G-20 اجلاس: مقبوضہ جموں و کشمیر کا انتخاب،چین کا واضح رد عمل

عوامی جمہوریہ چین نے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 ملکوں کی کانفرنس کے انعقاد کے اعلان پر خاموشی توڑ دی ہے۔ چین کی طرف سے کہا گیا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، جبکہ بھارت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کانفرنس کا انعقاد بھارتی علاقے میں ہورہا ہے۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان ژہائو لیجیان نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس حالیہ پیش رفت کو نوٹ کیا ہے، کشمیر پر چین کا مؤقف واضح اور دوٹوک ہے۔ مسئلہ کشمیر ماضی سے چلا آنے والا ایک تنازع ہے جسے پُرامن انداز سے باقاعدہ طور پر حل ہونا چاہیے۔ متعلقہ فریقین کو ایسے یک طرفہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے صورتِ حال اُلجھ کر رہ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جی 20 کے اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اسے عالمی معیشت کے سدھار کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ کشمیر ماضی سے حل طلب چلا آنے والا ایک مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔
چینی ترجمان کے اس دوٹوک مؤقف سے یوں لگتا ہے کہ کسی بھارتی یا مغربی اخبار نویس نے یہ سوال داغا کہ چین خود جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں سی پیک کی صورت میں ایسی ہی سرگرمی کررہا ہے، جس کے جواب میں چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں میں چینی کمپنیوں کی شراکت داری اور کشمیر میں جی20 کانفرنس دو مختلف معاملات ہیں۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چینی کمپنیاں عوام کی ترقی اور معیشت کی بہتری کے لیے کچھ پروجیکٹ چلاتی ہیں، اس سے کشمیر کے بارے میں چین کے مؤقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ گویا کہ چین سی پیک یا آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں میں شریک رہتے ہوئے بھی اس علاقے کو متنازع سمجھتا ہے۔ تاہم ایک بات نوٹ کی گئی کہ چینی اہلکار کی طرف سے پہلی بار آزاد کشمیر کے لیے ”پاکستانی مقبوضہ کشمیر“ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ بھارتی میڈیا چین کی طرف سے آزادکشمیر کو پاکستانی مقبوضہ کشمیر کہنے پر کئی سوال اُٹھا رہا ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ چین نے اپنے مؤقف میں وزن پیدا کرنے اور نیوٹرل فریق یا ثالث کا کردار بحال رکھنے کے لیے آزادکشمیر کے لیے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی اصطلاح استعمال کی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے مطابق کشمیر کے تمام علاقے متعلقہ ملکوں کے زیرانتظام ہیں۔ آزادکشمیر کا نام تو داخلی شناخت اور پیار محبت کے طور پر ہم نے خود رکھا، مگر دنیا دونوں حصوں کو پاکستان اور بھارت سے منسوب کرکے ”زیرانتظام“ لکھتی اور کہتی ہے۔ اس لیے چین کے مؤقف میں یہ کوئی غیر اصولی بات نہیں۔ خود بھارت ”چین کے زیر قبضہ جموں و کشمیر“ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ چین کی اس ادا کو نیوٹریلٹی کا تاثر دے کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کہا جا سکتا ہے۔
بھارت نے اگلے برسG-20ملکوں کی کانفرنس کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ عمومی خیال یہی ہے کہ کانفرنس گرمائی دارالحکومت سری نگر کے بجائے سرمائی دارالحکومت جموں میں منعقد ہوگی۔ G-20یعنی گروپ آف ٹوئنٹی دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے درمیان اشتراک و تعاون کی ایک تنظیم ہے جس میں ایک طرف امریکہ، برطانیہ، بھارت جیسے ممالک ہیں، تو دوسری طرف چین، روس، انڈونیشیا، ترکی، سعودی عرب، ارجنٹینا، برازیل، جاپان،میکسیکو، جنوبی افریقہ، جرمنی، کینیڈا جیسے ممالک شامل ہیں۔ یوں یہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کے بعد اقتصادی ترقی اور تجارت کے حوالے سے قائم ایک اور اہم فورم ہے، جس میں تمام براعظموں کے 80فیصد اور دنیا کی جی ڈی پی کا مجموعی 75 فیصد، اور دنیا کی 60 فیصد آبادی کے حامل ممالک شامل ہیں۔ اس طرح G-20 ملکوں کا اکٹھ عالمی نوعیت کی ایک سرگرمی ہوتی ہے، اور عالمی نوعیت کی ایک سرگرمی کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین کا انتخاب ایک پرانی خواہش کا نیا اظہار اور انداز ہے۔
5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت اس دعوے کے ساتھ ختم کی تھی کہ ریاست کے پرانے اور اپنے قوانین، آئین اور الگ شناخت کو ظاہر کرنے والی علامتیں اس کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھیں، بھارتی حکومت کے ہاتھ کشمیر کے آئین، اسمبلی اور قوانین نے باندھ رکھے ہیں، وہ کشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں کے برابر ترقی دینا چاہتا ہے مگر الگ شناخت اور خصوصی حیثیت اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
یہ دعویٰ پہلے مرحلے پر ہی اس لیے غلط تھا کہ بھارت کی کم ازکم چھ ریاستیں اپنی خصوصی شناخت کے باوجود روایتی انداز سے ترقی کررہی تھیں، اور کشمیر یوں بھی بھارت کی بہت سی ریاستوں سے زیادہ خوش حال اور خودکفیل تھا، اور یہ ترقی الگ شناخت اور قوانین کے دوران ہی ہوتی رہی۔ پانچ اگست کے اقدام کو ایک بین الاقوامی قبولیت دینے کے لیے گروپ بیس ملکوں کو کشمیر لانا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے ہاتھ سے جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت کا کارڈ اگر چھینا نہ جا سکے تو اسے قطعی غیر مؤثر بنادیا جائے۔ یوں گروپ بیس ملکوں کی کانفرنس پانچ اگست سے جڑی ہوئی ایک سرگرمی ہے یا اسے اگلا قدم کہا جا سکتا ہے۔ چین کی طرف سے واضح ردعمل سے بھارت میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ اب حکومتِ پاکستان کو ترکی اور سعودی عرب سمیت دوسرے ملکوں کو بھی اس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ وہ اس کانفرنس کے کشمیر میں انعقاد کی کھلے بندوں مخالفت کریں۔