لالہ صحرائی کی نعت گوئی

ـ7 جولائی ،یوم وفات پر خصوصی تحریر
لالۂ صحرائی اس دور کے ایک اہم نعت گو شاعر ہیں۔ ان کا شمار اُن نعت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے نعت نگاری کے مبارک فن کو عبادت کے طور پر برتا۔ ان کے متعدد نعتیہ مجموعوں کے مطالعے کے دوران جو احسا س بڑی شدت کے ساتھ قاری کے ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، وہ نعت کے فن سے اُن کا وہ لگائو ہے جو مذہبی عبادات کا جذب اور قرینہ رکھتا ہے۔ اُں کے مقاصدِ نعت میں برکت جوئی، نجات طلبی اور خاتمہ بالخیر کی تمنا نمایاں ہے۔ ان کی نعتوں میں متعدد بار ان مقاصد کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ خصوصاً پایانِ عمر میں صنفِ نعت کی طرف رجوع کو وہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم سمجھتے ہیں اور اسے اپنے حق میں نیک فال خیال کرتے ہیں۔ مرزا غالبؔ کی معروف غزلیہ زمین… ’مآل اچھا ہے‘ کے اس شعر میں کہتے ہیں:

موت آئی ہے تو آئی ہے لبوں پر مدحت
زندگی اچھی نہ تھی، اس کا مآل، اچھا ہے

لالۂ صحرائی عقیدت و محبت اور مہارت و اطاعت کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام سے وابستگی کو ایک مسلسل جہاد اور باطل قوتوں کے ساتھ ہمہ وقت برسرِپیکار رہنے کا مکلف بھی بناتے ہیں۔ اُن کے بقول:

اس کو نہیں ہے دینِ نبیؐ سے کوئی نسبت
باطل سے جو آمادۂ پیکار نہیں ہے

انھوں نے اپنی نعتوں میں دوسرے موضوعات کے علاوہ غزوات نگاری پر بھی توجہ دی اور اس موضوع کے تخصّص سے اپنی نعت گوئی کو ایک انفرادیت عطا کی۔ اس حوالے سے غزواتِ رحمۃ للعالمینؐ ان کا جداگانہ قسم کا مجموعۂ نظم ہے (جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا)۔ ان نظموں میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام چھوٹے بڑے غزوات کو نظم کے پیرائے میں بیان کیا جائے۔ اس مجموعے میں لالۂ صحرائی نے بائیس (۲۲) غزوات کا احوال منظوم کیا ہے۔ ان نظموں میں انھوں نے جہادوغزوات کی حکمت کے ساتھ ساتھ جہاد کی مقصدیت پر بھی روشنی ڈالی ہے اور آغازِ اسلام میں اس کی ضرورت و اہمیت اور نتائج و اثرات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ اُردو نعت گو شاعروں میں اس انفرادیت پر بلاشبہ لالۂ صحرائی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اسلامی تاریخ اورسیرت النبیؐ کے اس پہلو کو تخصّص کے ساتھ منظوم کیا ہے۔ انھیں خود بھی اس کا احساس ہے، وہ کہتے ہیں:

شکر ہے اک اور نعمت مل گئی
آئو اہلِ حق ! مبارک باد دو
خوبیِ قسمت پہ قرباں جائوں میں
نعت گو تھا، اب ہوا غزوات گو

لالۂ صحرائی کی غزوات پر لکھی گئی نظموں میں ان کے لب و لہجے کے وہی عناصر لَو دے رہے ہیں جو اُن کی نعتوں کا خاصہ ہیں یعنی:

عاشقی، سادگی اور خلوص
میری نعتوں کی بنیاد

انھوں نے رزم و جہاد کے واقعات کے بیان میں بھی اپنی نعت گوئی کے اخلاص آمیز سادہ آہنگ کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ سادگی کے ساتھ روانی اور تاثیر نے ان رزمیہ غزوات ناموں کو اُردو کی نعتیہ شاعری میں جس رنگِ خاص کا حامل بنا دیا ہے، اس کی مثال معاصر نعت نگاروں میں نظر نہیں آتی۔

لالۂ صحرائی نے غزوات کے حوالے سے نہ صرف اسلام میں جنگ و جہاد کی اہمیت اور نزاکتوں کو قلم بند کیا ہے بلکہ دنیابھر کی تہذیبوں، مذہبوں اور معاشرتوں کے مقابلے میں اسلام کے تصورِ ’’جنگ‘‘ کی جزئیات کو جس سادگی کے ساتھ شعر کے پیرائے میں بیان کیا ہے، آج کے معاشرے میں ان تصورات اور روایات کے اعادے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ اسے اقوامِ عالم تک پہنچانے کی مسلسل کوشش بھی آج کے مسلمان جنگی تجزیہ نگاروں کا فرض ہے۔
لالۂ صحرائی اسلامی تصورِ جنگ کو نمایاں کرتے ہوئے کہتے ہیں :

عدو کی کرنا نہ اِملاک نذرِ آتش تم
نہ پھینکنا کسی دشمن کو آگ میں اصلاً
ہوں چشمے پانی کے جو سر زمینِ دشمن پر
مضرتوں سے مجاہد کریں نہ آلودہ
دبائو کتنا ہی حالات کا ہو تم پہ شدید
جو دشمنوں سے کیا ہو، کرو وہ عہد، وفا
………
نہ بھول کر بھی ہو بے حرمتی خواتین کی
ضرر رسانی نہیں اُن کی ذرّہ بھر بھی روا
تمھارے ہاتھ سے بال ان میں مت کبھی آئے
خیال رکھنا، ہمیشہ ان آبگینوں کا
تواضع اس کی کرو دل کشا مروّت سے
جو ہاتھ آئے کوئی جنگی قیدی دشمن کا
………
درود سرورِ عالمؐ پہ جس کی رحمت نے
طریقِ جنگ کو تقدیس کا شرف بخشا

مختلف عنوانوں کے تحت لکھی گئی غزواتی نظموں کا مطالعہ جداگانہ مقالے کا متقاضی ہے۔ لالۂ صحرائی نے تسمیۂ غزوات، ضیائے بدر، خواب منتشر، تذلیل شر، بادِاجل وغیرہ مختلف عنوانوں سے شاعری کی۔ انھوں نے غزوات کے احوال و واقعات کے بیان میں سیرت کی مستند کتابوں،تاریخِ اسلامی، سیرومغازی اور احادیثِ رسولؐ کی غیرمتنازع روایات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمارے کئی شاعر خصوصاً جنھوں نے جنگ نامے اور میلادنامے لکھے ہیں، جنگی واقعات کے بیان میں مستند روایات کے ساتھ غیرمعیاری واقعات بھی قلم بند کرجاتے ہیں۔ لالۂ صحرائی کے ہاں احتیاط اور تحقیق کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔ وہ کتاب کے دیباچے میں ’’نفیرِقلم‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’اپنی اس کاوش کے دوران میں نے غزوات کے انھی واقعات کو اخذ کیا ہے جن کے بارے میں سیرت کی اکثر مستند کتابوں میں اتفاق پایا جاتا ہے۔‘‘ (ص:۲۴)
افکاروموضوعات کے پایۂ تحقیق کے ساتھ لالۂ صحرائی کی شاعری کا فنی مقام بھی قابلِ ذکر ہے۔ سادگی، روانی، جوش و جذبہ، جزئیات نگاری کے ساتھ ان نظموں میں محاکات نگاری اورامیجری کے بڑے خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ ساکن، متحرک اور ڈرامائی تمثالوں نے نظموں کے فنی اعتبار میں اضافہ کیا ہے۔ شعر کی زمین میں کھلے قافیے (کا،کھلا، عظمیٰ، اسوہ) نے روانی اور بہائو سے اس نظم نامے میں تاثیر کا جو اضافہ کیا ہے، وہ اختتام تک قاری کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ شاعر تو اس تخلیقی سفر میں شاملِ غزوات ہے ہی، قاری بھی اپنے آپ کو شاملِ واردات خیال کرتا ہے۔

چودھواں زخم،شمیم رخ، دومژدے اور دستِ دل کشا۔ ان غزوات میں کئی نظم پارے ایسے ہیں جو لالۂ صحرائی کے واقعات زیرِبیان سے محبت و وابستگی کے ساتھ ساتھ اُن کے تخلیقی شاعر ہونے کے شاہد بھی ہیں۔ لالۂ صحرائی کے جملہ نعتیہ اثاثے میں غزوات سے متعلق ان کی کاوش کا منفرد تخصص ہے جس سے وہ نہ صرف اپنے معاصر نعت نگاروں بلکہ اُردو نعتیہ شاعری کی تاریخ میں بہت عزت و احترام کے ساتھ یاد کیے جائیں گے۔

نعتیہ شاعری کی تاریخ کا آغاز حضور اکرمؐ کے عہدِ مبارک میں لسانی جہاد سے ہوا تھا۔ حضرت حسان بن ثابتؓ اس قافلے کے سرخیل ہیں جنھیں خود دربارِ نبویؐ سے کفارِ مکہ کی ہجو کے جواب میں اس لسانی جہاد پر مامور کیا گیا تھا۔ یوں ہر زمانے کا نعت گو حضرت حسانؓ کی شعری روایات، نعتیہ مضامین اور سیرتی موضوعات کے تذکار سے کسی نہ کسی طور وابستہ ہے اور اپنی اس وابستگی پر فخر و مباہات کا اظہار کرتا ہے۔ لالۂ صحرائی نے بھی غزوات نگاری کے اس سلسلے کو اسی روایت سے منسلک کیا ہے جو حضرت حسانؓ سے شروع ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں:

کہا یہ حضرت حسانؓ سے پیمبرؐ نے
جو اُن کے شعرِ مُرصّع سُنے پئے غزوہ
گُندھی ہے لفظوں میں اُن کے جہاد کی کاوش
عدو کے واسطے تیر و تفنگ ہیں یکجا
ملے اے کاش، مجھے بھی نبیؐ کی خوشنودی
ہوں میں بھی حضرتِ حسانؓ کے قبیلے کا

لالۂ صحرائی کی نعتیہ شاعری کا بڑا حصہ غزل کی صنف میں ہے لیکن انھوں نے دوسری اصناف کو بھی اپنی نعتیہ و اردات کے اظہار کے لیے برتا ہے۔ دوسری اصناف میں نظم، سانیٹ، ہائیکو، مثنوی، قطعہ، رباعی اور نظم آزاد وغیرہ کی اصناف شامل ہیں۔ نعت کے لیے مختلف اور متنوع اصنافِ سخن کا استعمال جہاں ایک طرف ان کے فنی دائرے کی وسعت کا عکاس ہے وہاں ان کے وفورِ جذبات کا مظہر بھی ہے۔ لالۂ صحرائی نے پایانِ عمر میں نعت گوئی اختیار کی مگر جب وہ ادھر متوجہ ہوئے تو تادمِ مرگ اُن کی اس موضوع کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی رہی۔ انھوں نے اپنے شعرِ نعت کے اولین مجموعے لالہ زار نعت کے آغاز میں ’’کلمۂ شکر‘‘ کے عنوان کے تحت اپنی وابستگیِ نعت کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’آج سے قریباً چار ماہ قبل میرے دل و دماغ پر یک لخت نعت کا ترشح شروع ہوگیا اور وہ بھی اس تواتر کے ساتھ کہ ہفتے دس دن کے اندر ہی میں مَیں نے آٹھ دس نعتیں کہنے کی توفیق پالی… نعت گوئی کے ابتدائی ترشح نے جلد ہی بارش کی صورت اختیار کرلی، حتیٰ کہ میں نے بعض اوقات شب و روز میں دو دو تین تین نعتیں کہنے کی توفیق پالی۔ اس طرح میرے جذبۂ دروں نے کم وبیش چار پانچ ماہ کے اندر مجھ سے ایک صد نعتیں کہلوالیں…‘‘
لالۂ صحرائی نے بعض اساتذہ کی معروف اور مستعمل غزلیہ زمینوں کو بھی اپنے نعتیہ محسوسات و خیالات کے لیے برتا ہے، ان میں مرزا غالبؔ، آتش لکھنویؔ اور علامہ اقبالؔ کے علاوہ کلاسیکی اور معاصر شاعروں کی زمینیں بھی ہیں۔ غالبؔ کی معروف زمینیں:
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
میں لالۂ صحرائی نے تین نعتیں کہی ہیں۔ ہم طرح زمینوں میں کہی جانے والی ایک نعت کا مطلع دیکھیے:

آ گیا رُوئے نبیؐ پر جو جلال، اچھا ہے
گھُل گیا ہے جو ستاروں میں گُلال، اچھا ہے
اساتذہ کی چند اور معروف زمینوں میں لالۂ صحرائی کی نعتوں کے مطالعے دیکھیے:

دل میرا سینے سے باہر اب جو اُچھلا جائے ہے
کیا کوئی قاصد مدینے سے، مرے گھر آئے ہے؟
………
مدینے جانے کا شوق زیادہ رکھتے ہیں
ریاضِ خُلد کا گویا ارادہ رکھتے ہیں
………
جو سچی بات ہے سب سے، فقط وہ ہے کتابِ اللہ
بھروسے کے جو لائق ہے، وہ بس تقویٰ کا ہے کلمہ
………
جو ہم مدینے کی ہیں دل سے گفتگو کرتے
تو اس میں دوڑتے خوں کو ہیں مشکبُو کرتے
………
یا رب مری آنکھوں کو اُس نعت کا گریہ دے
عشاق کی محفل کو اشکوں سے جو چمکا دے
………
آقاؐ کا جو اسوہ ہے وہی نورِ مبیں ہے
اوہام کی ظلمت میں وہی صبحِ یقیں ہے
………
اُن کے اسوے کا جو اک عکس بشر ہو جائے
گر خزف ہو تو وہ تابندہ گہر ہو جائے
………
انھی کو مصطفی کہیے، انھی کو مجتبیٰؐ کہیے
جب آئے یاد اُن کی، ساتھ ہی صلِّ علیٰ کہیے

اساتذہ اور معاصر شاعروں کی غزلیہ زمینوں میں نعت لکھتے ہوئے لالۂ صحرائی نے نہ صرف ان زمینوں کے اندر نعتیہ امکانات کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے بلکہ انھیں مشرف بہ نعت کرکے کئی ایسے خوبصورت نعتیہ اشعار بھی کہے ہیں جن سے ان زمینوں کے اندر فکری تازہ کاری کے کئی نئے دروا ہوئے ہیں۔

لالۂ صحرائی کے نعت کے مطالعے سے اخذ ہونے والے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱۔نعتِ رسول اکرمؐ کی تخلیق اُن کے لیے اللہ کی ثنا کی طرح ہے۔ وہ اسے اللہ کی حمد و تسبیح ہی کی توسیع خیال کرتے ہیں۔ بقول اُن کے ’’نعت اللہ کی ثنا ہو جیسے‘‘ یعنی تخلیقِ نعت عبادت کی طرح ایک مقدس فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادائی بھی اپنے تمام احترامات و آداب کے ساتھ ہونی چاہیے۔ جس طرح عبادت میں ریا کبھی پسندیدہ خیال نہیں کی جاتی، اسی طرح تخلیقِ نعت کے سارے مرحلے بھی کامل اخلاص اور تقدس کے ساتھ ادا ہونے چاہئیں۔

۲۔نعت گوئی اُن کے لیے محض زبانی اظہارِ محبت کا اعلان نہیں بلکہ یہ مبارک فن اس ذاتِ ستودہ صفات کی لائی ہوئی شریعت، احکامات، پیغام اور ضابطۂ حیات سے وابستہ قوانین و ارشادات پر عمل کا توثیق نامہ ہے۔ یعنی یہ محبت، حُب، اطاعت اور سرشت ہے۔ نعت کی صنف اپنے خالق (شاعر) سے اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کے شریعت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھے اور ان سے حتی الامکان عہدہ برآ ہونے کے لیے کوشاں رہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:

رکھوں میں سیرتِ آقاؐ کا آئینہ، اپنے آگے
اور اپنے کردار کا اس میں چہرہ مہرہ دیکھوں

۳۔لالۂ صحرائی کے لیے نعت گوئی جزوقتی نہیں، ہمہ وقتی مصروفیت ہے۔ وہ اسے زندگی بھر کا وظیفہ سمجھتے ہیں۔ قدرت نے انھیں زندگی کی جو نعمت دی ہے، وہ اسے نعت گوئی میں بسر کرنے کے ارادے کا اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے مستعد ہیں۔ اس قرض کو فرض کی طرح ادا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ان درج ذیل شعروں میں اسی شوق اور عزم کا اظہار ملتا ہے:

زندگی کا ہے وظیفہ اب، یہی
نعت کی آمد کا رستہ دیکھنا
ضعف کے مارے ہوئی زندگی دشوار مری
جی رہا ہوں مَیں فقط نعت و ثنا کے دم سے
میں لکھتا ہوں بس آخرت ہی کی خاطر
قلم کو ہے میرے اسی حد میں رہنا
مغفرت چاہتا ہے، بندہ عاصی، مولا!
نعت گوئی کے عوض، تیری ثنا کے بدلے

یعنی لالۂ صحرائی کے لیے نعت گوئی زندگی کا وظیفہ ہے، جینے کا مقصد آخرت کی فلاح اور مغفرت کا ذریعہ ہے، نیز ان کی زندگی میں شادابی بھی اسی کے سبب ہے۔ بقول ان کے:

زیست تھی، پھُول سے، پھَل سے خالی
نعت سے پھُولی پھَلی یہ ڈالی
میں جی رہا ہوں، پیمبرؐ ہی کی ثنا کے لیے
مروں گا جب، تو مروں گا میں یوں بقا کے لیے
نصیب ہو، اُسے یارب، زمیں مدینے کی
جو خشک ہو کے گرے، میری عمر کا پتّا
گرا ہوں پیشِ مواجہ میں اشک کی صورت
حضورؐ سے مرا یہ حال، جالیو! کہنا
کرتی ہے مدینے سے جو پرواز کوئی روح
پھیلاتے ہیں پھر قدسی بھی افلاک پہ بانہیں

لالۂ صحرائی کی لفظیات میں ماحول کے اثرات کا بے تکلفانہ پن ظاہر ہے۔ پنجابی زبان میں اور مقامی زبان کے لب و لہجے میں عام بولے جانے والے الفاظ ان کی نعت میں آکر ’اُوپرے‘ اور اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔ ایسے الفاظ کے استعمال میں ان کے ہاں تکلف اور تصنع نہیں، سادگی اور فطری پن نمایاں ہے۔ جیسے اُن کے ذہن میں کوئی لفظ آیا، ویسے ہی وہ نعتیہ واردات کے اظہار کا ذریعہ بن گیا۔ اُن کے ہاں ایسے الفاظ میں سے کچھ کے بے ساختہ استعمال کی مثالیں دیکھیے:

جو صِدق و صفا سے ہے پُر میرا سینہ
تو کم علمی کا مجھ کو دیجیے نہ مہنا
پیش مواجہ جمگھٹا عشاق کا ہوا
میں بھی ہوں اس میں رحمتِ رحمان سے رَلا
رَلا تھا مٹی میں پر کاروانِ طیبہ میں
خدا کی رحمتِ بے پایاں سے رَلا ہوں میں
پھَلے محشر میں، مرا نخل تمنا، یارب!
نعت کا بُور، شفاعت کا ثمر ہو جائے

یہاں مہنا (بمعنی طعنہ)، رَلا (ملنا) کے علاوہ بُور کے لفظ کے استعمال میں بے ساختگی دیکھیے۔ یہ لفظ اگرچہ اُردو میں بھی مستعمل ہے مگر یہاں اس کے استعمال میں کتنی بے ساختگی ہے اور یہ اپنے معنوی سیاق و سباق میں کتنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ لالۂ صحرائی کی نعت میں ایک بے تکلفانہ سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ ایسے الفاظ کا استعمال اسی بے تکلفی کا اظہار ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ لالۂ صحرائی نے موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان سے بھی نعت کو دل آویز بنادیا ہے۔