا ہے، حالانکہ آزاد ارکان کی پانچ سال تک یہی حیثیت برقرار رہنی چاہیے، اور وہ کسی بھی معاملے پر حکومت یا اپوزیشن کا ساتھ دینے میں آزاد ہوں، یا عوامی مفاد کے خلاف حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے کسی گٹھ جوڑ کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ کاش الیکشن کمیشن اس پر کوئی رائے دے، یا خود اسمبلی اس پر قانون سازی کرے، یا پھر عدلیہ اس کا نوٹس لے۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
بہرحال پنجاب کے ان ضمنی انتخابات سے مستقبل کی سیاست کا رخ متعین ہوگا۔ اگر تحریک انصاف 15 سے زائد نشستیں جیت جاتی ہے تو پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت جو اصل میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، ختم ہوجائے گی اور شریف خاندان کے وراثتی سپوت حمزہ شہباز کو گھر جانا پڑ جائے گا اور اس کے اثرات مرکز میں بھی پڑیں گے جہاں پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت صرف دو ووٹوں پر کھڑی ہے۔ اور اگر 15 کے قریب نشستیں مسلم لیگ (ن) جیت جاتی ہے تو پنجاب اور مرکز میں وہ باآسانی اپنی مدت پوری کرلے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ضمنی انتخاب صرف مسلم لیگ (ن) لڑ رہی ہے، کہ یہ اس کی بقا کی جنگ ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل باقی جماعتیں صرف تماشا دیکھ رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے قمرزماں کائرہ سے ایک پریس کانفرنس میں حکوِمتی امیدواروں کی حمایت کا اعلان کرواکے اپنا سیاسی فرض ادا کردیا ہے، باقی جماعتوں کو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی۔ حکومتی امیدواروں کے جلسوں سے کسی اتحادی جماعت کا کوئی رہنما خطاب کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ ان حلقوں میں اتحادی جماعتیں امیدواروں سے کسی قسم کا تعاون کرتی بھی نظر نہیں آرہیں۔ ایسے میں ان جماعتوں کا ووٹر مسلم لیگی امیدوار کو کیسے ووٹ دے گا؟ پیپلزپارٹی کے بارے میں تو کہا جارہا ہے کہ اس نے منصوبہ بندی کے تحت مسلم لیگ (ن) کو کھائی میں اتار دیا ہے۔ اگر وہ اس میں ڈوب جاتی ہے تو پیپلز پارٹی اپنا سیاسی انتقام لینے میں کامیاب ہوجائے گی، اور اگر حکومتی امیدوار جیت جاتے ہیں تو پیپلزپارٹی شاملِ باجا تو ہے ہی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پیپلزپارٹی کا کارکن ذہنی طور پر مسلم لیگ (ن) کا شدید مخالف ہے اور اسے جنرل ضیا کی باقیات قرار دیتا ہے، وہ مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدواروں کو کامیاب کرانا اپنی نظریاتی شکست سمجھتا ہے، اس لیے یہ کارکن تاحال غیر فعال ہے اور پولنگ کے دن گھر بیٹھا رہے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان بیس کے بیس لوٹوں کو مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹ جاری کیے ہیں، یہ لوٹوں کی اپنی بھی خواہش تھی، صرف سابق صوبائی وزیر عبدالعلیم خان خود الیکشن نہیں لڑرہے، اُن کا نامزد امیدوار اُن کے حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ ان حلقوں میں عمران خان اور مریم نواز دونوں بڑے بڑے انتخابی جلسے کررہے ہیں، لیکن بظاہر عمران خان کا بیانیہ عوامی پذیرائی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے، اور تحریکِ انصاف کے ووٹرز میں 2018ء کی نسبت اضافہ ہوا ہے، نیز 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے جن ہزاروں نوجوانوںکے نئے ووٹ بنے ہیں اُن کی اکثریت بھی تحریک انصاف کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ حکومتی امیدواروں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ یہاں 2018ء میں ہارنے والے مسلم لیگی امیدوار اور اُن کے ورکرز موجودہ امیدواروں کو اپنا موجودہ اور مستقبل کا حریف سمجھتے ہوئے درپردہ ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان حلقوں میں مستقبل کے نئے امیدواروں کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، اس لیے وہ بھی موجودہ امیدواروں کی مہم میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں حکومتی امیدواروں کو اسٹیبلشمنٹ کی بھی کھلم کھلا حمایت نہیں مل رہی۔ ایک تو اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی محتاط ہے، دوسرے عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ انہیں مزید محتاط کررہا ہے، خود امیدوار بھی احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور ووٹرز بھی اس معاملے میں حساس ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سیاسی حکمتِ عملی عام آدمی کی سمجھ سے اوپر کی سطح کی ہے۔ اُن کا عوامی بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے جب کہ اندرونِ خانہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت چاہتے ہیں، اس کے اشارے بھی دیتے رہتے ہیں اور شاید اس کے لیے رابطے بھی جاری ہیں، تاہم عوام میں اُن کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ مقبول ہے جو اس قوم کے ساتھ ایک اور دھوکا ہے۔ دوسری جانب پنجاب کے ان بیس حلقوں کے امیدوار وہ ہیں جو 2018ء میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو شکست دے کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ اب اگرچہ ان کا تحریک انصاف کا ووٹر انہیں چھوڑ چکا ہے لیکن ان کا ذاتی ووٹ اور تحریک انصاف کا ایک دھڑا ان کے ساتھ ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ حکمران اتحاد کی دیگر جماعتیں بھی ان کے ساتھ ہیں، اقتدار کی چھتری بھی ان کے سر پر ہے۔ ان امیدواروں کو ذاتی طور پر بھی الیکشن لڑنے کا تجربہ ہے، جب کہ الیکشن کو Manage کرنے کا تجربہ رکھنے والی مسلم لیگ (ن) اور مزاحمتی سیاست اور انتخابی سیاست کا تجربہ رکھنے والی پیپلزپارٹی بھی ان کی حمایت میں ہے، اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی مخالفت کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور خصوصاً مریم نواز کی مقبولیت بھی انہیں فائدہ پہنچائے گی۔ ماضی میں شہبازشریف کی انتظامی شہرت ان کے لیے پلس پوائنٹ ہے، جب کہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے مقامی رہنما اور کارکنان بھی اب تحریک انصاف کے بجائے حکمران مسلم لیگ (ن) ہی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انتخابی حلقوں میں دھڑوں اور برادریوں کی سیاست کا بھی مسلم لیگ (ن) کو کافی تجربہ ہے جو ان امیدواروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی لائے ہوئے لوگوں کو صرف ڈھائی ماہ بعد گھر بھیجنے پر تیار ہوجائے گی؟ کیونکہ ان ضمنی انتخابات میں حکومتی اتحاد کی شکست پنجاب اور مرکز میں اُس کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ یہ صورتِ حال بہت گمبھیر ہے، مقابلہ بھی سخت ہے۔ 17 جولائی کا فیصلہ کسی کے بھی حق میں ہوسکتا ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر حکومت یا الیکشن کمیشن نے دھاندلی کی کوشش کی تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، حکومت مخالف تحریک زور پکڑ جائے گی، اسٹیبلشمنٹ عوامی ردِعمل کے نتیجے میں زیادہ کمزور ہوجائے گی کہ تحریک انصاف ان نتائج کو نہیں مانے گی۔ اب سنجیدہ حلقوں کے سامنے یہی سوال ہے کہ ملک کا مستقبل کیا ہے؟ اگر تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو حکومت گر جائے گی، اور اگر حکومت جیتتی ہے تو مزاحمتی تحریک زور پکڑ جائے گی۔ اس ’’آگے سمندر اور پیچھے کھائی‘‘ والی صورتِ حال میں ملک کا مستقبل سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے، پہلے سے موجودہ بحران اس پر مستزاد ہیں۔
موجودہ ہیجان سیاسی صورت حال میں سب سے زیادہ مشکل میں اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہے جو اب تک سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے، حکومتیں بنانے اور گرانے میں اس کا کردار اب تک کلیدی رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروںکو جتوانے اور ہروانے میں بھی اس کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بقول سید منور حسن اس ملک میں کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ برسراقتدار رہی ہے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے اسی اسٹیبلشمنٹ نے کھلم کھلا کردار ادا کیا اور اب انہیں رخصت کرکے نیب زدہ حکمرانوںکو اقتدار میں لانے میں بھی اس کردار واضح ہے جس کا اب عمران خان بار بار ڈھکے چھپے لفظوں اور اشاروں کنایوں میں ذکر بھی کر رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو لانے کا مقصد عالمی اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنا اور آئی ایم ایف جیسی مالی اداروں کے معاملات بہتر کرنا تھا۔ یہ مقصد حاصل ہوچکا ہے۔ اب اگر موجودہ حکمران ان کی ضرورت ہیں تو یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا ورنہ پھر کوئی نیا تماشا ہوگا۔ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول برسراقتدار جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی کسی نہ کسی مرحلے میں ڈسی ہوئی ہیں۔ فضائیں اس کے خلاف ہیں، چنانچہ وہ بوکھلائی ہوئی نظر آرہی ہے۔ صحافیوں پر حملے اسی بوکھلاہٹ کا اظہار ہیں کہ ان حملوںکی زیادہ تر ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ہی ڈالی جارہی ہے سیاسی جماعتیں تو ان سے بنا کر رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔ ان حملوں کی نئی بات یہ ہے کہ پہلی بار میڈیا ہائوس کے سامنے صحافیوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اگرچہ پٹنے والے صحافیوں کے معاملات پر سوالات موجود ہیں لیکن اب میڈیا ہائوسز کے سامنے ان کی پٹائی اور تذلیل نیا لائحہ عمل ہے جس میں ہیجان بھی شامل کر لیے گئے ہیں۔ آئندہ کیا ہوسکتا ہے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
nn