اسلام، سنت ِرسولؐ کی پیروی

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
” قیامت کے دن میں سب سے پہلے جنت کی شفاعت کروں گا اور سب نبیوں سے زیادہ میرے امتی ہوں گے“۔
(مسلم، کتاب الایمان)

آپ کی سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے جس قدر مشابہ اور قریب ہے اسی قدر آپ اپنے ایمان و اسلام میں سچے اور مخلص ہیں۔ اسلام اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ آپ کی پوری زندگی زیادہ سے زیادہ سیرتِ رسولؐ کے مطابق ہو اور آپ ہر معاملے میں سنتِ رسول کی کامل اتباع کریں۔ نبیؐ پر نبوت ختم ہوگئی اور اب رہتی زندگی تک کے لیے بندگانِ خدا کی فلاح و کامرانی صرف آپؐ کی اتباع اور پیروی میں ہے۔ رسولؐ سے تعلق توڑ کر اور آپؐ کی سنت سے منہ موڑ کر اگر کوئی خدا کی رضا حاصل کرنے کو ممکن سمجھتا ہے تو وہ زبردست قسم کی جہالت اور فریب میں مبتلا ہے، خدا کی نظر میں آپ کا کوئی بھی عمل قبول نہیں ہے اگر وہ سنت ِرسولؐ کے مطابق نہیں۔
آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن آپ کا یہ ایمان اور محبت کا دعویٰ ہرگز معتبر نہیں ہے اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں سرگرم نہیں ہیں۔ آپ کا دعوائے محبت اسی وقت قابلِ اعتبار ہوگا جب آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں۔ آپ کی محبت کے جواب میں خدا آپ سے لازماً محبت کرے گا، وہ آپ کے گناہوں کی مغفرت بھی فرما دے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرکے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔ خدا کا ارشاد ہے:
(ترجمہ)”اے رسولؐ! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم واقعی خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ خدا تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بہت ہی معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“(آل عمران۔3:31)
خدا کی نظر میں اُس تعلق باللہ کی کوئی قیمت نہیں جو آپ نے سنت ِرسولؐ سے بے نیاز ہوکر اپنے من مانے طریقے پر خدا سے قائم کر رکھا ہے۔ رسولؐ سے بے نیازی رسولؐ ہی کی توہین نہیں، شہنشاہِ کائنات کی توہین ہے۔ رسول خدا کے نمائندے اور خدا کے ترجمان ہیں، وہ بھیجے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ خدا کے اذن سے ان کی اطاعت کی جائے اور برضا و رغبت کی جائے۔
(ترجمہ)”ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ خدا کے اذن کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔“(النسا4: 64)
رسولؐ کی اطاعت کے بغیر رسولؐ پر ایمان بالکل بے معنی ہے، جو لوگ رسولؐ کی اطاعت سے آزاد ہوکر رسولؐ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خود بھی فریب میں مبتلا ہیں اور دوسروں کو بھی فریب دینا چاہتے ہیں۔ خدا کے احکام بجا لانے اور اس کی اطاعت کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ رسولؐ کی اطاعت کی جائے۔ رسولؐ کی اطاعت ہی دراصل خدا کی اطاعت ہے اور رسولؐ کی نافرمانی دراصل خدا کی نافرمانی ہے۔ رسولؐ کی عظمت کے منکر درحقیت خداکی عظمت کے منکر ہیں اور رسولؐ کے حکم اور سنت سے سرتابی کرنے والے دراصل خدا سے باغی ہیں۔ اس لیے کہ رسولؐ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے، صرف خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔
(ترجمہ)”وہ اپنی خواہشِ نفس سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو (آسمانی) وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔“ (النجم 53:3، 4)
رسولؐ کی تعلیمات کی پیروی اور رسولؐ کی اطاعت ہی ایک ذریعہ ہے خدا کی اطاعت کا۔ اس کے سوا خدا کی مرضی پر چلنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ خدا کا ارشاد ہے:
(ترجمہ)”جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے یقیناً اللہ ہی کی اطاعت کی۔“ (النسا4: 80)
اور جس نے رسولؐ کو اپنے تمام معاملات میں حکم تسلیم نہ کیا وہ ایمان سے محروم ہے، اور خدا نے اپنی باعظمت ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔
(ترجمہ)”اے رسولؐ! آپ کے رب کی قسم، یہ ہرگز مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں یہ آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر آپ جو کچھ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ آپ کے فیصلے پر سر ِتسلیم خم کردیں۔“ (النسا 4: 65)
ظاہر ہے خدا کا یہ فرمان صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔ رہتی دنیا تک آدمی کے مومن ہونے اورنہ ہونے کا فیصلہ اسی پر ہے کہ رسولؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی سنت کو آدمی زندگی کے ہر معاملے میں سند مانتا ہے یا نہیں۔ خدا کے نزدیک اپنے دعوائے ایمان میں صرف وہی لوگ سچے اور مخلص ہیں جو دل و جان سے رسولؐ کے فیصلے کو تسلیم کریں اور دل کی پوری آمادگی سے اس کی اتباع کریں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، اگر اب موسیٰ ؑ بھی نمودار ہوجائیں اور تم ان کی اتباع اور پیروی کرنے لگو اور میری پیروی چھوڑ دو، تو تم یقیناً سیدھی راہ سے بھٹک جائوگے۔ اگر موسیٰؑ زندہ ہوتے اور میرا زمانہ نبوت پاتے، تو میری ہی پیروی کرتے۔“ ایک اور روایت میں ہے کہ:”میری اتباع کے سوا ان کے لیے اور کوئی چارۂ کار ہی نہ ہوتا۔“(مسند احمد، دارمی، مشکوٰۃ باب الاعتصام)
یہ حدیث دو ٹوک انداز میںبتاتی ہے کہ اب رہتی دنیا تک اتباع اور پیروی کے لائق صرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آج اگر موسیٰ ؑ جیسے صاحب ِشریعت پیغمبر بھی نمودار ہوں، تو کسی کے لیے یہ گنجائش نہیں کہ وہ رسولؐ کو چھوڑ کر ان کی پیروی کرے۔ اور خود ان کے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہوگا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع کریں۔
یہ انتہائی خطرناک قسم کی گمراہی ہے کہ آدمی شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہوکر یا رسولؐ پر ایمان لائے بغیر بھی اسلام پر عمل کرسکتا ہے، اور مسلم و مومن ہوسکتا ہے۔ مومن اور مسلم ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ آدمی رسولؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کی اطاعت کرے۔ اسلام کی اصطلاح میں مسلم وہی شخص ہے جو خدا کی اطاعت سنت ِرسولؐ کے مطابق کرے۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے رسولوں پر ایمان لانے والے اور ان کی شریعت کے مطابق خدا کی اطاعت کرنے والے سارے لوگ مسلم تھے، لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب خدا کی اطاعت کرنے اور مسلم ہونے کی صرف ایک ہی شکل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتاع کی جائے اور آپؐ کی سنت کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ اس شخص کا دعوائے اسلام بالکل باطل ہے، جو آپؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کی اطاعت کرنے کا قائل نہیں ہے۔ اور اسی طرح اس شخص کا ایمان و اسلام بھی معتبر نہیں ہے جو رسولؐ کو صرف رسول سمجھ لینا ہی کافی سمجھتا ہے اور آپؐ کی اطاعت و اتباع کی ضرورت نہیں سمجھتا… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس شریعت کے تابع نہ ہوجائے جو میں لے کر آیاہوں۔“
اسلام کی شاہراہ پر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بے مثال محبت و عقیدت ہو، ایسی محبت جو دنیا کی ہر محبت پر غالب ہو۔ اور عمل کی زندگی میں اس محبت کی علامت یہ ہے کہ آپ کو سنتِ رسولؐ سے محبت ہو اور آپ کے دل میں رسولؐ کی عزت و عظمت اور وفاداری و جاں نثاری کا زبردست جذبہ ہو۔ رسولؐ کی سیرت کے مطابق اپنی سیرت کو ڈھالنا، اور دل و جان سے آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنا ہی دراصل ایمان و اسلام ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست