چمڑے کی صنعت بحران کا شکار نہیں،قربانی کی کھالوں کی قیمت دگنا ہوگی

چمڑا مجموعی طور پر جو افادیت رکھتاہے اس کا متبادل کیمیائی اشیاء نہیں ہوسکتیں۔
پچھلے سال پاکستان میں چمڑے کی مصنوعات کی ایکسپورٹ میں 17فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں 1000کے قریب تمام ٹینریز کو بین الاقوامی معیار کے آڈٹ سے گزارا جارہا ہے۔

پاکستان ٹنیری ایسوسی ایشن کے چیئرمین امان اللہ آفتاب کی فرائیڈے اسپیشل سے خصوصی گفتگو

پاکستان چمڑے سے بھاری زرمبادلہ کمانے والے ملکوں کی فہرست میں شامل رہا ہے، وطن عزیز میں چمڑے کی صنعت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی برآمدی صنعت ہے، جس کی بڑی وجہ قربانی کے جانوروں سے ملنے والا چمڑا یا کھال ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی چمڑے کی صنعت کی اب پہلے والی بات نہیں رہی ہے اور اس کو زوال ہوا ہے۔ اس کی کئی ملکی اور غیر ملکی وجوہات ہیں۔ عیدِ قرباں پر لاکھوں جانوروں کی قربانی سے حاصل ہونے والی کھالیں اس صنعت کو ہر سال سہارا دیتی ہیں، کیونکہ ٹینریز کو عید پر کروڑوں روپے کا خام مال ملتا ہے۔ امسال مجموعی طور پر قربانی کی ستّر ملین کھالیں ملنے کی توقع ہے جو پچھلے سال 68 ملین تھیں۔ واضح رہے کہ 2012ء میں قربانی کی گائے کی کھال کی قیمت 5 ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی جب کہ پچھلے سال 6سو اور 8سو تک رہی تھی۔ ٹینری کی صنعت جانوروں کی کھالوں کو مخصوص طریقوں سے پروسیس کرتی ہے اور پھر یہ چمڑے میں تبدیل ہوتی ہیں۔ اس طرح قربانی کی کھالوں سے ٹینریز کو چھ ماہ کا اسٹاک مل جاتا ہے۔

امان اللہ آفتاب پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے اس کی تنظیمی ساخت کے حوالے سے بتایا کہ ایسوسی ایشن کے تین زون ہیں: نارتھ (پنجاب اور خیبر پختون خوا)، اور ساؤتھ زون (سندھ ، بلوچستان)ہیں، سینٹرل میں دونوں زون شامل ہیں۔ کراچی میں سینٹرل کا ہیڈ آفس ہے، مقامی سطح کے کام زون کے دفاتر خود انجام دیتے ہیں۔ حکومتی امور، پالیسیوں اور ٹیکسوں سے متعلق کام مرکزی ہیڈ آفس کرتا ہے۔ کراچی میں 250 چھوٹی بڑی ٹینریز کام کررہی ہیں۔ پاکستان میں کراچی، لاہور، سیالکوٹ، ملتان، ساہیوال میں ایک ہزار ٹینریز ہیں۔ مجموعی طور پر چمڑے کی اس صنعت سے جس میں اس کی مصنوعات بھی شامل ہیں، 10لاکھ کے قریب ملازمین کسی نہ کسی شکل میں وابستہ ہیں۔ فرائیڈے اسپیشل نے امان اللہ آفتاب سے چمڑے کی صنعت اور اس کی مصنوعات اور عید قرباں کے پس منظر میں تفصیلی گفتگو کی جو نذرِ قارئین ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: پاکستان چمڑے سے بھاری زرمبادلہ کمانے والے ملکوں کی فہرست میں شامل رہا ہے، لیکن اب بتدریج پاکستانی چمڑے کی صنعت بحران کا شکار ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

امان اللہ آفتاب: اس وقت ہم چمڑے کی صنعت کو بحران کا شکار نہیں کہہ سکتے۔ پچھلے سال پاکستان میں چمڑے کی مصنوعات کی ایکسپورٹ میں 17فیصد اضافہ ہوا ہے، تیار مصنوعات کی ایکسپورٹ میں مجموعی طور پر امسال 33فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایکسپورٹ ایک بلین ڈالر تک پہنچی ہے۔ چار پانچ سال پہلے یہ اس سے زیادہ تھی جو 120ملین ڈالر تک پہنچی تھی۔ یہ ضرور ہوا کہ دُنیا بھر میں اصل چمڑے کی جگہ مصنوعی چمڑے نے لے لی، فیشن میں بہت تبدیلیاں آئیں، خصوصاً جوتوں، جیکٹس و دیگر میں چمڑے کے استعمال میں خاصی کمی آئی۔ پچھلے سال ہماری ایکسپورٹ 850ملین ڈالر تھی، اس سال 950 ملین سے 1000ملین ڈالر تک ہوئی۔ اس کے فائنل اعداد وشمار ابھی آجائیں گے۔ ہاں  چار پانچ سال پہلے کے مقابلے میں آپ کا کہنا ٹھیک ہے،کیونکہ آج سے پانچ سال پہلے چمڑے کی ایکسپورٹ 1.2بلین ڈالرتک پہنچ گئی تھی، پھر دنیا میں تبدیلی آئی، فیشن تبدیل ہوا، لیدر کے جوتے کم استعمال ہونے لگے، اصل چمڑے کی جگہ آرٹیفیشل چمڑا استعمال ہونے لگا، چمڑوں کے جوتے کی جگہ جوگرز نے لے لی، اور نوجوان نسل میں یہ بہت مقبول ہوئے، جس کی وجہ سے چمڑوں کے جوتوں کی ڈیمانڈ کم ہوئی۔ اسی طرح چائنا نے چمڑے سے ملتا جلتا ریگزین نکالا، وہ بھی ایک فیشن میں آگیا، اور آصل لیدر کی جیکٹ جو بہت مہنگی ہوا کرتی تھی، ریگزین کی جیکٹ بہت سستی ہوا کرتی تھی، تو وہ اس سے تبدیل ہوگئی۔ لیدر کی جیکٹ لوگ سالوں سال استعمال کرتے تھے، ریگزین کی جیکٹ ایک سال پہنی اور پھینک دی اور اگے سال دوسری لے لی۔ کیونکہ قیمت کم ہوتی تھی، تو ان وجوہات کی وجہ سے لیدر کی ایکسپورٹ کم ہونا شروع ہوگئی تھی اور 1.2 بلین سے 750ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی،اب جو اضافہ ہوا ہے اس سے 1بلین تک ایکسپورٹ واپس آجائے گی۔

فرائیڈے اسپیشل: چمڑے کے متبادل کے نام پر دوسرا ٹرینڈ جو مصنوعات کا آیا اس سے انسانی صحت پر کسی قسم کے مضر اثرات کا خدشہ ہے؟

امان اللہ آفتاب: چین نے بالخصوص پلاسٹک و مصنوعی اشیاء کی جو مصنوعات چمڑے کی جگہ استعمال کیں وہ بہرحال بہت کم پائیدار ثابت ہوئیں۔ کیمیکل و دیگر کے استعمال سے تیار ہونے کی وجہ سے انسانی صحت پر لازمی طور پر مُضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چمڑا قدرتی ہے جو بہرحال مجموعی طور پر افادیت رکھتا ہے، اس کا متبادل کیمیائی اشیاء نہیں ہوسکتیں۔ چمڑے کے جوتے و مصنوعات سالہا سال چلتی ہیں یہ سب جانتے ہیں، مگر ملتی جلتی اشیاء یا ریگزین و دیگر سے سستی اشیاء بناکر خوب مارکیٹ چڑھائی گئی، جس سے ابتدائی طور پر ضرور فرق پڑا مگر صارفین نے دونوں اشیاء کا فرق خود سمجھ لیا اور اب ریگزین اور پلاسٹک کی جگہ کم ہوگئی ہے، اب لوگ کاٹن کی جیکٹ  پر آگئے ہیں، کیونکہ ریگزین ایک طرف سے پھٹنا شروع ہوجائے تو پوری خراب ہوجاتی ہے۔ لیدر کی جیکٹوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھا ہے اور لیدر کی جیکٹوں کی ڈیمانڈ میں 43فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ریگزین کا جوتا بھی دیرپا نہیں تھا، پاوں میں پسینہ آتا تھا تو جذب نہیں کرتا تھا۔

فرائیڈے اسپیشل: عالمی سطح پر جانوروں کے چمڑے کی صنعت کو ڈرٹی انڈسٹری میں شمار کیا جاتا ہے، اور پھر اس پر مختلف پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں، آپ لوگ بین الاقوامی معیارات کا چمڑے کی تیاری میں کتنا خیال رکھتے ہیں؟

امان اللہ آفتاب: چمڑے کی تیاری کے پراسیس میں 10-12سال قبل ایک مجموعی کوتاہی یہ ہوتی تھی کہ اس کا فضلہ و خراب پانی درست انداز سے ضائع نہیں کیا جاتا تھا، اس کو عمومی نالوں میں ڈال دیتے جو سمندر تک جاتا۔ اس وجہ سے اسے ڈرٹی انڈسٹری سمجھا جاتا تھا، اِس کے بعد حکومتی سختی اور بین الاقوامی معیارات کی وجہ سے مجموعی طور پر آگہی بڑھی اور باقاعدہ آڈٹ کا عمل شروع ہوا۔ پچھلے 5-6سالوں میں اس کے معیارات بنے اور ایک ’لیدر ورکنگ گروپ‘بنا تمام ٹینریز کے معیار کو درست رکھنے کے لیے، تاکہ اس پر سے ’ڈرٹی انڈسٹری‘ کا لیبل ختم کرایا جاسکے۔ ٹینریز میں پانی کے استعمال پر بھی خصوصی چیک رکھا گیا۔ باقاعدہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جاتے ہیں۔ حکومت نے 7کروڑ کی گرانٹ منظور کی اس ضمن میں، تاکہ پانی کی سیکنڈری ٹریٹمنٹ کرکے وہ پانی کو بہتر کرکے باہر نکالے۔ ورکنگ گروپ کی ٹیمیں وقتاً فوقتاً پوری ٹینری کے دورے کرتی ہیں اور اس کے پورے اندرونی وبیرونی ماحول کا آڈٹ کرتی ہیں تب جاکر بین الاقوامی اداروں سے تجارت کی اجازت ملتی ہے۔ تیزی سے کراچی اور پنجاب کی تمام ٹینریز کو آڈٹ کے عمل سے گزارا جارہا ہے۔ کراچی میں بھی پلانٹ کام کررہا ہے، جو سیکنڈری پلانٹ ہے وہ حالیہ دنوں میں حکومتی گرانٹ سے آپریشنل ہوا ہے، اس میں مزید کام ہوا ہے۔ تو اب ٹینریز سے نکلنے والا پانی ٹریٹ ہو کر نکلتا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:لیکن آج بھی کراچی میں ٹینرز سے نکلنے والا فضلہ ملیر ندی میں چھوڑ دیا جاتا ہے جو براہِ راست سمندر میں داخل ہوجاتا ہے۔

امان اللہ آفتاب: میں نے بتایا کہ سیکنڈری پلاںٹ ابھی حال میں اپ گریڈ ہوا ہے۔ وہ پچھلے20سال سے پرائمری اسٹیج پر چل رہا تھا اور تین سال کے عرصے میں مزید نئے پلانٹ لگ گئے ہیں اور اب طریقے سے ٹریٹمنٹ ہورہی ہے۔ اب خراب پانی ٹینریز کی حدتک سمندر میں نہیں جارہا۔ ہم خراب کیمیکلز ختم کردیتے ہیں۔ اب ٹینریز سے ٹریٹ شدہ پانی نکل رہا ہے، پھر جہاں جہاں آبادیوں سے وہ گزرتا ہے ان آبادیوں کا فضلہ اور جو دیگر اںڈسٹریاں راستے میں پڑتی ہیں جنہوں نے نالے ملائے ہوئے ہیں، اُن کا پانی اِس پانی میں مل کر اسے دوبارہ گندا کردے، تو اس کی ذمہ داری ٹینریز پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

فرائیڈے اسپیشل: مسلم ممالک میں عید قرباں کے موقع پر آپ کو بڑی تعداد میں کھالیں ملتی تھیں اور قیمت بھی اچھی ہوتی تھی۔ 2012ء میں قربانی کے جانور کی جو کھال 5 ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی، اس کی قیمت اِس سال کیا متوقع ہے؟

امان اللہ آفتاب: قربانی کی کھالیں چمڑے کے حصول کا اہم مصرف بنتی ہیں جو ایک وقت میں بڑی تعداد میں جمع ہوتی ہیں۔ قربانی کی کھالوں کا تعلق موسم سے بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت میں وہ بڑی تعداد میں آتی ہیں۔ 2012ء میں موسم سرما تھا تو سرد موسم کی وجہ سے کھال کی پائیداری نے کھال کی کوالٹی کو بہتر رہنے دیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ملی۔ اب چونکہ گرمیوں کی وجہ سے خریدار کی دلچسپی مال کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ جانے کی وجہ سے کم ہوتی ہے اس لیے قیمت پر اثر پڑتا ہے۔ کھالوں کی قیمتیں ہمیشہ عالمی منڈی میں ڈیمانڈ اور قیمت کے مطابق ہی طے کی جاتی ہیں۔ اس سال ہم چمڑے کی مصنوعات کی ڈیمانڈ واضح طور پر محسوس کررہے ہیں۔ امسال دنیا بھر میں چمڑے کے کاروبار کی ڈیمانڈ بڑھی ہے، پاکستانی کرنسی کی قیمت کم ہوئی ہے تو امسال قربانی کی کھالوں کی قیمت پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنی ہوگی۔ گائے کی کھال پچھلے سال 800 روپے کے مقابلے میں امسال 1500سے 2000 روپے تک، جبکہ بکرے کی کھال 250روپے تک جائے گی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جو یہ کھالیں جمع کرے گا اس کو مہنگائی کی وجہ سے کوئی بڑا فائدہ قیمت بڑھنے کا نہیں ہوگا، کیونکہ کھال کی قیمت مہنگائی کی شرح کے مطابق تو نہیں بڑھی۔

فرائیڈے اسپیشل: عالمی معیار کے مطابق کھالوں کی کوالٹی برقرار رکھنے کے لیے کھالوں کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے؟

امان اللہ آفتاب: ہم گرمیوں کی وجہ سے کھال کی حفاظت کے لیے باقاعدہ اشتہار و بینر بھی لگوانے لگے ہیں تاکہ لوگ نہایت آسان طریقے سے کھال بچا سکیں۔ اس میں سب سے آسان کام یہ ہے کہ قربانی سے قبل چار پانچ کلو نمک لے لیں اور قربانی کے وقت ہی قسائی کو دے دیں کہ وہ کھال پر لگا دے۔ یہ کام 2-3منٹ کا ہے مگر کھال کو بچا سکتا ہے۔ اسی طرح کھال کو دھوپ میں نہ رکھیں، اناڑی قسائی سے گریز کریں، کسی تھیلی میں نہ ڈالیں، کوشش کریں کہ نمک جلد از جلد لگائیں اور کوئی سا بھی نمک لگاسکتے ہیں۔ سمندری نمک سستا ہے وہ لگادیں۔ اس سے ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ کھالیں جمع کرنے والے اداروں کو بھی فائدہ ہوگا۔