سلسلۂ ارمغانِ خورشید کے تحت شائع ہونے والی دس کتب میں سے آٹھ کتابیں طبع ہوگئی ہیں، دو زیر طبع ہیں۔ ’’آئین۔ اختیارات کا توازن اور طرز ِحکمرانی‘‘ اس سلسلۂ کتب کی پانچویں کتاب ہے۔
اس میں بڑے اہم موضوعات پر گفتگو ہے۔
جناب خالد رحمن تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانی اجتماعیت کی کوئی بھی سطح ہو، اس کی تشکیل اور اس سے متعلق روزمرہ اور مستقل امور کو نمٹانے کے لیے عام طور پر روایات کا ایک پورا تسلسل موجود ہوتا ہے۔ یہ روایات نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں اور حالات اور تقاضوں کے مطابق ان میں ازخود ردوبدل بھی فطری انداز میں جاری رہتا ہے۔
اجتماعیت جوں جوں بڑی ہوتی چلی جائے اور جس قدر متنوع ہو اس میں تسلسل اور ہم آہنگی قائم رکھنے اور اہداف کے حصول میں اسے زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے بہت سی روایات کو قواعد و ضوابط اور قانون کی شکل میں ڈھالنا ضروری ہوتا ہے۔ ملکی سطح پر قائم اجتماعیت میں ان قواعد و ضوابط کی اعلیٰ ترین شکل دستور ہوتا ہے جو زندگی کے کسی بھی دائرے میں قانون اور ضابطوں کی تشکیل کے لیے بنیادی رہنما دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
دستور کی تشکیل اور عمل درآمد کے میدان میں بہتری اور اصلاح کی گنجائش تو ہمیشہ ہی موجود ہوتی ہے، لیکن اس اہم دستاویز کی ترتیب اور پھر اس پر عمل درآمد میں تمام متعلقہ عناصر کی نیک نیتی کے ساتھ بھرپور شرکت ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی میں غلطیوں اور خرابیوں کا امکان نہ صرف کم ہوتا ہے بلکہ اس میں بروقت اصلاح کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ بصورتِ دیگر دستور کی موجودگی زمینی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکتی۔ اس تناظر میں قومی امور کو نمٹانے میں دستور کی جامعیت اور تمام متعلقہ افراد اور اداروں میں اس کی قبولیت کے ساتھ ساتھ اہم پہلو اس پر مؤثر عمل درآمد ہے۔
پاکستان کا موجودہ دستور 1973ء میں منظور ہوا۔ یہ اس اعتبار سے ایک غیر معمولی دستاویز ہے کہ اسے اُس وقت کی پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے منظور کیا تھا۔ اس کے بعد کی حکومتوں بالخصوص مارشل لا کے مختلف ادوار کے نتیجے میں اس میں بہت سی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی۔ لیکن بعد میں عوام کے منتخب اداروں یعنی پارلیمان نے اس کے بنیادی ڈھانچے اور اس سے متعلقہ تفصیلات کو بحال کرنے اور محفوظ رکھنے میں بحیثیتِ مجموعی کامیابی حاصل کی ہے۔ البتہ جہاں تک دستور پر عمل درآمد کا معاملہ ہے پاکستانی حکمرانوں کا طرزعمل، خواہ ان کا پس منظر سیاسی ہو یا وہ فوج سے تعلق رکھتے ہوں، کبھی بھی مثالی نہیں رہا ہے۔ آئین میں طے شدہ نکات پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کے بجائے حکمرانوں کی کوششوں کا مرکز بالعموم یہ رہا ہے کہ وہ اپنی ذاتی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق کسی طرح یا تو آئین کو تبدیل کردیں، یا آئین کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں، اور جیسا کہ ذکر ہوا ہے مختلف پارٹیوں سے متعلق سیاست دان ہوں یا فوجی حکمران، اس طرزعمل میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کا تعلق پاکستانی پارلیمنٹ کے اُن اراکین میں سے ہے جنہوں نے آئین کے تقدس کو بحال رکھنے اور اس کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کے لیے مسلسل جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے ہر بے اعتدالی کا بروقت نوٹس لے کر اس پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر بھی آواز اٹھائی ہے۔ یہ درست ہے کہ بہت سے مواقع پر ان کو پارلیمنٹ میں موجود اپنے ساتھی سیاست دانوں سے بھی مثالی تعاون حاصل نہ ہوا، لیکن اس ضمن میں ان کے لکھے گئے مضامین اور پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقاریر اس اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ کے اہم مواقع پر حکمرانوں کی بے اعتدالیوں کو بے نقاب کرتی ہیں اور ان بے اعتدالیوں کو ختم کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں اور آئین پر اس کی صحیح اسپرٹ میں عمل درآمد کے لیے لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔
زیر نظر کتاب ایسے ہی کچھ مضامین اور تقاریر کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے۔ کتاب کے دو حصوں میں سے پہلا حصہ پروفیسر خورشید احمد کی ترجمان القرآن کے لیے لکھی گئی تحریروں پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرا حصہ اسی طرح کے موضوعات پر ان کی سینیٹ میں کی گئی بعض منتخب تقاریر پر مشتمل ہے۔ مضامین ہوں یا تقاریر، یہ بات واضح ہے کہ یہ کسی خاص وقت اور کسی خاص مسئلے کے پس منظر میں پیش کی گئی ہیں۔ یوں ان میں سے ہر ایک کا سیاق و سباق علیحدہ ہے، لیکن انہیں پڑھنے والے کو اندازہ ہوتا ہے کہ درحقیقت تمام تحریریں پاکستانی سیاست کے ایسے مستقل امراض سے متعلق ہیں جن میں وقت کے ساتھ کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، اور اگر امراض موجود ہیں تو اصلاحِ احوال کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ان تحریروں میں دی گئی تجاویز سے استفادے کے لیے انہیں بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ یوں پاکستان کے سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کے علاوہ پاکستانی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے محققین، اساتذہ اور طلبہ کے لیے آج بھی اور آنے والے دنوں کے لیے بھی یہ اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں جس قدر یہ اُس وقت اہم تھیں جب ابتداً پیش کی گئی تھیں‘‘۔
کتاب کے مضامین درج ذیل ہیں:
حصہ اول (مضامین)
٭آئین میں ترمیم کی حدود، طریقہ کار اور لائحہ عمل
٭فوج کا سیاسی کردار (مجوزہ آئینی ترامیم) ایک تفصیلی محاکمہ
٭مجوزہ آئینی پیکیج (2008ء) آئینی انحرافات کو تحفظ دینے کی کوشش
٭18 ویں آئینی ترمیم: اہداف، کامیابیاں اور اعتراضات
٭اسلامی نظریاتی کونسل، دستوری کردار اور کارکردگی
٭قراردادِ مقاصد، دستور سازی اور اعتراضات کا جائزہ
حصہ دوم(سینیٹ تقاریر)
٭دستور کی روشنی میں قانون سازی اور عمل درآمد
٭سینیٹ کا آئینی کردار
٭مشترکہ مفادات کونسل اور قومی مالیاتی ایوارڈ
٭انسانی اور سماجی حقوق پر حکومتی طرزِعمل
٭اشاریہ
دوسری کتاب ’’آئینِ پاکستان: انحرافات اور بحالی کی جدوجہد‘‘ اس سلسلۂ ارمغانِ خورشید کی ساتویں کتاب ہے، چونکہ اس کا تعلق بھی آئین سے ہے اس لیے ہم نے اس کو پانچویں کتاب کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ جناب خالد رحمن تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ آئین کی حکمرانی سے انحراف ہے۔ ملکی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ انحراف بلااستثنیٰ ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ انحراف کی انتہائی صورت فوجی حکمرانی کے ادوار میں سامنے آتی رہی ہے جب آئین کو کلی طور پر منسوخ یا معطل کردیا گیا۔
دوسری جانب پاکستانی سیاست کا مثبت پہلو یہ ہے کہ آئین سے انحراف کے عمل کو اجتماعی طور پر کبھی بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ چنانچہ انحراف کو ختم کرنے اور معطل شدہ آئین کو بحال کرکے اسے اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے جدوجہد بھی پاکستان کے سیاسی سفر کا مستقل اور روشن باب رہا ہے۔ اس جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ 1973ء میں متفقہ طور پر منظور کیا جانے والا آئین مارشل لا اور فوجی حکمرانی کے دو طویل ادوار کے باوجود آج بھی موجود اور نافذ ہے۔
آئین میں ترمیم ایک معمول کا عمل ہے، چنانچہ پاکستان کے آئین میں بھی ترامیم اور تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور حسبِ ضرورت یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ آئین میں ہر ترمیم اپنی جگہ اہم ہے، لیکن دستورِ پاکستان میں کی جانے والی بعض ترامیم اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان کی بنا پر فوجی حکمرانی کے ادوار کو ختم کرنے، اس دوران پیدا ہوجانے والے آئینی و قانونی خلا کو پُر کرنے اور جمہوری عمل کو ازسرنو جاری کرنے میں مدد ملی ہے۔
زیر نظر کتاب میں اس حوالے سے کئی مضامین شامل ہیں جو بالخصوص 17 ویں آئینی ترمیم کی تیاری، منظوری اور اس پر عمل درآمد کے دوران ہونے والی سیاسی و پارلیمانی جدوجہد کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ 17 ویں ترمیم ہی نے وہ حالات پیدا کیے جس نے 18 ویں ترمیم اور بعدازاں 19 ویں اور 20 ویں ترامیم کے لیے راہ ہموار کی۔ ان تمام ترامیم کے موقع پر سینیٹ آف پاکستان کے ممبر کی حیثیت سے پروفیسر خورشید احمد نے جو بھرپور کردار ادا کیا ہے وہ پاکستانی سیاست سے واقف کسی بھی فرد سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں ان ترامیم کے پس منظر و پیش منظر کے بارے میں ان کی تقاریر اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی جانب سے سینیٹ تقاریر میں اٹھائے گئے نکات محض تاریخی ریکارڈ کی ہی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے تمام متعلقہ افراد کے لیے رہنمائی کی حیثیت کے بھی حامل ہیں۔
17 ویں ترمیم سے متعلق ایک اہم عنوان قومی سلامتی کونسل کی ساخت اور آئینی حیثیت کا تھا۔ کتاب میں شامل ایک تفصیلی مضمون اس نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔
ذرا پیچھے چلا جائے تو قومی اسمبلی کی بار بار تحلیل 1990ء کے عشرے میں پاکستانی سیاست کا ایک اہم عنوان رہی ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون ’’پارلیمانی نظام میں ادارتی توازن اور ہم آہنگی کی ضرورت‘‘ ایسے ہی ایک موقع سے متعلق ہے جس میں مستقل اہمیت کے بہت اہم مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ’’ادارتی توازن اور ہم آہنگی‘‘ درحقیت اس کتاب کے تمام ہی مضامین میں ایک مسلسل عنوان کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ اس توازن اور ہم آہنگی کا تعلق سول ملٹری تعلقات سے ہو، یا پارلیمنٹ اور عدلیہ اور دیگر اداروں سے ہو۔
یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ یہ تمام مضامین اُن تقاریر پر مشتمل ہیں جو پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ میں اُس موقع پر کی ہیں جب یہ وہاں زیر بحث آئے۔ یوں ہر مضمون میں سیاق و سباق کی ایک خاص جھلک موجود ہے۔ تاہم پروفیسر خورشید کی ان تقاریر کی جامعیت اور ان کا حسن ہے کہ سیاق و سباق کسی قدر پرانا ہونے کے باوجود مضامین کی معنویت اور مباحث پوری طرح تازہ اور آج کے حالات میں بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں‘‘۔
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں:
(1) پارلیمانی نظام میں ادارتی توازن اور ہم آہنگی
(2)صدر مملکت کا پارلیمنٹ سے خطاب، آئینی و سیاسی پہلو
(3) مارشل لا اقدامات کے لیے آئینی جواز
(4)،17 ویں آئینی ترمیم: مارشل لا کی مکروہ حالت سے نکلنے کا راستہ
(5) قومی سلامتی کونسل: ضرورت، اور آئینی حیثیت
(17 ویں آئینی ترمیم اور قومی سلامتی کونسل 2004ء کے بل کے تناظر میں بحث)
(6)فوجی سربراہ اور منصب ِصدارت
(جنرل پرویز مشرف کی دہری حیثیت پر بحث کے تناظر میں)
(7) ایمرجنسی لگانے کی دستوری دفعہ کا استعمال
(4 نومبر 2007ء کے مشرف اقدامات کے تناظر میں)
(8) دستور میں 18 ویں ترمیم: پس منظر وپیش منظر
(9) ججوں کی تقرری میں پارلیمنٹ کا کردار
(10) آئین توڑنے پر مقدمہ
(11) نگراں حکومت کا قیام اور الیکشن کمیشن کی نامزدگی (دسویں آئینی ترمیم)
(12) اشاریہ
جگہ کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ان کتابوں سے تین اقتباس پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد فرماتے ہیں:
’’جناب والا! ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ پاکستان صرف اسلام کی بنیاد پر باقی رہ سکتا ہے، پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو صرف اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے ورنہ اس سے پہلے اس نام کا کوئی ملک موجود نہیں تھا۔ اگر آپ نے اس بنیاد کو ہلادیا تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پھر یہاں پر مختلف قومیتیں اور مختلف تعصبات ہوں گے، آپ اس ملک کو باقی نہیں رکھ سکیں گے، اس لیے اسلام کے معاملے میں جو پالیسی آپ نے اختیار کی ہے، خدارا اسے بدلیے، اس کے بغیر ہم زندگی اور ترقی کے راستے پر نہیں جاسکتے، اسلام ہی ہماری ترقی کی ضمانت ہے‘‘۔ (آئینی انحرافات، ص:37)
’’جناب چیئرمین! اگر آپ مجھے اجازت دیں تو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 1973ء میں بحیثیت چیئرمین پیپلزپارٹی اور خود قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان کی حیثیت سے جو بات کہی تھی اس کو یہاں آپ کی خدمت میں ریکارڈ کے لیے پیش کروں۔ ان کا کہنا تھا:
(ترجمہ): ’’مجھے یقین ہے کہ آج کا دن مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ ہم 25 سالوں میں بہت سے تنازعات اور جھگڑوں کے بعد اس مقام پر پہنچے جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک بنیادی قانون ہے، ہمارے پاس ایک آئین ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ آئین پاکستانی عوام کی آرزوئوں اور امنگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریہ کی کسی بھی تعریف کے مطابق یہ آئین ایک جمہوری آئین ہے، کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ وفاقی آئین ہے، کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ خودمختاری کی حدود کا تصفیہ موجود ہے، اور اس کے لیے خدا کا شکر ہے کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اسلامی آئین ہے، اس میں پاکستان کے ماضی کے کسی بھی آئین کے مقابلے میں اور مسلم ممالک کے کسی بھی دوسرے آئین سے زیادہ اسلامی دفعات موجود ہیں۔‘‘ (آئین پاکستان: انحراف، ص: 149)
قومی اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی بحث میں تحریک پاکستان کے ایک اور اہم قائد ڈاکٹر عمر حیات ملک نے کہا:
’’ہم نے پاکستان کو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ ہمارے 40 لاکھ لوگ شہید ہوئے ہیں، ہمارے 70 لاکھ افراد بے گھر اور بے خانماں ہوگئے ہیں۔ ہم نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے یہ تمام قربانیاں خاص غرض سے پیش کی تھیں کہ ’’ہم یہاں اسلامی قوانین اور اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مملکت قائم کریں گے‘‘ لیکن اب حزب اختلاف ہم سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ اپنے مقاصد کو ترک کردیں۔ یہ سب کچھ کرلینے، اس کش مکش سے گزر جانے اور یہ تمام قربانیاں دے دینے کے بعد ہم اپنے اغراض و مقاصد سے دست بردار ہوجائیں اور یہ اعلان کردیں کہ ہمارا مطلب یہ نہ تھا۔ اس کے برعکس ہم صاف صاف کہتے ہیں: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہم ایک اسلامی مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے مذہب اور اپنی ثقافت کی پیروی کرنے میں بالکل آزاد ہیں اور آپ انہیں جس طرح چاہیں ترقی دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے قوانین آپ پر ٹھونسنا نہیں چاہتے، لیکن آپ ہمیں اپنے قوانین اور اپنے مخصوص طرزِ زندگی کے مطابق زندگی گزارنے دیجیے۔ ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام (انسانی) اقتدار، اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے‘‘۔ (آئینی اختیارات کا توازن، ص: 142)
ان دونوں کتابوں کا مطالعہ ہر صحافی، سیاسی کارکن، پارلیمنٹیرین کو پاکستان کے پارلیمانی آئینی انحراف اور اس کی درستی کی جدوجہد کو جاننے کے لیے ضرور کرنا چاہیے، خاص طور پر تحریک اسلامی کے ہر فرد کو اپنی اس جدوجہد سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔
کتابیں عمدہ نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہیں، اس وقت کاغذ کا بحران ہے، ان سب کتابوں میں سب سے اچھی بات یہ نظر آئی کہ پروف کی کوئی غلطی نظر نہیں آئی یعنی حروف چینی بڑی احتیاط سے کی گئی ہے۔ دوسرے ہر کتاب کے آخر میں اشاریہ لگایا گیا ہے جو علمی کتابوں میں ضرور لگانا چاہیے۔ آئی پی ایس پریس مبارک باد کا مستحق ہے۔ لاہور میں آئی پی ایس کی کتابیں اسلامک پبلی کیشنز منصورہ ملتان روڈ، کتاب سرائے غزنی اسٹریٹ، اردو بازار کتاب وادی اردو بازار 0322-4011864، کراچی میں فضلی سنز اردو بازار اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی فیڈرل بی ایریا سے بھی دستیاب ہیں۔