معاشی بحران کا خاتمہ کیسے ہو؟

موجودہ حکومت عمران حکومت سے کہیں بڑھ کر آئی ایم ایف کی تابع دارہے

وزیراعظم شہبازشریف اپنے سیاسی کیریئر کے کٹھن ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کی گڈ گورننس اتحادیوں کے مطالبات کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، شہبازشریف کی وزیراعظم بننے کی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں تھی، گزشتہ سال کے آخر تک تو یہ دیوانے کا خواب لگتا تھا، مگر اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور وہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے متفقہ امیدوا ر کے طور پر سامنے آئے۔ قومی اسمبلی میں 172اراکین پورے کرنے کا ٹاسک آصف علی زرداری نے اپنے ذمے لیا کیوں کہ انہیں ہر قسم کی ’’یقین دہانی‘‘ کرائی گئی تھی۔ مسلم لیگ(ن) ملک کے معاشی بحران سے آگاہ تو تھی مگر اس کی گہرائی سے واقف نہیں تھی۔ بہرحال حکومت سنبھالنے کے بعد دو راستے تھے:
(1)صرف حکومت کی جائے اور غیر مقبول فیصلے نہ کیے جائیں۔
(2) ملکی معیشت درست کی جائے۔
لہٰذا سیاست کے بجائے ریاست کو ترجیح دی گئی۔
شہبازشریف کے غیر مقبول فیصلوں سے مسلم لیگ(ن) کو بہت سیاسی نقصان ہورہا ہے۔ ملک کا معاشی منظرنامہ یہ ہے کہ اگر موجودہ بحرانی کیفیت مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو زیادہ سخت فیصلے کرنے کے باوجود بھی قومی معیشت نہیں سنبھل پائے گی۔
آئی ایم ایف کے دبائو پر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ یکم جولائی سے بجلی کے نرخوں میں بھی 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کا اعلان کیا تھا، تاہم اسے مرحلہ وار نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا یہ عمل جولائی سے اکتوبر کے مہینے تک جاری رہے گا، جبکہ نومبر سے بجلی کے نرخوں میں کمی شروع ہوجائے گی اور گردشی قرضوں میں بھی کمی آسکتی ہے۔ چار سال قبل یہ رقم 1060 ارب تھی، جو اب بڑھ کر 2467 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ گردشی قرضوں کی بڑی وجہ لائن لاسز اور بجلی کی چوری ہے۔ فی الحقیقت یہی وہ عنصر ہے جو بجلی کی مد میں نہ صرف حکومت کو 2467 ارب روپے کا مقروض کیے ہوئے ہے بلکہ ذمے داری سے بل ادا کرنے والے صارفین پر بھی اضافی بوجھ بنا ہوا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ حکومت کے پاس بجلی چوری سے نمٹنے کے لیے مکمل میکنزم موجود ہے، مگر عمل نہیں ہورہا۔
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو مہنگائی کی شرح میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک قومی ادارۂ شماریات نے بھی کیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اس وقت مہنگائی کی شرح 21.32 فی صد ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں مہنگائی کی زیادہ سے زیادہ شرح 14.6فی صد تھی، جب کہ مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ 6.34فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی میں اس ریکارڈ اضافے کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر نے ملکی معیشت کے لیے غیر معمولی چیلنج پیدا کر دیے ہیں۔ مہنگائی کی حالیہ لہر کا تعلق روس یوکرین جنگ سے بھی ہے جس کے باعث پیٹرولیم مصنوعات سمیت متعدد دیگر اشیا کی طلب و رسد کا نظام بدترین طور پر متاثر ہوا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی آبادی والے صوبے پنجاب میں پائی جانے والی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کام نہیں کر پارہی، جس کے اثرات حکومت اور اس کے امور پر پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب 22 جولائی کو وزیراعلیٰ کا انتخاب ہے، اس کے بعد صوبے میں سیاسی صورتِ حال کیا ہوگی، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اصل حقائق بہت تلخ ہیں، عوام کے ساتھ جو کیا جارہا ہے اور جو مزید ہونے والا ہے اس حقیقت کا پردہ چاک ہونے والا ہے، کیونکہ قدرت کی حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے، کسی تجزیے میں یہ بات نہیں تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم گہری کھائی میں گر جائے گی۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ مشکل فیصلوں کا دورانیہ چھ سات ماہ کا ہے، جب کہ کروڑوں غربا اور متوسط گھرانوں کے لیے پانچ سات دن کاٹنا مشکل ہیں۔ ملک میں جاری معاشی بحران کا خاتمہ کیسے ہو؟ پاکستانی قوم کے لیے یہ بلاشبہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ اس سنگین صورتِ حال سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ حکومت یہ تو بتائے کہ قومی معیشت اس حال کو کیوں پہنچی؟ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ سب کچھ عمران حکومت کا کیا دھرا ہے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر عمران خان کو رخصت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بہتر تھا کہ اپنی غلطیوں کے نتائج عمران حکومت کو خود ہی بھگتنے دیے جاتے۔ اس کا جواب پی ڈی ایم کے پاس بھی نہیں ہے۔ اب اپوزیشن کو چاہیے کہ معیشت کی بحالی کی متفقہ حکمت عملی وضع کرنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے، بالخصوص اس لیے بھی کہ ان حالات کو جنم دینے میں اس کی غلطیوں کابھی بڑا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے اس کی شرائط سے انحراف، اور ایل این جی کے سستے سودوں کے مواقع ضائع کرکے ملک کو بجلی کے بحران میں مبتلا کردینا ان غلطیوں میں سرفہرست ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے پر سابق گورنر پنجاب چودھری سرور نے اسی وقت اپنے اس تبصرے سے معاملے کی سنگینی پوری طرح واضح کردی تھی کہ 6 ارب ڈالر کے بدلے ہم سے سب کچھ لکھوا لیا گیا ہے۔ حالیہ بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجٹ میں امیروں پر ٹیکس لگائیں گے اور غریب طبقے پر ٹیکسوں کی مد میں زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ اِن ٹیکسوں میں سے ایک اُس طبقے پر عائد کیا جانا تھا جو جہاز میں بزنس یا فرسٹ کلاس میں سفر کرتا ہے۔ بزنس کلاس کے ٹکٹ پر پہلے صرف 10 ہزار روپے ٹیکس لگایا گیا تھا جسے بڑھا کر 50 ہزار روپے کردیا گیا۔ یہ ٹیکس یکم جولائی سے ہر فلائٹ پر لاگو کیا جانا تھا، حتیٰ کہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جو افراد یکم جولائی سے پہلے بزنس کلاس کا ٹکٹ خرید چکے ہیں وہ یکم جولائی کے بعد ایئرپورٹ پر اس ٹیکس کی ادائی کریں گے، لیکن حکومت سوشل میڈیا محاذ پر ہونے والے ردعمل کے سامنے پلٹن میدان میں جاکھڑی ہوئی اور ٹیکس وصولی سے منع کردیا گیا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان میں امیروں پر ٹیکس لگانا ایک مشکل عمل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح براہِ راست ٹیکسوں کی شرح کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک وقت کی روٹی کو ترسنے والا بھی وہی ٹیکس دے جو ایک ارب پتی شخص روزمرہ استعمال کی اشیا کی خریداری پر دیتا ہو؟ براہِ راست ٹیکس کا اصل ہدف تنخواہ دار طبقہ ہے۔ یہ ٹیکس تنخواہ کی ادائی سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ وسائل اکٹھے کرنے کے لیے ملک میں ایک شفاف نظامِ عدل چاہیے۔ جو سہولتیں یہاں اشرافیہ کو حاصل ہیں یہ کسی اور پاکستانی کو میسر نہیں ہیں۔ نہ جانے وہ طبقہ جو صرف فائلیں فروخت کرکے ہی اربوں روپے کماتا ہے، رئیل اسٹیٹ کا یہ شعبہ ٹیکس دینے کو کیوں تیار نہیں ہوتا؟ حالیہ بجٹ میں رئیل اسٹیٹ پر کچھ نہ کچھ ٹیکس لگایا گیا ہے، تاہم وزیر خزانہ کو اپنی پارٹی کے اراکین کی طرف سے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تنقید کا حق صرف غریب اور عام آدمی کے پاس ہے، اُن لوگوں کے پاس نہیں جنہوں نے حکومتی سرپرستی اور مہربانی سے کروڑوں اربوں روپے کمائے ہیں۔ اب مفتاح اسماعیل کو عہدے سے ہٹانے کی باتیں ہورہی ہیں، اور پھر وہی ہوگا جو ہمیں گھما پھرا کر پھر اس معاشی تباہی کی طرف لے آئے گا۔ موجودہ حکومت عمران حکومت سے کہیں بڑھ کر آئی ایم ایف کی تابع دارہے۔ اب اسحاق ڈار معاشی بحران اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پانچ سال بعد وارد ہونے کو ہیں، اسی لیے نیب کے بال و پر کاٹ کر اسے بے پرواز کیا گیا ہے۔ قومی مفاد کا لازمی تقاضا ہے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کی خاطر پوری سیاسی قیادت ایک سوچے سمجھے میثاقِ معیشت پر متحد ہو۔ اگر اپوزیشن امن وامان کی صورتِ حال خراب کرنے اور قوم کو تفریق و انتشار میں مبتلا کرنے سے گریز کرتے ہوئے تنقید و احتساب کی ذمے داری جمہوری اور آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے انجام دے تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔
وزیراعظم شہبازشریف کا یہ کہنا کہ حکومت کے پاس اس وقت صرف دو راستے تھے، پہلا نئے انتخابات کا اعلان اور دوسرا اضافی ٹیکس عائد کرکے نیوکلیئر اسٹیٹ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا… موجودہ حالات میں حکومت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سپر ٹیکس کے ذریعے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے، یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت اپنی آمدنی بڑھائے اور اخراجات اور مالیاتی خسارہ کم کرے، جس کے لیے حکومت کو مختلف اہداف دیئے گئے ہیں اور ان کی بجٹ میں منظوری آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کا سبب ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بغیر ورلڈ بینک (9ارب ڈالر)، ایشین ڈویلپمنٹ بینک (8ارب ڈالر) اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک (2 ارب ڈالر) سے ہمیں 19 ارب ڈالر کا قرض نہیں مل رہا، جبکہ سعودی عرب (3 ارب ڈالر) اور متحدہ عرب امارات (2 ارب ڈالر) نے بھی سافٹ ڈپازٹ کے رول اوور، اور قطر نے قرضے پر ایل این جی کی سپلائی کو پاکستان کے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی سے مشروط کردیا ہے۔ بہرحال چین نے حال ہی میں اپنے 2.3 ارب ڈالر کے کمرشل ڈپازٹ کو رول اوور، جبکہ فرانس نے G-20گروپ کے 107 ملین ڈالر قرضے کی ادائی 6سال کے لیے مؤخر کردی ہے۔ پاکستان کو 2023-24ء میں بیرونی قرضوں کی ادائی کے لیے 23 ارب ڈالر کی فنانسنگ چاہیے، خوف ناک حقائق یہ ہیں کہ ہمارے قرضے ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں جو لمحۂ فکریہ ہے۔