اِسلام آباد میں اُردو

بہت دلچسپ محفل تھی۔ عنوان تھا ’محفلِ اُردو فہمی‘۔ یہ محفل اسلام آباد کی ایک مشہور جامعہ میں اُس کے شعبۂ علومِ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات نے سجائی تھی۔ ممکن ہے کہ آج کے کالم میں اس محفل کی رُوداد پڑھ کر آپ بے مزہ ہوں، مگر ہمیں تو بہت مزہ آیا۔
سربراہِ شعبہ نے خیر مقدمی کلمات کے بعد کہا: ’’وادیِ پوٹھوہار کے یہ طلبہ و طالبات اسلام آباد سے متعلق آپ کے تاثرات اور آپ سے اچھی اُردو سننا چاہتے ہیں۔ اس محفل کے آداب میں ایک بے ادبی شامل کی گئی ہے۔ آپ کی گفتگو میں جہاں کوئی ایسا لفظ آیا جو طلبہ و طالبات کی سمجھ میں نہ آیا تو آپ کو ٹوک دیا جائے گا۔ پہلے آپ سے لفظ کا مطلب سمجھیں گے، پھر آگے بڑھیں گے‘‘۔
شرط پسند آئی۔ مگر اس شرط کی مشکلات کا اندازہ ہونے میں دیر نہیں لگی۔ پہلے ہی جملے پر وادیِ پوٹھوہار کے ایک محاورے کے مطابق ’لگ پتا گیا‘۔ ہم نے حسبِ فرمائش ’اچھی اُردو‘ کا آغاز یوں کیا تھا: ’’ہم 1978ء میں پہلی بارکراچی سے اسلام آباد وارِد ہوئے‘‘۔
ابھی ہمارا وُرودِ مسعود پوری طرح ہو نہیں پایا تھا کہ ایک طالبہ نے اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے دستِ سوال بلند کیا اور وہیں سے بولی:
’’سر! ’وارد‘ کا مطلب؟‘‘
ہم گڑبڑا گئے۔ پہلے ہی فقرے پر واردات میں وقفہ کرنا پڑا۔ کچھ زبانی اور تختۂ سفید پر کچھ تحریری مثالیں پیش کرتے ہوئے بتایا:
’’عربی لفظ ’وَرَدَ‘ کے لغوی معنی ہیں پانی پر آنا، یعنی نمودار ہونا یا آپہنچنا۔ ’وارد‘ اُسے کہتے ہیں جو آن پہنچے۔ ’مورد‘ کا مطلب ہے پہنچنے کی جگہ مثلاً گھاٹ یا ساحل۔ ’وَرَدَ‘ سے اسم بنا’وُرود۔ آپہنچنا یا وارد ہوجانا۔ کسی کا آنا مبارک یا سعد ثابت ہو تو اُسے ’وُرودِ مسعود‘ کہیے۔ کوئی حادثہ کسی پر بِیت جائے تو اُسے ’واردہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع ’واردات‘ ہے۔ اچانک پیش آنے والے واقعات کو بھی ’واردات‘ کہتے ہیں۔ دل پر بِیتا ہوا سانحہ ’وارداتِ قلبی‘ ہے۔ اگر دو شاعروں کے دلوں میں یکے بعد دیگرے، لفظاً یا معناً ایک ہی خیال وارد ہوجائے تو اس کو ’توارُد‘ کہتے ہیں۔ ہمارے جسم میں جس رگ سے خون واپس دل میں جاتا ہے وہ ’ورید‘کہلاتی ہے۔ گردن کی رگ کو ’حبل الورید‘ کہتے ہیں۔ ’حبل‘ کا مطلب ہے رسّی۔ شہ رگ رسّی کی سی موٹی ہوتی ہے۔ جب کوئی لفظ یاکچھ الفاظ بار بار زبان پر آئیں یا بار بار زبان پر لائے جائیں تو اس عمل کو ’وِرد‘ کہتے ہیں۔ وِرد کی جمع ’اوراد‘ ہے۔ اوراد کے ساتھ عموماً وظائف بھی کیے جاتے ہیں‘‘۔
تین گھنٹے کی اُس محفل میں ہم نے بیسیوں بلکہ تیسیوں الفاظ کی تشریح کی۔ مگر ایک صفحے کے اِس کالم میں اتنی گنجائش نہیں۔ پس ہم یہاں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ کچھ پیش کیے دیتے ہیں، کچھ پس انداز کرلیتے ہیں۔ خیر، ہم نے بات آگے بڑھاتے ہوئے عرض کیاکہ جب ہم اسلام آباد میں وارد ہوئے تو اُس وقت یہ شہر اتنا وسیع تھا نہ عریض۔اس قدر گنجان تھا نہ گِچ پِچ۔ چھوٹا سا خوب صورت شہر تھا۔ گھومنے والے پورا شہر پیدل ہی گھوم لیا کرتے تھے۔ اگرچہ شہر میں انگریزی بھی پٹر پٹر بولتی نظر آتی تھی، مگر پہلی آمد پر پہلا تاثر اِس شہر کا ہم پر یہ پڑا کہ یہاں کسی قدر اُردو کا بول بالا ہے، کیوں نہ ہوتا؟ یہ دُنیا کے اُس واحد ملک کا دارالحکومت ہے جس کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ اُردو اس ملک کی قومی زبان ہے اور اُردو ہی اس ملک کی سرکاری زبان بھی ہوگی، اِن شاء اللہ۔ مگر ہمیں یہاں اُردوکیسے کیسے بولتی نظر آئی؟ یہ بھی سُن لیجیے۔
یہاں کا مرکزی مقام ’آب پارہ‘ تھا، اب بھی ہے۔ آب پارہ سے قریب ہی ایک دل کش سیرگاہ تھی، سو اب بھی ہے، نام اس کا ’گلاب چنبیلی باغ‘ ہے۔ باغ کے اندر جا بجا کوڑا کَرکَٹ ڈالنے کے لیے ڈبے نصب تھے جن پر نستعلیق حروف میں لکھا ہوا تھا ’خاشاک‘۔ خاشاک کا مطلب ہے ٹکڑے، ریزے، گھاس پھوس، یعنی کچرا۔ گلاب چنبیلی باغ سے اوپر چڑھ جائیے تو ’شکر پڑیاں‘ کی سیرگاہ آجاتی ہے۔ یہ نام پوٹھوہاری لفظ ’شکر پوڑیاں‘ (شیریں زینے) کی ایک شیریں شکل ہے۔ شکر پڑیاں کی اُترائی میں ایک جگہ قدِ آدم ستارہ و ہلال نصب ہے، چمکتے اسٹیل سے بنا ہوا۔ اس مقام کا نام ہے ’چاند تارا‘۔ شکر پڑیاں کی پہاڑی سے نیچے دیکھیے تو سرسبز درختوں کے بیچوں بیچ سجا چاند تارا پاکستان کا پرچم بناتا نظر آتا ہے۔ پھر شکرپڑیاں سے شمال کی جانب دیکھیں تو جِھلمِل جِھلمِل کرتی ’راول جھیل‘ دکھائی دیتی ہے۔
کوہِ مرگلہ پر ایک تفریح کدہ بنایا گیا۔ نام اُس کا رکھا گیا ’دامنِ کوہ‘۔ دامن کوہ سے نیچے آجائیے تو ’چڑیا گھر‘، بچوں کے کھیلنے اور اُن کو جگہ جگہ کودنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے بنی ہوئی جولاں گاہ (گھومنے پھرنے کی جگہ) اور ایک ننھا منا سا عجائب خانہ ہے۔ اس پورے مجموعے کو ’مرغزار‘کا نام دیا گیا۔ یہاں تُوتِ سیاہ کے درخت بکثرت ہیں۔ ’مَرغ زار‘ کا مطلب ہے ہری بھری گھاس والی جگہ، سبزہ زار، چمن زار یا چراگاہ۔ ’مَرغ‘ کا ایک تلفظ ’مَرگ‘ بھی ہے۔ آپ نے کشمیر کے بہت خوب صورت علاقے ’گُلمرگ‘ کا نام ضرور سنا ہوگا۔ مرگلہ بھی اسی مَرگ سے مشتق ہے کہ یہ سرسبز و شاداب درختوں سے لدا ہوا اور چشموں سے بھرا ہوا پہاڑ ہے۔
اسلام آباد کی شاہراہوں اور گلیوں کی رہنما تختیاں پہلے اُردو میں ہوا کرتی تھیں۔ قومی اسمبلی کے سامنے سے گزرنے والی سڑک ’شاہراہِ دستور‘ ہے، اور اسلام آباد سے مظفر آباد تک جانے والی شاہ راہ کا نام ’شاہراہِ کشمیر‘ تھا۔ اکثر سڑکوں کے نام قومی رہنماؤں، شاعروں اور ادیبوں کے نام پر ہیں۔ اب جو آبادیاں سیکٹر ای، ایف اور جی کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں یہ علی الترتیب مہران، شالامار اور رمنا کہلاتی تھیں۔ خیبر اور بولان بھی موجودہ سیکٹروں میں سے دو سیکٹروں کا نام تھا، کن کن سیکٹروں کا تھا؟ اب یاد نہیں۔ یوں ہمارا دارالحکومت، مشرقی پاکستان سمیت پانچوں صوبوں کی نمائندگی کرتا تھا۔
’پریزیڈنٹ ہاؤس‘ ایوانِ صدر تھا اور ’پرائم منسٹر ہاؤس‘ ایوانِ وزیراعظم۔ ’پاکستان سکریٹریٹ‘ کو ’معتمدیہ پاکستان‘ کہا جاتا تھا اور ’پرائم منسٹر سکریٹریٹ‘ معتمدیہ وزیراعظم تھا۔ ’معتمدیہ‘ کتنا دل کش لفظ ہے۔ معتمد وہ ہوتا ہے جس پر آپ کو اعتماد ہو۔ جسے آپ اپنے رازوں کا رکھوالا بنا سکیں۔ ’سپریم کورٹ آف پاکستان‘ کو عدالتِ عظمیٰ پاکستان کہا جاتا تھا۔ ہر آبادی کے مرکزی بازار کو اب بھی ’مرکز‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں میں سے ایک مرکز میں ’ضلع کچہری‘ بھی واقع ہے۔اسلام آباد میں، گوکہ ’لیفٹ رائٹ‘ کرنے والے ہی بالادست رہے، مگر یہاں کے لوگ آج بھی ’دائیں بائیں‘ یا ’چَپ، راست‘ کے الفاظ استعمال کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ’ٹریفک سگنلز‘ کو ہر شخص ’اشارہ‘ کہتا ہے۔ کس قدر بامعنی اصطلاح ہے۔ اشارہ کھلا ہے، اشارہ بند ہے، اشارہ سبز ہوگیا یا اشارہ سُرخ ہوگیا۔ یہ الفاظ سن کر خوشی ہوتی ہے۔ ’اُن کا اِشارہ، جان سے پیارا‘۔ گاڑیوں کے Indicatorsکو بھی یہاں ’اِشارہ‘ ہی کہا جاتا ہے، مثلاً ’’اب دائیں طرف مڑنے کا اشارہ لگادو‘‘۔ اس شہر میں صرف بستی کی سڑک کے کنارے ہی ’پیادہ رَو‘ (Footpath) نہیں بنائے جاتے۔ ہر اُس جگہ درختوں کے سائبان تلے رواں دواں ’پیادہ رَو‘ نظر آجائیں گے جہاں پیدل چلنے کو جی چاہے۔ ’فُٹ پاتھ‘ جیسے کرخت لفظ کا متبادل ’پیادہ رَو‘ کتنا سبک، نرم اور رواں لفظ ہے۔
عزیز طلبہ و طالبات! آپ اُسی قوم کا مستقبل ہیں جس قوم کے دارالحکومت کی اس جامعہ میں آپ نے آج یہ حسین محفل سجائی ہے۔ آپ جب عملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو آپ کا شمار اس ملک کے ماہرینِ ابلاغیات میں ہوگا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ سب سے اعلیٰ و ارفع نظریے کی بنیاد پر بننے والے واحد ملک کے سپوت ہیں۔ مختلف رنگوں، مختلف نسلوں اور مختلف لسانی طبقوں کے لوگوں کو اسلام اور نظریۂ پاکستان نے ’ایک قوم‘ بنادیا ہے۔ یہ قومی وحدت ہمیں قومی تہواروں پر نظر آتی ہے۔ آپ کا ایک ملک ہے، ایک قوم ہے، ایک قومی پرچم ہے، ایک قومی لباس ہے اور ایک قومی زبان۔ یہ سب چیزیں ہماری ’قومی شناخت‘ ہیں۔ یاد رکھیے:
نہیں ہے کوئی جگہ اِس جہاں میں اُس کے لیے
جو قوم اپنے تشخص سے ہوگئی عاری