تعلیم کیا ہے؟

علم اور تعلیم کی مسلمہ اہمیت کے پیش نظر یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم تعلیم کی نوعیت اور اس کے اساسی اصول کا صحیح فہم حاصل کریں۔ تعلیم صرف تدریسِ عام ہی کا نام نہیں ہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے، اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل کی وہ تعلیم و تربیت ہے جو اُسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی، ذہنی اور فکری ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور ان میں زندگی کے اُن مقاصد سے لگائو پیدا کرتی ہے جنہیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے، اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمے دار شہری اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ ہر دور کے ممتاز ماہرینِ تعلیم کے نظریات کا مطالعہ اسی تصورِ تعلیم کا پتا دیتا ہے۔
لغت کے اعتبار سے تعلیم کا مادہ ’’علم‘‘ (ع ل م) ہے۔ اس کے معنی ہیں ’’کسی چیز کا ادراک حاصل کرنا‘‘۔ اس سے باب تفعیل میں ’’تعلیم‘‘ آتا ہے۔ تعلیم کے معنی بار بار اور کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں، حتیٰ کہ طالب علم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے۔ انگریزی زبان کا لفظ Education لاطینی لفظ Edex بہ معنی نکالنا، اور Ducer-Due بہ معنی رہنمائی سے ماخوذ ہے۔ لفظی طور پر اس کے معنی ’’معلومات کا جمع کردینا‘‘ اور ’’مخفی صلاحیتوں کو نکھارنا‘‘ ہیں۔ اصلاً یہ لفظ معلومات فراہم کرنے اور متعلم کی مخفی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مفہوم میں آتا ہے۔
جان اسٹیورٹ مل مغرب کے اُن دانش وروں میں سے ہے، جنہوں نے تعلیم کے مفہوم کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’تعلیم صرف اُن باتوں ہی کا احاطہ نہیں کرتی جو ہم اپنی فطرت کے کمال سے قریب تر ہونے کی بنا پر واضح مقصد کی خاطر اپنے لیے کرتے ہیں، یا دوسرے ہمارے لیے کرتے ہیں۔ اپنے وسیع تر مفہوم میں اس کی حدود بہت زیادہ ہیں۔ انسانی کردار اور صلاحیت پر ان چیزوں کے بالواسطہ پڑنے والے اثرات بھی اس کے دائرۂ کار میں شامل ہیں، جن کے فوری مقاصد بالکل ہی دوسرے ہوتے ہیں‘‘۔
جان ملٹن تعلیم کی تعریف یوں کرتا ہے:’’میرے نزدیک مکمل اور شریفانہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو بحالت ِجنگ و امن اپنی اجتماعی اور نجی زندگی کے فرائض دیانت و مہارت اور عظمت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے‘‘۔ تعلیم کا یہ وسیع ترین تصور ہے۔ امریکی فلسفی جان ڈیوی کے نزدیک: ’’تعلیم افراد اور فطرت سے متعلق بنیادی طور پر عقلی اور جذباتی رویوں کے تشکیل پانے کا عمل ہے‘‘۔
ڈاکٹر پارک کا خیال ہے: ’’تعلیم رہنمائی یا مطالعے سے علم حاصل کرنے اور عادت اختیار کرنے کا عمل یا فن ہے‘‘۔ پس تعلیم وہ مسلسل عمل ہے، جس کے ذریعے ایک طرف نئی نسلوں کی اخلاقی، ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوتی ہے، اور دوسری طرف وہ اپنے عقائد و تصورات اور تہذیب و ثقافت کی اقدار بھی اس سے اخذ کرتے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم اس لفظ سے دو مفہوم لیتے ہیں: وسیع تر مفہوم میں یہ ان تمام طبیعی، حیاتیاتی، اخلاقی اور سماجی اثرات کا احاطہ کرتا ہے، جو فرد اور قوم کی طرزِ زندگی کی تشکیل کرتے ہیں، اور محدود مفہوم میں یہ صرف اُن اثرات پر حاوی ہے جو اساتذہ کے ذریعے سے اسکولوں، کالجوں اور دوسری درسگاہوں میں مرتب ہوتے ہیں۔ بہرکیف تعلیم ایک ہمہ گیر عمل ہے اور شاگرد کی زندگی کے تمام پہلوئوں پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک قوم کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تعلیم پر ہے۔ ایک قدیم چینی کہاوت اس بات کی کتنی صحیح عکاسی کرتی ہے: ’’تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو، دس سال کے لیے ہے تو درخت لگائو، دائمی ہے تو تربیت یافتہ افراد پیدا کرو، کیونکہ تعلیم ہی وہ عمل ہے جس سے افراد کی تعمیر ممکن ہے‘‘۔
(نظام تعلیم: نظریہ، روایت، مسائل۔ مرتبہ: سلیم منصور خالد)

مجلس اقبال
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ

ضربِ کلیم کی ایک غزل کا یہ شعر اپنے اندر بہت بڑا سبق اور مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ علامہ نے آزاد اور غلام انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو اس شعر میں بیان کیا ہے کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے مگر صرف آزاد انسان کے لیے۔ وہ اس لیے کہ کوئی نہ کوئی بڑا مقصد اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔ اس کا ایک ایک لحظہ قیمتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے مصروفِ عمل رہنا ہی انسان کو زیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک غلام کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ انسانیت کے شعور سے ہی بے خبر ہوتا ہے، اور اُس کے پاس اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی منصوبہ کار ہوتا ہے اور نہ اس کے کوئی تقاضے۔ وقت ہی تو زندگی ہے، اور وقت کے ضیاع کا تصور ایک آزاد اور خودمختار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے۔