قربانی

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
” صرف مسنہ (2 دانت والا جانور ) کی قربانی کرو۔
ہاں اگر مسنہ ملنا دشوار ہو تو ایک سال کا دنبہ یا مینڈھا ذبح کردو“۔
(مسلم، کتاب الاضاحی)

حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ حضورؐ نے عیدالاضحی کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اسے سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔(ترمذی)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپؐ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں، چنانچہ میں آپؐ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ابودائود، ترمذی)
حضرت برا بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ: ’’آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھتے ہیں، پھر پلٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ پس جس نے اس طریقے کے مطابق عمل کیا اس نے ہماری سنت پالی‘‘۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’الاضحی وہ دن ہے جس میں لوگ قربانی کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’جو شخص طاقت رکھتا ہو اور پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘۔ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن آدم کی اولاد کا کوئی فعل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ خون بہائے‘‘۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت بُریدہؓ کہتے ہیں کہ عیدالاضحی کے دن حضورؐ عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے، اور واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدالاضحی کی نماز پڑھی، پھر جب آپؐ پلٹے تو آپؐ کے حضور ایک مینڈھا لایا گیا اور آپؐ نے اسے ذبح فرمایا۔ (مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی میں دو چتکبرے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی (بخاری، مسلم) اور یہی مضمون حضرت جابر بن عبداللہؓ سے بھی مروی ہے۔ (ابودائود، ابن ماجہ بیہقی)
برابن عازب، جندب بن سفیان البجلی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایات یہ ہیں: حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی، اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اس کی قربانی ہوگئی اور اس نے سنت ِ مسلمین پر عمل کیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
حضرت جابر عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں قربانی کے دن نماز پڑھائی، اس کے بعد کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر حضورؐ سے پہلے قربانی کرلی۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ ’’جس کسی نے ایسا کیا ہے اسے پھر قربانی کرنی چاہیے اور کسی کو اُس وقت تک قربانی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ نبی اپنی قربانی نہ کرلے‘‘۔ (مسلم، مسند احمد)
یہ روایات اور بکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں، اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں جو یہ بتاتی ہوکہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت ِرسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازماً صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔
(مسئلہ قربانی)