کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

الحمدللہ! کورونا کی عالمی وبا سے نجات کے بعد پہلی بار دس لاکھ فرزندانِ توحید نے فریضہ ٔ حج ادا کیا اور میدانِ عرفات میں جمع ہوکر ’’لبیک اللھم لبیک‘ ‘کی صدائوں کی گونج میں خطبۂ حج سنا۔ رابطۂ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے مسجدِ نمرہ میں خطبے کے دوران امت کو یاد دلایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں، آپ ؐ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا، اسلامی اقدار کا تقاضا ہے کہ جو چیز نفرت کا باعث بنے اُس سے دور ہوجائیں، ہم نیکی میں ہمیشہ جلدی کریں، تقویٰ اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے، تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، آپس میں اخوت سے رہیں، امتِ مسلمہ کو اس وقت اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے، نیکی کے کاموں میں پہل کریں اور برائی سے بچیں، جو شخص استطاعت رکھتا ہو وہ حج کرے، معاشرے کے کمزور طبقوں کی کفالت کی ذمہ داری لے، ہر شخص جان لے کہ تھوڑے وقت کے بعد ہمیں اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اللہ ہر شخص سے اُس کے اعمال سے متعلق جواب لے گا، ہمیں تقویٰ اختیار کرنا چاہیے، آپ کی مصیبت اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق یہ ہے کہ اس کا خون اس پر حرام ہے، اس کی عزت و حرمت اس پر حرام ہے، لہٰذا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ انتہائی اعلیٰ اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور کسی کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہ کرے جس سے آپس میں رنجشیں اور چپقلش پیدا ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت اور محبت پیدا کردی حالانکہ تم لوگ اس سے پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے، تمہارے درمیان اختلاف تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر معاملے میں حکمت سے کام لو۔ اللہ کا فرمان ہے: جب بھی مجھے پکارو گے اپنے قریب ہی پائو گے۔ اللہ کا فرمان ہے: انسان ہو یا جانور، سب سے رحمت کا معاملہ کرو۔ اللہ نے فرمایا: مرد اور عورت میں جو بھی بھلائی کا کام کرے اس کو اجر دیا جائے گا۔‘‘
امامِ حج کا یہ خطبہ نہایت مختصر مگر جامع ہے، اس میں بین الاقوامی اور بین الانسانی مسائل کا بھرپور احاطہ کیا گیا ہے، خطبۂ حج میں عالمی اور سماجی شعور و ادراک کی زبردست جھلک دیکھی جا سکتی ہے، جس کی آج امتِ مسلمہ کو اشد ضرورت ہے۔ خطبے میں ملّتِ اسلامیہ کو درپیش صورتِ حال سے نکلنے کے لیے پائیدار حل کی جانب ٹھوس رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ بظاہر خطبے میں کوئی نئی بات نہیں، اس میں انہی باتوں کا اعادہ کیا گیا ہے جو کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس قبل قرآنِ حکیم فرقانِ حمید کی شکل میں خالقِ کائنات کی طرف سے انسان کو بتا دی گئی تھیں اور جن کی عملی تفسیر محسنِ انسانیت، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی صورت میں انسانیت کے سامنے رکھی تھی۔ یوں یہ خطبہ بظاہر ایک تذکیر، تلقین اور یاد دہانی کے سوا کچھ نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو آج اس تذکیر اور تلقین کی شدید ضرورت ہے کہ امت جسے ’ملّتِ واحدہ‘ قرار دیا گیا تھا اس میں اتحاد اور اتفاق نام کی کوئی چیز موجود نہیں، اخوت کا تصور ہی مسلمانوں کے فہم و ادراک سے غائب ہوچکا ہے۔ امت آج علاقائی اور وطنی قومیتوں، رنگ و نسل، لسانی اور مسلکی بنیاد پر اس قدر تقسیم در تقسیم سے دوچار ہے اور ایسی تفریق کی شکار ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کا وجود کہیں موجود نہیں، اسی بابت شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے استفسار کیا تھا کہ ؎
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، یہ تو بتلائو کہ مسلمان بھی ہو؟
توحید و رسالتؐ اور ختمِ نبوتؐ کے اثبات کے بعد خطبۂ حج میں امامِ محترم نے سب سے زیادہ زور جس بات پر دیا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمان نفرت اوراس کو پھیلانے والی چیزوں سے دور ہوجائیں، آپس میں اخوت بڑھائیں، اتحاد اور اتفاق کو فروغ دیں اور بھائی بھائی بن کر رہیں۔ سچ بھی یہی ہے کہ امت میں آج عالمی اور مقامی ہر سطح پر سب سے زیادہ فقدان اتحاد و اتفاق ہی کا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب اور آخری کتابِ ہدایت قرآنِ حکیم میں مسلمانوں کو بار بار تفرقہ اور تقسیم سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے، سورۂ انفال میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘ سورۂ آل عمران میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ: ’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو…‘‘ اسی سورہ میں آگے چل کر مزید تنبیہ کی جاتی ہے کہ: ’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے، جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس (قیامت کے) روز سخت سزا پائیں گے…‘‘ سورۂ روم میں فرمانِ ربی ہے کہ: ’’اور نہ ہوجائو اُن مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔‘‘
قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبویؐ کا مطالعہ کرتے چلے جائیں، آپ کو بار بار انتشار اور تفرقہ سے بچنے اور اتحاد و اتفاق کا دامن تھامنے کی ہدایت ملے گی۔ مگر اس کے برعکس ہمارا طرزِعمل کیا ہے! عالمی سطح پر ہم انتشار و افتراق کا شکار ہی نہیں، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر باہم شدید نفرت اور بغض کی کیفیت مسلمان ممالک کے مابین دیکھی جا سکتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چالیس مسلمان ممالک کی جو ’’اسلامی فوج‘‘ سابق پاکستانی سپہ سالار کی قیادت میں سعودی عرب کی سرپرستی میں تشکیل دی گئی ہے اس کا مقصد فلسطینی، کشمیری یا کسی دوسرے خطے کے مظلوم مسلمانوں کا تحفظ و دفاع نہیں بلکہ بعض دیگر مسلمان ممالک ہی اس کا اوّلین ہدف ہیں۔ مقامی طور پر جائزہ لیں تو بھی یہ حقیقت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ ہمارے حکمران، سیاست دان اور دیگر شعبوں کے لوگ بھی صبح شام ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے اظہار، الزام تراشیوں اور بہتان طرازیوں میں بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اور نفرتوں کی یہ خلیج ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گہری سے گہری تر ہوتی چلی جارہی ہے، ایسے میں اگر امامِ حج نے ہمیں نفرت سے دور رہنے کی تلقین کی ہے تو بلاشبہ یہ ہماری اہم ترین ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی جب یہ کہا تھا کہ ’’زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں‘‘ تو درست سمت میں اشارہ کیا تھا، اور امت کی ابتر حالت کی صحیح عکاسی کرتے ہوئے بجا طور پر استفسار کیا تھا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
(حامد ریاض ڈوگر)