’عید ‘کے معنی خوشی کے موقع کے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے درخواست كی کہ وہ خدا سےدعا کریں کہ وہ آسمان سے ایک دسترخوان نازل کرے تا کہ ہم اس سے متمع ہوں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرسکیں، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرنے کے بعدجو دعا کی اس میں لفظ ’عید ‘کا تذکرہ موجود ہے۔ ’’عیسٰی ابن مریم نے دْعا کی ’’خدایا !ہمارے ربّ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے ’’خوشی کا موقع ‘‘قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تْو بہترین رازق ہے‘‘۔(سورۂ مائدہ ،آیت ۔۱۱۴)۔اسلا م ایک فطری مذہب ہے۔ خوشی و مسرت کا اظہار انسانی فطرت ہے۔اسلام نے اس کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ زندگی کے عام حالات میں بھی خوشی کے اظہار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ خوش مزاجی کو پسند اور خشک مزاجی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ خوشی کے تمام جائز مواقع پر حدود و شرائط کے ساتھ خوشی منانے کا پورا پورا حق دیا گیا ہے ۔دوسری جانب اسلام نے اجتماعی طور پر پوری ملت اسلامیہ کے لیے باضابطہ خوشی منانے کے دو مواقع متعین کیے ہیں۔ایک موقع عید الفطر کا ہے اور دوسرا عید الاضحی کا ہے۔عموماً ہم ان دونوں موقعوںپر خوشی تو مناتے ہیں لیکن خوشی کیوں منائی جاتی ہے اوراس کی حکمتیں کیاہیں، ان سے بهت سے لوگ ناواقف رہتے ہیں۔اس مضمون میں قرآن کریم کی روشنی میں دونوں عیدوں کے تجزیہ کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دونوں عیدوں سے اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے اندر کیا خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے۔
عیدین کے مابین یکسانیت
عید الفطر اور عید الاضحی بظاہر دو الگ الگ عیدیں محسوس ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں دونوں کے مابین گہرا ربط و تعلق پایا جاتا ہے اورواضح مناسبتیں پائی جاتی ہیں۔عید الفطر سے متصل مباحث سورۃ البقرہ کی آیات ۱۸۳ تا ۱۹۳ میں ہیں جبکہ عید الاضحی سے متعلق مباحث سورۃ الحج۳۴ تا ۴۱ میں شامل ہیں۔ قرآن مجید کے ان دونوں مقامات کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔
عیدیں ،عبادات کے ساتھ مربوط ہیں
عید الفطرکا اہتمام رمضان کے روزوں کے اختتام پر ہوتا ہے جبکہ عید الاضحی حج کے اختتام پر قربانی کے ذریعہ منائی جاتی ہے۔یعنی اسلام میں عیدوں کا تصورعبادات کے ساتھ مشروط ہے۔ عید کا پیغام ان دونوں عبادات کے ساتھ مربوط ہے۔ اسلام کے فلسفہ ٔ عبادت میں روزہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بندۂ مؤمن کو مخلص اور متقی بنانے کا عمل ہے جبکہ حج ایک مؤمن کے اندر جذبۂ قربانی کو پیدا کرتا ہے۔ایک مہینہ مسلسل روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر کا موقع آتا ہے جبکہ حج کے مناسک غیر معمولی مجاہدہ چاہتے ہیںجس کے بعد قربانی کے ذریعہ عید الاضحی کا اہتمام ہوتاہے۔جو حج پر نہیں جاتے ان کے لیے قربانی کا عمل رکھا گیا ہے۔گویا قربانی مشترک عبادت ہوئی۔ حج کرنے والے اور دنیا بھر میں قربانی کرنے والے سب اسوۂ ابراہیمی کو یاد کرتے ہیں اوراسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح دونوں عیدیں دو عبادات روزہ اور حج و قربانی کے ساتھ مربوط ہیں۔
روزہ اور قربانی ۔سابقہ امتوں میں بھی تھیں
یہ بات واضح ہوئی کہ دونوں عیدیں دو عبادات۔روزہ اور قربانی کے ساتھ مشروط ہیں۔ ان دو عبادات کی خصوصیت یہ ہے کہ روزہ اور قربانی گزشتہ امتوں میں بھی رائج رہی ہیں۔روزہ کے بارے میں کہا گیا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ ‘‘(البقرہ:۱۸۳)۔ اسی طرح قربانیوں کے بارے میں کہا گیا: ’’ہر اْمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے‘‘ (الحج:۳۴)۔ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اهلِ ایمان کی تربیت کے لیے روزہ اور قربانی کا قاعدہ مقرر کر رکھا تھا۔دنیا میں جتنے پیغمبر آئے سب کا دین اسلام ہی تھا، لیکن ان کی شریعتیں الگ الگ رہیں۔شرائع کے اس فرق کی بنیاد پر طریقوں میں تغیر رہا ہوگا ۔لیکن ہر شریعت میں روزہ اور قربانی کا تصور پایا جاتا تھا۔اس طرح ان عبادات کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔
خوشی کی وجہ ۔نزول قرآن اور تکمیل قرآن
عید الفطر کی خوشیاں حقیقت میں قرآن کے ملنے پر منائی جاتی ہیں، چونکہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے،اور قرآن مجید سے بڑی نعمت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اسی لیے اللہ نے خود قرآن کے ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے: ’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ ، کہو کہ’’ یہ اللہ کا فضل اور اْس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اْس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اْن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘(یونس: ۵۷۔۵۸) ۔ اس لحاظ سے رمضان ، شب قدراور عید الفطر درحقیقت نزول قرآن کا جشن ہیں۔ دوسری جانب عیدالاضحی کی خوشیاں تکمیلِ قرآن کا جشن ہیں۔ عرفہ کا وقوف دراصل شریعت کی تکمیل کی یاد دہانی ہے۔حجۃ الوداع کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۹؍ذی الحجہ کو عرفات پہنچے تو اللہ نے یہ خوش خبری سنائی کہ ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (المائدہ: ۳)۔ اس تکمیلِ شریعت کی خوشی کے اظہار کے لیے ۱۰؍ذی الحجہ کو عید الاضحی کے طور پر متعین کردیا گیا۔
حضرت عمرابن خطابؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے جو یہودیوں میں سے تھا، ان سے کہا: اے امیر المؤمنین! ایک آیت آپ کی کتاب میں ایسی ہے کہ اگر یہ آیت ہم یہودیوں کے اوپر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو اپنے لیے عید کا دن بنالیتے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ یہودی نے کہا : الیوم اکملت لکم دینکم۔۔ (مائدہ:۳) حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ ہم اس دن کو اور اس جگہ کو بھی جانتے ہیں جہاں یہ آیت بنی کریمؐ کے اوپر اتری تھی۔ آپؐ اس وقت میدان عرفات میںکھڑے ہوئے تھے ، جمعہ کا دن تھا۔ (بخاری)۔ حضرت عمرؓ کا اشارہ اس طرف تھا کہ اس موقع کو ہم عید کے طور پر اسی وقت سے مناتے آرہے ہیں۔اس لحاظ سے عید الفطر اگر نزول قرآن کا جشن ہے تو عید الاضحی تکمیل قرآن کا جشن ہے۔اس حوالے سے دونوں عید وں میں ایک اور مشترک امر روزے کا ہے ۔قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے تقویٰ کو ضروری قرار دیتے ہوئے رمضان کے روزے فرض کیے گئے، اسی طرح یوم عرفہ کے روزہ کی ترغیب تکمیل قرآن کے واقعہ کی یاد دہانی کے لیے ہے کہ امت کو قرآن کا حامل بننا ہے، جس کے لیے تقویٰ ضروری ہے اور اس تقویٰ کی آبیاری کا ذریعہ روزہ ہے۔
عیدوں سے مطلوب تقویٰ اور شکر گزاری ہے
روزہ کا مقصود بندۂ مؤمن کو متقی بنانا ہے اور حج اور قربانی کی روح بھی یہی ہے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں۔ روزہ کے بارے میں کہا گیا : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔(البقرہ:۱۸۳)۔ حج کے بارے میں کہا گیا : ’’سفرِحج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ۔ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے‘‘(البقرہ: ۱۹۷) ۔ قربانی کے سلسلہ میں کہا گیا : ’’نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘(الحج:۳۷)۔ گویا ان سب سے مقصود یہ ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔ مفسر قرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے تقویٰ کی جامع تعریف پیش کرتے ہوئے کہا ہے: ’’تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرز معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خداپرستی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا احساس ہو اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جہاںخدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ ‘‘(تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)۔
قرآن مجید کے مذکورہ مقامات کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ روزہ اور حج و قربانی کے مواقع پر تقویٰ کے ساتھ ساتھ شکر گزاری کا جذبہ بھی مسلمانوں میں پیدا ہو۔ چنانچہ کہا گیا: ’’اور شکر گزار بنو‘‘(البقرہ: ۱۸۵)۔ قربانی سے متعلق آیات میں کہا گیا: ’’اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا تاکہ تم شکریہ ادا کرو‘‘ (الحج: ۳۶)۔ وہاں پر قرآن کے ملنے پر شکر گزاری سکھائی گئی اور یہاں پر جانوروں کی تسخیر پر شکر گزاری سکھائی گئی۔ حدیث میں مؤمن کی یہی شان بتائی گئی کہ وہ صابر ہوتا ہےاور شاکر ہوتا ہے۔ شکر گزاری کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم زبان قال اور زبان حال دونوں سے اللہ کا شکریہ ادا کریں۔ زبان حال سے شکریہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہم وہ کام بجالائیں جس کے لیے ہمیں دنیا میںامت وسط اور خیر امت بناکر بھیجا گیا ہے کہ ہم انسانوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیں، اچھائیوں کا حکم دیں، برائیوں سے روکیں، حق کی گواہی پیش کریں ، حق و انصاف کو قائم کرنے اور دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کریں۔
رب کی بڑائی کا اعلان
عیدین کی ایک نسبت’ تکبیر رب ‘ہے۔ قرآن مجید کے ان دونوں مذکورہ مقامات میں رب کی بڑائی کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے۔ رمضان سے متعلق آیات میں رمضان کا مقصود یہ بیان کیا گیا: ’’تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے ، اْس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘ (البقرہ:۱۸۵)۔ قربانی سے متعلق آیات میں کہا گیا : ’’اْس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اْس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اْس کی تکبیر کرو۔‘‘(الحج:۳۷)۔ اس حکم کی تعمیل میں ملت اسلامیہ علامتی طور پر عیدگاہ کو تکبیرات کہتے ہوئے جاتی ہے : اللہ اکبر اللہ اکبرلا الہ الا اللہ واللہ اکبراللہ اکبر و للہ الحمد۔(اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے،اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں اور شکر کے کلمات سزاوار ہیں)۔یہی تکبیرات ۹؍ذی الحجہ کی فجر سے لے کر ۱۳؍ذی الحجہ کی عصرتک ہر نماز کے بعد دہرائی جاتی ہیں۔
یہ تکبیرات حقیقت میں امت مسلمہ سے بہت بڑا مطالبہ پیش کرتی ہیں کہ وہ دنیا میں اللہ کی بڑائی کو منوائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جو مشن دیا گیا تھا اس کے شروع ہی میں بتادیا گیا تھا کہ آپ کو اپنے رب کی بڑائی کو دنیا میں منوانا ہے: ’’اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘ (المدثر: ۳)۔ رسول اللہ نے اس حکم کی تعمیل میں پوری زندگی صرف کردی اور اسلام کے غلبہ کے نتیجے میں اللہ کی بڑائی دنیا میں قائم ہوئی۔یه مطالبہ امت مسلمہ کوہر عید کے موقع پر یاد دلایا جاتا ہے کہ تم خیر امت ہو۔دنیا میں اللہ کی بڑائی قائم کرنے کے لیے تمہیں اس کے دین کو پوری دنیامیں پھیلانا ہوگا اور اس کے نظام کو قائم کرنا ہوگا۔ اس زمین پر اللہ کی حقیقی کبریائی اسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے۔
جذبۂ جہاد و قربانی کی آبیاری
تکبیر رب کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ بغیر کوششوں کے دنیا میں اسلام کو نہیں پھیلایا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر دین کی دعوت و اقامت کی ذمہ داری رکھی ہے۔انہیں کوششوں کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ رمضان کے روزوں اور حج و قربانی کے ذریعہ اسی جذبۂ جہاد کو پیدا کیا جاتا ہے۔ روزہ کی حالت میں بندۂ مؤمن بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی قوت پیدا کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کے دین کی خاطر مجاہدہ کرسکے۔ اور حج و قربانی کے عمل سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ان تھک جدوجہد کی یاد تازہ کرائی جاتی ہے کہ ہم بھی اسی طرح اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔ چنانچہ قرآن مجید نے رمضان کے مباحث کے بعد قتال کا تذکرہ کیا ہے کہ اصل مقصود تو یہی ہے کہ تمہارے اندر جوش جہاد اور شوق شہادت پیدا ہو: ’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘(البقرہ:۱۹۰)۔ قربانی سے متعلق آیتوں کے بعد کہا گیا : ’’اجازت دے دی گئی اْن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے‘‘ (الحج:۳۹)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے رمضان کے مقدس مہینے میں جنگ بدر کی معرکہ آرائی میں قدم رکھا تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھروالوں اور قوم کو دعوت دی، بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے ، وطن سے ہجرت کی ، دور دراز علاقوں کا سفر کیا، اپنی بیوی اور بچے کو اللہ کے اذن سے بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑدیا اور اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ یہی وہ قربانی کا جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش کرتے ہوئے اسی طرح کی قربانیاں دے سکیں، وقت ، مال ، صلاحیتوں، آرام و خواہشات کی قربانی ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسِم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (الانعام:۱۶۲)
امت مسلمہ کا مشن، غلبۂ دین
انبیاء علیہم السلام، اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے بھیجے جاتے رہے ،اسی طرح اب امت مسلمہ بھی اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے اور اسے غالب کرنےپر مامور هے۔ رمضان کی آیتوں میں قتال کا تذکرہ کیا گیاوہیں اس کی غرض و غایت بھی بیان کردی کہ اللہ کا دین قوت اور اقتدار چاہتا ہے ، غلبہ و سربلندی چاہتا ہے، جس کے لیے اللہ کے رسول ؐاور صحابہؓ نے جدوجہد کی ۔کہا گیا: ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔‘‘ (البقرہ: ۱۹۳)۔ قربانی سے متعلق آیات کے بعد کہا گیا: ’’اللہ ضرور اْن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معرْوف کا حکم دیں گے اور مْنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (الحج: ۴۰۔۴۱)۔ اس طرح قرآن نے دو ٹوک انداز میں یہ پیغام پیش کردیا کہ یہ روزہ کی مشق اور حج اور قربانی سب مسلمانوں کو تیار کرتے ہیں کہ اللہ کادین دنیا میں غالب ہواور اللہ کی حقیقی کبریائی دنیا میں قائم ہو۔ اسلام کی سربلندی کا طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام پر عمل پیرا ہوں، برادران وطن سے دعوت تعلقات قائم کریں، انہیں اللہ کے دین سے روشناس کرائیں، اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اسلام کی حقانیت باشندگان ملک کے روبرو ثابت کریں۔ ملک کے عوام کو اسلام کی حیات بخش تعلیمات قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے اور اس طرح ایک صالح سماجی، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی انقلاب برپا کیاجائے۔