پیپلز پارٹی اور جمہوریت دشمنی کی طویل داستان

پیپلز پارٹی نے ہمیشہ خود کو عوام اور جمہوریت سے منسلک اور منسوب کیا ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور جمہوریت ہماری سیاست ہے، اس کے اساسی نعرے رہے ہیں حالانکہ اگر تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو وہ پارٹی کے ان دعوئوں کی قطعاً تائید نہیں کرتے۔ بنیادی بات یہ کہ جب سے یہ پارٹی وجود میں آئی ہے آج تک پارٹی کے اندر جمہوری انداز میں انتخابات اور عوام کے سرچشمہ سے طاقت حاصل کرنے کی کوئی مثال موجود نہیں، پارٹی کے کارکنوں کو کبھی پارٹی کی قیادت منتخب کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا بلکہ یہ سارا کام وراثت اور پرچی کی کرامت کے ذریعے ہی چلایا جاتا رہا ہے۔ ملکی سیاست میں پارٹی کے کردار کو دیکھا جائے تو یہاں بھی یہ حقیقت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت ہمیشہ پس پردہ قوتوں سے سودے بازی اور فوجی آمروں کے زیر سایہ ہی پروان چڑھی ہے، کیا اس امر سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز ملک کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کی سرپرستی میں کیا وہ نہ صرف ان کی کابینہ کے اہم رکن رہے بلکہ ایوب خاں کی شفقت کے اس قدر گھائل تھے کہ انہیں سر عام ’’ڈیڈی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، اور ان کی بنائی ہوئی کنوینشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی تھے اور 1965 ء کے صدارتی انتخابات میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی محترم ہمشیرہ فاطمہ جناح کو ہرانے کے لیے ’’جھرلو‘‘ کی منصوبہ بندی کا سہرا بھی جناب بھٹو ہی کے سر بیٹھتا ہے۔ پھر جب ایوب خاں کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا محسوس ہوا تو ’’ڈیڈی‘‘ سے بے وفائی میں ذرا دیر نہ لگائی اور الگ ہو کر اپنی ’’پیپلز پارٹی‘‘ تشکیل دے لی اور نئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں کی سرپرستی میں 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان کے صوبوں پنجاب اور سندھ میں کامیابی حاصل کی۔ جنرل یحییٰ خاں نے 25 مارچ 1971ء کو نو منتخب اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلایا تو بھٹو نے اس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگا دیا چنانچہ یحییٰ خاں نے اپنا بلایا ہوا اجلاس ملتوی کر دیا تو بھٹو نے غیر جمہوری طرز عمل اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کا شکر ہے، پاکستان بچا لیا گیا‘‘ اس کے ساتھ ہی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے بغیر بنائی گئی، یحییٰ خاں کی ڈمی حکومت میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے مناصب جناب بھٹو نے سنبھالے اور پاکستان توڑنے میں یحییٰ خاں اور مجیب الرحمن کا بھر پور ساتھ دیا۔
پاکستان دو لخت ہونے کے بعد جناب بھٹو کو ملک کا یہ واحد اور نادر اعزاز حاصل ہوا کہ وہ غیر فوجی سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ ملک میں 23 مارچ 1973ء کو آئین نافذ ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بن گئے مگر جب تک برسراقتدار رہے، ایک دن کے لیے بھی ملک میں ’’ہنگامی حالت‘‘ ختم نہیں ہونے دی، یوں ان کے پورے ’’جمہوری‘‘ دور اقتدار میں پاکستان میں جلسے، جلوسوں، اجتماعات اور احتجاج کی قانونی اجازت اہل وطن کو حاصل نہیں ہو سکی بلکہ اپنوں اور پرایوں کو دبانے اور سبق سکھانے کی انوکھی مثالیں قائم کی گئیں کہ فوجی آمروں کو بھی نہیں سوجھی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کی طیارے کے سانحہ میں شہادت کے فوری بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جنرل ضیاء الحق کے نائبین اور ساتھی جرنیلوں کے ساتھ سودے بازی کر کے ادھورا اقتدار قبول کیا اور اس فوج کو ’’تمغہ جمہوریت‘‘ عطا کیا جس نے ان کی لولی لنگڑی حکومت بنوائی تھی۔ 1999ء میں بارہ اکتوبر کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت ملک پر مسلط کی گئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی نے نہ صرف فوجی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ نئی حکومت نے سات نکاتی ایجنڈے کی تائید کرتے ہوئے اس کی تکمیل میں ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ پھر اسی جنرل پرویز مشرف سے این آر او حاصل کر کے محترمہ بیرون ملک سے پاکستان آئیں۔ 2008ء میں فوج کی اشیرباد سے پیپلز پارٹی کی حکومت تشکیل پائی تو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے سبکدوشی کے بعد زبردست پروٹوکول اور گارڈ آف آنر پیش کر کے بیرون ملک روانہ کر دیا گیا۔ حالانکہ اس سے قبل پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری۔ جنرل مشرف کو محترمہ بے نظیر کا قاتل اور آئین شکنی کا مجرم قرار دیتے رہے تھے۔ اور کون نہیں جانتا کہ پیپلز پارٹی آج پھر جو شریک اقتدار ہے تو یہ مسلح افواج کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے…!!!
اس پس منظر میں پیپلز پارٹی نے پانچ جولائی کو جنرل محمد ضیاء الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے مارشل لاء نافذ کئے جانے کی یاد میں ’’یوم سیاہ‘‘ منایا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین نے اپنے بیانات میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پارٹی جمہوریت کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرتی رہے گی۔ جہاں تک پانچ جولائی 1977ء کا تعلق ہے تو اس تاریخی حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس روز پوری پاکستانی قوم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوریت دشمن طرز عمل اور انتخابی دھاندلیوں کے خلاف سراپا احتجاج اور سڑکوں پر تھی درجنوں لوگ جناب بھٹو سے نجات کی اس تحریک میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے تھے، سینکڑوں زخمی ہو چکے تھے اور ہزاروں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ظلم و ستم برداشت کر رہے تھے یہ وہ دور تھا جب آزادی صحافت نام کی کسی چیز کا تصور تک موجود نہ تھا، ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ ہفت روزہ زندگی، روزنامہ جسارت سمیت متعدد اخبارات و جرائد کے ڈیکلریشن منسوخ کر کے اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تھی اور ان کے مدیران و کارکنان کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا تھا، نوائے وقت جیسے معتدل اور حقیقت پسند کو طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ آج کل لوگوں کے غائب کئے جانے کا بہت شور بپا ہے مگر شاید ہمارے پیپلز پارٹی کے دوستوں کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہ بد نام زمانہ ’’دلائی کیمپ‘‘ میں لوگوں کو غائب کرنے کی رسم بد کا آغاز جناب ذوالفقار علی بھٹو ہی نے کیا تھا۔ یوں پیپلز پارٹی اور اس کے بانی کی جمہوریت دشمنی کی طویل داستان ہے، کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں؟ جنرل ضیاء الحق کی ’’باقیات‘‘ کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لینے والے جمہوریت کے دعویدار ، پیپلز پارٹی کے قائدین سے بس اتنا عرض کرنا ہے کہ ؎
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
(حامد ریاض ڈوگر)