سندھ حکومت، بلدیہ عظمیٰ اور متعلقہ اداروں کی افسر شاہی اور عملہ کہاں ہے؟ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا سوال
بد نصیب اور لاوارث کراچی ایک بار پھر ڈوب گیا۔ شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جس میں پانی جمع نہ ہوا ہو۔ انڈر پاسز پانی سے بھر چکے تھے جس کی وجہ سے انہیں بند کرنا پڑا۔ کراچی کے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پورے شہر کی سڑکیں تالاب بنی رہیں، جگہ جگہ گاڑیاں پھنسی رہیں، شہر میں سیوریج کا نظام بیٹھ گیا، شاہراہوں پر آلائشیں تیر رہی تھیں، بارش میں بہت سے مکانات زیر آب آگئے، بجلی کی فراہمی معطل رہی، انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا اور بہت سے دور دراز علاقوں کی جانب آمد و رفت خستہ حال سڑکوں کے زیرآب آنے یا تباہ ہونے کے بعد معطل ہوگئی۔ 4 سے 12 جولائی تک جمع کیے گئے پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 49 افراد جاں بحق ہونے والے افراد میں سے27 افراد کرنٹ لگنے سے اپنی جان سے گئے، جن میں سے 18 کا تعلق کراچی سے تھا۔ سپرہائی وے اور کورنگی کازوے زیرآب رہے اور لوگ کسمپرسی کی حالت میں مدد کے لیے پکارتے رہے۔ صدر کی سڑکیں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبی رہیں۔ ملیر ندی سمیت مضافاتی علاقوں کے قریب رہائش پذیرآبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی، شہر کی کئی مرکزی اور ذیلی شاہراہیں پانی میں ڈوب گئیں جس کی وجہ سے معمولاتِ زندگی مفلوج ہوگئے، کراچی شہر کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہوگیا، بیشتر پیٹرول پمپ بھی زیرآب آگئے۔ جن علاقوں میں زیادہ پانی تھا، وہاں محصور 70 خاندانوں کو ربڑ بوٹس کی مدد سے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ گلزار ہجری کا علاقہ محمد خان گوٹھ 13جولائی کو بھی زیرآب ہے۔ لیاری میں بھی بدترین صورتِ حال رہی۔ ٹاور، تبت سینٹر، عیدگاہ چوک، ایوانِ صدر روڈ اور آئی آئی چند ریگر روڈ ریڈ زون کی صورتِ حال بدترین تھی۔ میٹروپول، پی آئی ڈی سی، قیوم آباد، شیر شاہ، حسن اسکوائر، گل بائی، ٹیپو سلطان روڈ بھی پانی میں ڈوبے رہے۔ جمشید ٹاؤن میں بھی نالے ابل پڑے۔ یونیورسٹی روڈ پوری ڈوبی رہی اور لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوکر دکان داروں کے ساتھ سندھ حکومت کو لعن طعن کررہے تھے۔ کئی جگہوں پر ایم کیو ایم کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں چھوٹے بڑے 54 نالے ہیں، ان میں 2 بڑی ندیاں لیاری اور ملیر ندی ہیں۔ بڑے نالوں بشمول مرکزی کورنگی نالہ، چکور نالہ، مواچھ گوٹھ نالہ، محمود آباد نالہ، گجر نالہ، پچر ڈرین، میاں والی ڈرین بہت سے علاقوں کا پانی ان ندیوں میں ڈال دیتے ہیں اور یہ دونوں اہم ندیاں اس پانی کو سمندر میں لے جاتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے شہر کے ان تمام نالوں کو صاف کرنے کے بہت دعوے کیے، جن کا پول بارش نے پہلے دن کھول دیا تھا۔
کراچی کا شمار دنیا کے جدید اور بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور جس کا ملک کی معیشت میں بڑا حصہ ہوتا ہے، لیکن یہ ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کے بعد کراچی کسی کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اس شہر کی 1980ء کی دہائی کے بعد یہی تاریخ ہے۔ سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کی غفلت اور بدانتظامی پوری طرح عیاں ہے۔ شہر تو دھول اور مٹی سے پہلے ہی اَٹا ہوا تھا اور نالوں میں کچرا بھرا ہوا تھا، ایسے میں بد انتظامی نے بارش جو اللہ کی رحمت ہے، زحمت میں تبدیل کردیا ہے، کراچی کے شہری بارش کی خوشیاں منانے کے بجائے اپنے پیاروں کے نالوں میں گرنے، اور کرنٹ لگنے کے باعث مرجانے والوں کے غم میں مبتلا ہوگئے ہیں، جنہیں اب قبرستان کی زمین بھی مہنگی اور بدحال مل رہی ہے۔ اس وقت کراچی کا کون سا علاقہ ہے جو زیرآب نہیں ہے؟
اس صورتِ حال میں تمام سیاسی جماعتیں غائب نظر آئیں، لیکن جماعت اسلامی ہمیشہ کی طرح ان مشکل حالات میں بھی اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی جس نے کراچی کے لوگوں کی خدمت کی۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے عید الاضحیٰ کے تینوں دن بارش کے باوجود کھالیں جمع کیں،اجتماعی قربانی کے مراکز میں مصروفِ عمل رہے اور دوسری طرف بارش میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بھی نکالتے رہے،یہاں تک کہ کشتی کے ذریعے الخدمت نے مریضوں کو گھروں سے ایمبولینس تک پہنچایا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے سڑکوں پر نکل کر بارش سے پیدا ہونے والی سنگین صورتِ حال کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور اس کے ماتحت بلدیاتی اداروں کی نااہلی و ناقص کارکردگی نے کراچی کے عوام کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے، پیپلز پارٹی کی بدانتظامی، نااہلی، کرپشن… سب کچھ سامنے آگیا ہے، شہر کے بہت سارے علاقوں میں پانی جمع ہے، اولڈ سٹی ایریا، صدر، کورنگی، لانڈھی، نئی کراچی، نارتھ کراچی، سرجانی ٹاؤن، گڈاپ میں بدترین صورتِ حال ہے، لوگوں کو کوئی ریلیف اور متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، سندھ حکومت، بلدیہ عظمیٰ اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران سمیت 70فیصد عملہ تو چھٹیوں پر گیا ہوا ہے، سیاسی اور علاقائی بنیادوں پر بھرتی کا نظام چل رہا ہے اور جب اس طرح کی صورتِ حال سامنے آتی ہے تو عملہ ہی موجود نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم سی، بیوروکریسی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، پولیس، ٹریفک پولیس کے 90 فیصد لوگ پیپلز پارٹی کے بھرتی کیے ہوئے ہیں جن کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے کبھی لسانیت اور تعصب کی بات نہیں کی، لیکن پیپلز پارٹی نے ہمیشہ لسانی بنیادوں پر سیاست کی ہے، وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ اندرون سندھ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ووٹ حاصل کرلیے جاتے ہیں اور عوام کو محکوم بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت بتائے کہ پی ڈی ایم اے کا پچھلے سال کا ڈیڑھ ارب روپے کا بجٹ کہاں خرچ ہوا؟ نالوں کی صفائی کا بجٹ کہاں خرچ ہوا؟ 66 کروڑ روپے مون سون کی بارشوں کے لیے رکھے گئے تھے، وہ کہاں گئے؟ کون سے نالے صاف ہوئے؟ چھوٹے بڑے نالے گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر ایڈمنسٹریٹر کا تقرر بلدیاتی انتخابات پر قبضہ کرنے کے لیے ہے۔ سندھ حکومت کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے، لوگوں کے گھروں کے اندر پانی جمع ہوجانے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم کا بھی پورا زور اس پر ہے کہ گورنر اُن کا تعینات ہوجائے۔ کراچی کے عوام 35 سال سے ایم کیو ایم کو بھگت رہے ہیں، کراچی کے لوگوں نے جن کو مینڈیٹ دیا اُن کو کراچی کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے مل کر کوٹہ سسٹم کو غیر معینہ مدت کے لیے بڑھا دیا اور جعلی مردم شماری کی منظوری بھی دی۔ ایم کیو ایم نے ہمیشہ وزارتیں حاصل کیں، جبکہ شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا، اور کراچی کا مینڈیٹ وڈیروں، جاگیرداروں کے ہاتھوں بیچ دیا۔ ایم کیو ایم جب پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں تھی تب اس نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھینے۔ کے الیکٹرک کو ہر دور میں ہر حکومت اور تمام حکمران جماعتوں نے سپورٹ کیا اور کے الیکٹرک کو ایک مافیا بنادیا جس نے کراچی کے عوام کو لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ کے دہرے عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور حکمران پارٹیاں بتائیں کہ کے فور منصوبہ ابھی تک کیوں مکمل نہیں ہوا؟ کے سی آر کا صرف اعلان کیا گیا، کیا کراچی کے لوگوں، خواتین، بچوں اور بزرگوں کے لیے چنگ چی رکشے اور ٹوٹی پھوٹی بسیں ہی رہ گئی ہیں؟ کراچی کے نوجوانوں کے لیے فوڈپانڈا کی نوکریاں ہی رہ گئی ہیں؟ سرکاری ملازمتوں میں ان کا جائز اور قانونی حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لیے کسی بھی حکومت اور سیاسی جماعت نے کچھ نہیں کیا، پیپلز پارٹی نے تو سب سے زیادہ بیڑہ غرق کیا ہے۔ عمران خان کراچی کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ مریم نواز کراچی کے لیے صرف ٹوئٹ کرتی ہیں، جب لاہور کی میٹرو گیارہ مہینے میں بن سکتی ہے تو کراچی کی گرین لائن بس پندرہ مہینوں میں کیوں نہیں بنائی گئی؟ نون لیگ نے پنجاب میں تو موٹر ویز بنائیں، کراچی اور حیدرآباد کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا؟ پیپلز پارٹی پانچ ہزار ارب روپے کے بجٹ کا حساب نہیں دیتی، موہن جو داڑو اور ہڑپہ کے حالات بھی منگھوپیر سے اچھے ہیں۔
یہ سطور چھپنے تک محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا نیا سلسلہ شروع ہوگا تو کیا صورتِ حال ہوگی۔
اس وقت کراچی مکمل بدحالی کا شکار ہے۔ جہاں لوگ سیوریج نالوں میں گررہے ہیں، وہیں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کا سڑکوں پر راج ہے۔ مسائل کا انبار ہے۔ کہیں بھی کسی بھی محکمے میں ریاست کی رٹ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ ایسے وقت میں جب شہر میں سانحات ہورہے تھے شہر کے بلدیاتی افسران عید کی چھٹیاں منانے گائوں دیہات گئے ہوئے تھے۔ گزشتہ نصف صدی سے حکومت کرنے والی جماعتوں نے عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی ساری توجہ اس شہر کے وسائل کو لوٹنے میں لگائی، اور یہاں کے اپنے ہونے کے دعویدار بھی سیاسی مفادات سمیٹتے اور مال پانی بناتے رہے، جس کے نتیجے میں یہ ’’لاوارث شہر‘‘ دنیا بھر میں ’’مسائلستان‘‘ بن کر اُبھرا ہے، اور اس کا ٹھیک ہونا ایک قومی تقاضا ہے۔
nn