ملک میں سیلاب کی صورت حال

ریکارڈ بارشوں کے باعث اب تک بچوں سمیت 150 افراد ہلاک اور 163 زخمی ہوچکے ہیں

مون سون ہر سال آتا ہے، اور صوبائی حکومتوں کے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے دعووںکی اصلیت بے نقاب کرکے گزر جاتا ہے۔ گزشتہ سات عشروں سے پاکستان کے شہر، دیہات، قصبے اور یہاں بسنے والے لوگ ان دعووں کی چکی میں پس رہے ہیں۔ قدرت کا نظام ہے کہ دریا راستہ بدلتے رہتے ہیں، اور قدرتی نالے اپنے فطری راستوں پر ہی چلتے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران، صوبائی حکومتیں، شہری اور ضلعی انتظامیہ آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرپائے کہ وہ تمام راستے جو دریائوں کے قدرتی بہائو کے راستے ہیں ، ان کی راہ روکنے والے رہائشی منصوبوں سے کیسے اراضی واگزار کرائی جائے۔ اسلام آباد کے مارگلہ پہاڑی سلسلے سے کم و بیش درجنوں چھوٹے بڑے قدرتی نالے نکلتے ہیں، جو شہر کے مختلف کمرشل اور رہائشی سیکٹرز سے ہوتے ہوئے راولپنڈی کے نالہ لئی اور بعد میں دریائے سواں میں جاگرتے ہیں، مگر یہ قدرتی نالے تجاوزات کا شکار ہیں۔ اربوں روپے مالیت کی اس اراضی پر ناجائز قبضوں کے پیچھے سی ڈی اے کی مجرمانہ خاموشی، ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت اور سیاسی مافیا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کی حدود میں بنائے جانے والے نجی ہائوسنگ منصوبوں کے مالکان نالوں کو فروخت کرکے یہاں کی سرکاری زمین کے ذریعے اربوں روپے کما چکے ہیں اور کمارہے ہیں۔ بارشوں کے بعد جب قدرتی نالوں کو اپنا فطری بہائو نہیں ملتا تو پانی رکاوٹ کے باعث رہائشی علاقوں حتیٰ کہ اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور تعلیمی اداروں میں داخل ہوجاتا ہے اور تباہی لاتا ہے، مگر آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ کراچی میں بارش کا پانی بلاول ہائوس، یا لاہور میں جاتی امرا میں داخل ہوگیا۔ حتیٰ کہ بارش کے پانی سے ’’لال حویلیاں‘‘ بھی محفوظ رہتی ہیں اور تباہی صرف غریبوں پر آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں، جب کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں بلکہ کچھ کی قبور کا تو نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ چند مزار بھی موجود ہیں جہاں کبھی کبھی سیاسی کارکن، رشتے دار، سیر و سیاحت کرنے والے اور بہت ہی کم عقیدت مند فاتحہ پڑھ لیتے ہیں، بعض جگہوں پر مدتوں کوئی دعا کے لیے بھی نہیں جاتا۔
قومیں اپنے اعمال سے تباہ ہوتی ہیں، یہ اعمال ہی ہمارے لیے برے نتائج کا باعث ہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ سیاسی مداخلت، قانون کے نفاذ میں ناکام رہنے والی ضلعی انتظامیہ اور سیاسی لیڈرشپ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کو نااہل اور غیر ذمے دار قرار دیتی رہتی ہیں، لیکن مون سون کی تباہی کا سلسلہ نہیں رک سکا۔ ہر سال سیلاب کا اربوں کیوسک پانی ضائع ہورہا ہے اور ہمارے ملک کی زراعت پانی کی کمی کے باعث خشک سالی کا طوق گلے میں لٹکائے پھر رہی ہے، اور ہماری حکومتیں پانی محفوظ کرنے اور اسے زراعت کے استعمال میں لانے کے منصوبوں کے آغاز اور ان کی تکمیل کے بجائے زرعی اجناس کی خریداری کے لیے غیر ملکی منڈیوں میں آڑھتی بنی ہوئی ہیں۔ ہم کیسا زرعی ملک ہیں کہ گندم بیرونِ ملک سے منگوائی جارہی ہے۔ این ڈی ایم اے نے بھی حالیہ بارشوں سے متعلق ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’سندھ اور بلوچستان میں جولائی میں ریکارڈ توڑ بارش ہوچکی ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے، لوگوں کو محتاط رہنا چاہیے کیونکہ مون سون تبدیل ہورہا ہے، اس وقت پاکستان بھر میں بارشیں اوسط بارش سے 87 فیصد زیادہ ہیں‘‘۔ جولائی کے تیسرے ہفتے کے بعد چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیر اور اسلام آباد میں زیادہ بارشوںکا امکان ہے۔ پاکستان میں ہر سال مون سون کے دوران شدید بارش ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جولائی تا ستمبر مون سون کا موسم مزید بگڑتا جارہا ہے۔ پاکستان اس وقت ماحولیاتی بحران کا شکار ہے اور یہ مون سون بارشیں بھی اسی کا حصہ ہیں۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اِس بار مون سون کی بارشیں معمول سے 87 فیصد زیادہ ہیں۔ برفانی جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات پہلے 16 ہوتے تھے مگر اس بار 26 رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ دنیا کے بڑے برفانی پہاڑ پاکستان میں ہیں۔ مون سون کی بارشوں کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں۔بلوچستان کے علاقے ژوب، زیارت، لورالائی، کوئٹہ، قلات، خضدار، لسبیلہ، نصیرآباد، سبی، پنجگور، تربت، گوادر سمیت دیگر علاقوں میں زیادہ مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسی طرح خضدار، نصیرآباد، گوادر، آواران، بارکھان، بولان اور کوہلو کے مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش کے پانی کے باعث علاقوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے، سب سے متاثرہ علاقہ کوئٹہ کا مشرقی بائی پاس رہا ہے جہاں پر کوہ مراد سے آنے والے سیلابی ریلوں نے نقصان پہنچایا۔ سیلابی ریلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ یہاں پر رہائشی گھروں کے علاوہ مویشی منڈی بھی تھی جہاں بارشوں کا پانی بڑی تعداد میں بھیڑ بکریوں کو بھی بہا کر لے گیا۔ کلی کے آس پاس سو کے قریب گھر مکمل اور جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں، جن کے مکین اس وقت امداد اور راشن کے منتظر ہیں۔ کوئٹہ میں اربن فلڈنگ ہوئی، اس کے علاوہ تربت اور پسنی بھی متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان میں1973ء اور 1992ء میں شدید سیلاب آیا تھا، اس کے بعد 2010ء کا سیلاب بدترین تھا جس سے دو کروڑ افراد اور ملک کا تقریباً پانچواں حصہ متاثر ہوا تھا۔ اب تک مون سون کی بارشوں کے دوران ملک بھر میں 77 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 39 اموات صرف بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ ملک میں بارشوں کے حوالے سے یہ صورت حال 30 سال بعد سامنے آئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پالیسی بنانی ہوگی اور ہمیں مشکل فیصلے بھی کرنے پڑیں گے۔ پاکستان کو مستقبل میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے ملک کو پانی ذخیرہ کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک بھرمیں ریکارڈ بارشوں کے باعث اب تک بچوں سمیت 150 افراد ہلاک اور 163 زخمی ہوچکے ہیں۔ این ڈی ایم اے کی ویب سائٹ پر روزانہ جاری ہونے والی تازہ رپورٹ کے مطابق 10 جولائی دوپہر ایک بجے تک جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 14 جون سے اب تک مون سون کی بارشوں میں 150 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ملک میں ہزاروں افراد دور دراز علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں  اور سڑکیں زیر آب آگئی ہیں جس سے عیدالاضحی کی خوشیاں ماند پڑ گئیں۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 65 افراد ہلاک ہو گئے، پنجاب میں 23، سندھ میں 26، خیبر پختون خوا میں 21، جبکہ گلگت بلتستان میں 10 افراد ہلاک ہوئے۔بلوچستان میں ایک ہفتے سے زائد عرصے سے موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے مزید ہزاروں افراد بے گھر، پھنسے ہوئے یا لاپتا ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں تقریباً 500 مکانات کو نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ املاک اور مویشیوں کو بھی بھاری نقصان پہنچا۔صوبے کے مختلف اضلاع میں متعدد چھوٹے ڈیم ٹوٹنے کے نتیجے میں حکام نے لوگوں کو اپنے گھر خالی کرنے اور وہاں سے نقل مکانی کی وارننگ دی۔
رواں ہفتے بارش کا ایک اور سسٹم بھی پاکستان میں آسکتا ہے، جو 18 جولائی تک اثرانداز رہے گا۔ سندھ سمیت بہت سے علاقے بارش کی زد میں رہیں گے۔ سندھ میں حالیہ بارشوں کے دوران حادثات میں پی ڈی ایم اے کے مطابق جان سے جانے والوں میں 14 افراد کا تعلق کراچی سے تھا۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق اربن فلڈنگ کے باعث نقصان زیادہ ہوا ہے، شہروں کے نشیبی علاقوں سے نکاسیِ آب کا کام جاری ہے۔ سول انتظامیہ، فوج اور رینجرز کی ٹیمیں اس کام میں مصروف ہیں۔