افغانستان اور پڑوسی ممالک کے مستقبل کے تعلقات

سینٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز(سی ایس آر ایس) کابل اور انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز(آئی آر ایس) پشاور کے اشتراک سے اتوار 19 جون 2022ء کو افغان دارالحکومت کابل کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں ’’افغانستان اور پڑوسی ممالک کے مستقبل کے تعلقات‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں آئی آر ایس پشاور کے چیئرمین ڈاکٹرمحمد اقبال خلیل کی زیر قیادت ایک60 رکنی وفد نے… جو تاجروں، کاروباری افراد، علمائے کرام، اسکالروں، ڈاکٹروں، اساتذہ کرام، طلبہ اور صحافیوں پر مشتمل تھا… شرکت کی۔ وفد کی نمایاں شخصیات میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کے افغانستان کے لیے نمائندۂ خصوصی اور سابق رکن قومی اسمبلی جناب شبیر احمد خان، معروف عالم دین اور جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے نائب امیر مولانا محمد اسماعیل، خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر اور ممتاز ماہر پبلک ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) خیبر پختون خوا کے صدر اور ماہر امراضِ ناک، کان وگلا پروفیسر ڈاکٹر گلشن حسین فاروقی، خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور کے پرو وائس چانسلر اور ممتازماہر امراضِ چشم پروفیسر ڈاکٹر لعل محمد خٹک، سابق صوبائی وزیر کاشف اعظم چشتی، میاں انور سید، حاجی محمد اشراق، ہومیو ڈاکٹر سمیع اللہ جان محسود، پروفیسر ڈاکٹر ارباب خان آفریدی، پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی، بریگیڈیئر (ر) پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس، انجینئر اظہار احمد، معروف کاروباری شخصیت حاجی حسن شنواری، شاہ فیصل آفریدی، معروف صحافی محمود جان بابر، ڈاکٹر یوسف علی، فدا عدیل، ناصر حسین، وقاص شاہ، شمیم شاہد اور سدھیر آفریدی شامل تھے۔
واضح رہے کہ سی ایس آر ایس افغانستان کی مختلف جہادی، سیاسی اور علمی تنظیموں کی جنگ وجدل اور سیاسی اختلافات سے تنگ اور بے زار نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے اشتراک سے وجود میں آنے والی تنظیم جمعیت اصلاح کا کابل میں قائم خطے پر علم وتحقیق کرنے کا ایک آزاد اور خودمختار تھنک ٹینک ہے جس کا آئی آر ایس کے ساتھ نہ صرف قریبی رابطہ ہے بلکہ یہ دونوں ادارے گاہے بگاہے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے کے ساتھ ساتھ مشترکہ تقریبات کا انعقاد بھی کرتے رہتے ہیں۔ متذکرہ سیمینار اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ یاد رہے کہ آئی آر ایس کے ذمے داران اس سے پہلے بھی کابل میں منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کرچکے ہیں، جب کہ چند ماہ پہلے جامعہ پشاور میں دونوں برادر ممالک کے تعلقات کے حوالے سے منعقد ہونے والاسیمینار بھی سی ایس آر ایس کی مشاورت اور راہنمائی سے منعقد ہوا تھا جس میں پاکستان اور افغانستان کی کئی نامی گرامی شخصیات نے شرکت کی تھی۔
حالیہ سیمینار افتتاحی، ورکنگ گروپس اور اختتامی تین سیشن پر مشتمل تھا۔ افتتاحی سیشن کے مہمانِ خصوصی امارتِ اسلامی افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور دوحہ مذاکرات کے روحِ رواں الحاج شیر محمد عباس ستانکزئی تھے، جب کہ دیگر مہمان مقررین میں امارتِ اسلامی افغانستان کے صنعت و تجارت کے وزیر حاجی نورالدین عزیزی، وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد، وزارتِ افغان مہاجرین کے مشیر قاری محمود شاہ شامل تھے۔ افتتاحی سیشن کا آغاز قاری شمس الحق کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ سی ایس آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہ رخ رئوفی نے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور اس بین الاقوامی سیمینار کے اغراض ومقاصد شرکا کے سامنے رکھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کا مقصد افغانستان کے پڑوسی ممالک جو سوائے چین کے تمام کے تمام مسلمان ہیں، ان کو اپنے غم اور مسائل میں شریک کرنا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ کانفرنس خطے اور بالخصوص افغانستان میں امن اور استحکام کا باعث ثابت ہوگی۔
امارتِ اسلامی کے ڈپٹی وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی، صنعت و تجارت کے وزیر حاجی نورالدین عزیزی، وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد اور وزارتِ افغان مہاجرین کے مشیر قاری محمود شاہ نے سیمینار کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران کے ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور قبضے کے دوران کٹھن، مشکل اور تکلیف دہ حالات میں انصارِ مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کے لیے کھول دیں اور کئی ملین افغانوں کو اپنے ممالک میں پناہ، رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع دے کر ناقابلِ فراموش احسان کیا۔ امارتِ اسلامی افغانستان کے ذمے داران نے کہا کہ ایک دفعہ سوویت یونین اور دوسری مرتبہ امریکہ بشمول نیٹو ممالک کے افغانستان پر حملہ آور اور قابض ہونے کے وقت غیور اور جذبۂ جہاد سے سرشار افغان عوام اور مجاہدین نے نہ صرف اپنے ملک کی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کیا بلکہ بہت بڑی قربانی دے کر آزادی حاصل کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی مسلمان ممالک جیسے پاکستان اور ایران کو بھی بیرونی فورسز کی جارحیت سے محفوظ رکھا۔ عباس ستانکزئی نے کہا کہ افغانوں کی بیش بہا قربانیوں اور لازوال جہاد ہی کی بدولت ایران اور پاکستان کے لوگ پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے افغان مقررین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے چار ملین سے زیادہ بے یار و مددگار افغان مہاجرین کو نہ صرف ہر جگہ آزادانہ طور پر رہنے کی جگہ دی بلکہ افغان مہاجرین نے پاکستان کو دوسرا گھر سمجھتے ہوئے وہاں کاروبار بھی کیا اور کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کیا جس پر وہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کے ممنون و مشکور ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ شکایت ضرور کی کہ امارتِ اسلامی کی حکومت کے قیام کے بعد سرحدی گزرگاہوں پر افغان شہریوں کو تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کو ویزوں کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں اور سرحد پر افغانوں کے ساتھ رویہ نامناسب ہے۔ عباس ستانکزئی و دیگر نے کہا کہ امارتِ اسلامی کی خواہش ہے کہ سرمایہ کار آکر افغانستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کریں، افغان حکومت تعلیم، صحت، سیاحت اور تجارت سمیت مختلف شعبوں کو پڑوسی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک کے باہمی اشتراک اور تعان سے ترقی دینے کی خواہاں ہے، جنگ اور لڑائی کا دور گزر گیا، اب افغانستان کی تعمیرنو، ترقی اور استحکام کے لیے پڑوسی ممالک کو آگے بڑھ کر تعاون کرنا ہوگا اور سب سے زیادہ وہ پاکستان اور ایران سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس مرحلے پر بھی آگے بڑھ کر ہر محاذ پر افغان حکومت کی مدد کریں گے تاکہ یہاں بھی ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی جا سکے۔
مقررین نے کہاکہ ماضی میں ہماری سرحدیں پُرامن اور کھلی رہی ہیں لیکن اب ہم بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔ افغانستان میں امن اور صلح سے پڑوسی ممالک کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہماری ضروریات میں ہمارا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ افغانستان ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہے، ان وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے ہم پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی برادری کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارا ساتھ دیں۔ ہم اپنے پڑوسی ممالک کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کی آفر کرتے ہیں۔ اگر یورپی یونین کے ممالک ایک ہوسکتے ہیں تو ہم سب مسلمان پڑوسی ممالک ایک اتحاد کیوں نہیں بنا سکتے؟ انہوں نے کہا کہ کووڈ19 اور یوکرین کے بحرانوں کی وجہ سے یہ سارا خطہ مسائل سے دوچار ہے، اگر ہم مل کر کوئی اجتماعی لائحہ عمل طے کریں تو ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ امید ہے یہ سیمینار خطے کی ترقی اور امن کے حصول میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، عوامی سطح پر بہت قربت پائی جاتی ہے، ہمیں سرکاری سطح سے ہٹ کر عوامی تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ سیاحت کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک اچھی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ انڈسٹریل اسٹیٹ کے لیے اگر جگہ دی جائے اور وہاں سڑک، بجلی، پانی اور سیکورٹی کی سہولیات بہم پہنچائی جائیں تو پاکستان کے کئی صنعت کار یہاں سرمایہ کاری کے لیے آنے کو تیار ہیں۔امارتِ اسلامی افغانستان کے مشیر برائے مہاجرین محمود شاہ نے کہا کہ ہم اہلِ پاکستان کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمیں دورانِ ہجرت تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ہم وہ دن نہیں بھولے جب ہم کسمپرسی اور لاچاری کی حالت میں مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ہماری اپیل ہے کہ پاکستان اور ایران نے مہاجرین کو جو پناہ اور عزت دی ہے اس جذبے کو برقرار رکھیں اور ویزے اور علاج کے سلسلے میں تعاون فراہم کریں۔
جمعیت اصلاح کے راہنما استادمحمد مزمل اسلامی نے کہاکہ ہمارے مسائل محض مطالبات اور اعتراضات سے حل نہیں ہوسکتے، اس کا حل علمی مباحثے اور تحقیق کو فروغ دینے سے ممکن ہے۔ آج کا یہ سیمینار اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، ہمیں اس سلسلے کو دوام دینا چاہیے۔ افغانستان میں چالیس سال سے لگی آگ نے صرف افغانوں ہی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پڑوسی ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں، افغانستان میں امن کا آغاز ہوچکا ہے، اب ہمیں استحکام اور ترقی کی جانب بڑھنا ہوگا۔ سابق ترجمان اعلیٰ امن کونسل اور سابق ممبر اولسی جرگہ (قومی اسمبلی) مولانا محمد شہزادہ شاہد نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر سطح پر قریبی دوستانہ تعلقات ہیں، وقتی مسائل پر دل میلا نہیں کرنا چاہیے، پاکستان میں آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین آباد ہیں، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی، اس وقت کوئی بھی سیاسی قیدی افغان جیلوں میں موجود نہیں ہے، یہ عفوو درگزر کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ امارتِ اسلامی نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فتحِ مکہ کی تعلیم دی ہے۔
سیمینار سے آئی آر ایس پشاور کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل، جماعت اسلامی کے سینئر رہنما شبیر احمد خان اور مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آزاد اور خودمختار افغانستان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اورہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جہادِ افغانستان دراصل دفاعِ پاکستان کے لیے بھی تھا، اور نہتے اور بے سروسامانی کے ساتھ افغان مجاہدین نے گزشتہ چالیس سالوں کے دوران دنیا کی دو عالمی طاقتوں کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے علامہ محمد اقبال کے اشعار کے حوالے سے کہا کہ افغانستان ایشیا اور اس خطے میں دل کی حیثیت رکھتا ہے، اگر اس دل میں فساد ہوگا تو پورا خطہ بے چین اور بے سکون ہوگا، اس لیے یہاں امن ضروری ہے اور آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ پورے افغانستان پر بلا شرکت غیرے امارتِ اسلامی کی حکومت قائم ہے، یہاں امن و سکون ہے اور کسی کو امارتِ اسلامی کی طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقبال خلیل نے سابق افغان صدر اشرف غنی کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے خون خرابے اور فساد کے بغیر اقتدار چھوڑ دیا اور کابل کو جنگ و جدل سے بچا لیا۔ پاکستانی وفد کے مقررین نے طورخم اور چمن بارڈرز پر افغانوں کے لیے ویزوں کی فراہمی میں آسانی اور سہولیات فراہم کرنے اور سرحدوں پر آنے جانے میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے پر زور دیا اور تجویز پیش کی کہ پاک افغان حکومتیں تجارت اور سیاحت کو مل کر فروغ دیں اور ایک دوسرے کے وسائل سے مل کر استفادہ کریں، دونوں ممالک تجارت کے شعبے کو ترقی دے کر تاجروں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے ان کو سرمایہ کاری کے لیے سہولیات فراہم کریں تاکہ دونوں طرف غربت اور بے روزگاری میں کمی لائی جاسکے اور دونوں ممالک کے مابین قانونی اور جائز درآمدات اور برآمدات پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔
اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد اسماعیل نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات مشترکہ ہیں، ہم دونوں یک جان دو قالب ہیں۔ افغانوں نے دنیا کی تین سپر پاورز کو شکست دی ہے۔ افغانوں کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ہے۔ پاکستان اور افغانوں کے درمیان نسل در نسل تعلقات ہیں۔ ہمارے خاندانی اور خونیں رشتے ہیں۔ ہمارا کھانا پینا مشترک ہے۔ افغانوں نے ہماری بقا کی جنگ لڑی ہے، ہمیں دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھنا ہوں گے۔ دشمن خاموش نہیں ہیں، وہ پاک افغان تعلقات میں دراڑ ڈالنا چاہتے ہیں، ہمیں ان سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ امارتِ اسلامی افغانستان پر پوری امتِ مسلمہ کی نظریں مرکوز ہیں، یہا ں کی قیادت آگے بڑھ کر پوری امت کو قیادت فراہم کرسکتی ہے۔ افغانوں پر کوئی بیرونی قرض نہیں ہے، امریکہ افغانوں کا مقروض ہے، 9.5 ارب ڈالر کی رقم فوراً افغانوں کو واپس کی جائے۔
شبیر احمد خان نے کہا کہ افغانستان کی آزادی میں افغانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کا خون بھی شامل ہے۔ قاضی حسین احمد سے لے کر سراج الحق تک پاکستان کی اسلامی تحریک افغانوں کے شانہ بشانہ رہی ہے۔ افغانوںکو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں ہر ممکن تعاون کو ہم اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ افغانوں خاص کر بچوں، خواتین اور مریضوں کو پاکستان میں داخلے کے دوران کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح تجارتی آمد و رفت میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں جس سے تاجروں کا بھاری مالی نقصان ہورہا ہے۔ ان مسائل کو ہم متعلقہ حکام سے مل کر حل کرنے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں، یہ کام ہم اپنا دینی اور قومی فریضہ سمجھ کر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 60رکنی وفد افغانستان کی تعمیر و ترقی، استحکام اور افغانستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتا ہے۔ افغانوں کو اجناس کی امداد کے ساتھ افراد سازی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، مثلاً طب، انجینئرنگ، تدریس اور دیگر شعبوں میں ماہرین کی تعلیم و تربیت کے خاطر خواہ مواقع موجود ہیں، لہٰذا ہم نہ صرف خود اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقیں دہانی کراتے ہیں بلکہ حکومتی اداروں سے بھی اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سیمینار میں صنعت وتجارت، تعلیم، صحت اور صحافت و ثقافت کے عنوانات کے تحت چار ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیئے گئے تھے جس میں ان شعبوں کے افغان اور پاکستانی شرکاء نے دونوں ممالک کے درمیان صنعت وتجارت، تعلیم، صحت اورصحافت وثقافت کے شعبوں میں درپیش مشکلات اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے پر سیر حاصل گفتگو کی اور ان شعبوں میں بہتری اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سے قابلِ عمل تجاویز پیش کیں۔ سیمینار کے آخر میں سی ایس آر ایس اور آئی آر ایس کی جانب سے سیمینار اور ورکنگ گروپس کے مہمان مقررین کو اعزازی شیلڈ پیش کی گئیں۔