قربان جانے والے کے قربان جائیے

جوں جوں عیدِ قرباں قریب آتی جارہی ہے، تُوں تُوں قربانی کے جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ عام آدمی بھی عجیب آدمی ہے۔ ہر بجٹ میں اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مگر شاید اس اعلان کے ساتھ ہی زیر لب یا قوسین میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ
’’آپ سمجھ تو گئے ہوں گے‘‘۔
مہنگائی کمر توڑ ہوگئی ہے۔ مگرمنہ زور اور کمر توڑ مہنگائی کی اس دوڑ میں بھی ملّتِ ابراہیمیؑ کا جذبۂ قربانی ہے کہ کسی طرح کم ہونے میں نہیں آتا۔ یہاں جذبۂ قربانی سے مراد عیدِ قرباں پر مہنگے سے مہنگا جانور قربان کر ڈالنے کا جذبہ ہے۔ ورنہ جہاں تک حق کی راہ میں اپنی جان کھپا دینے یا اپنی جان قربان کردینے کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ ابن انشاؔ پہلے ہی فرما چکے ہیں:
حق اچھا، پَر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
اپنی جان کے لیے بہت سے لوگ یہی ’معیارِ حق‘ رکھتے ہیں۔ لیکن جانور کی جان قربان کرتے وقت معیار بدل جاتا ہے۔ اِس وقت منڈی میں مہنگے سے مہنگا جانور پڑا ہوا ہے، ساتھ ہی اُس کا خریدار بھی کھڑا ہوا ہے، کروڑوں کی حد تک پہنچے قیمتی جانور کے دانت ٹٹولتا ہوا اور اپنے سارے دانت نکال نکال کر متحرک عکس بندی کرواتا ہوا۔ اب ایسے کسی خریدار سے کون پوچھے کہ
’’اے بھائی! تیرے کَنے اتنی دولت بھلا کس کمائی سے آئی؟‘‘
’کَنے‘ کا مطلب نوراللغات میں دیکھا تو وہاں ’پاس یا نزدیک‘ لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ’متروک ہے‘۔ ہوگا۔ پَر کراچی میں کچھ بیبیوں کو’میرے کَنے، تیرے کَنے‘ کہتے ہم نے خود سنا ہے۔ اب شاید ایسی بیبیاں بھی متروک ہوچکی ہوں۔
متروکات تو اور بھی بہت ہیں۔ فقط ایک ’کنے‘ کو کیا کوسیں؟ تاہم اگر ’کنے‘ کا مطلب ’نزدیک، پاس، قریب یا تحویل میں‘ ہے، تو ’قربانی‘ کا مطلب بھی یہی ہے۔ اگرچہ اب اُردو میں قربانی کا مطلب فقط ذبیحہ، ایثار، صدقہ اور بالخصوص بروزِ عیدِ قرباں اللہ کی کبریائی بیان کرکے جانور کے گلے پر چھری پھیرنا رہ گیا ہے، مگر اصلاً یہ لفظ ’قُرب‘ سے بنا ہے۔
عربی میں ’قُربَاناً‘کا مطلب ہے ’قریب ہونا‘۔ ’قُربان‘ کے لغوی معنی ہیں ’نزدیکی‘ حاصل کرنا۔ اہلِ فارس نے’قربان‘ میں یائے زائد کا اضافہ کرکے لفظ ’قربانی‘ بنا لیا۔ مطلب قربت پانا۔ جس ذبیحے کو ہم ’قربانی‘ کہتے ہیں اُس کا اصل مفہوم بھی اس نذرکے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کا عمل بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ دعاؤں، آرزوؤں اور تمناؤں سے اللہ نے خلیل اللہ کو چھیاسی برس کی عمر میں بیٹا عطا فرمایا۔ اس اکلوتے لاڈلے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دینے کے لیے تیار ہوجانا بھی اللہ سے قربت ہی کا تقاضا تھا۔
نیت صاف ہو، عمل خالص ہو اور دل میں خشوع و خضوع ہو تو ہمارے تمام مراسمِ عبودیت ’نماز و روزہ و قربانی و حج‘ سب اللہ سے تَقَرُّب کا ذریعہ ہیں۔ سورۃ العلق کی آخری آیت میں اللہ سے قریب ہونے کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید سے ہدایت لینے والے اس آخری آیت کو پڑھتے ہی سجدے میں گرجاتے ہیں۔ سجدے کی حالت میں نمازی اللہ سے نزدیک ترین ہوتا ہے۔
دوسروں کے لیے ایثار کرنے اور اپنے وقت، اپنے جذبات، اپنی انا، اپنی خواہشات اور اپنے مال سے خلقِ خدا کی خاطر دست بردار ہوجانے کے مفہوم میں بھی ’قربانی‘ اللہ سے قریب کرتی ہے۔ اگر غور فرمائیے تو ’قربانی‘ ہی وہ صفت ہے جو مسلمان کو مسلمان بناتی ہے اور ہر ہر قدم پر اللہ سے قریب تر کرتی جاتی ہے۔ مسلمان کا ہر نیک عمل کوئی نہ کوئی قربانی چاہتا ہے اور کسی نہ کسی چیز کی قربانی مانگتا ہے۔ کبھی مال کی، کبھی وقت کی، کبھی نیند یا آرام کی، کبھی بھوک پیاس مٹانے کی، کبھی جذبات و احساسات کی، اور کبھی جان کی۔ اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں جان بھی قربان کردے تو قرآنِ مجید کی رو سے، انبیا اور صدیقین کے بعد، اللہ تعالیٰ کے دربار میں اُسے سب سے بڑا مرتبہ مل جاتا ہے۔
قربان ہونا یا قربان جانا بھی اُردو کا معروف محاورہ ہے۔ مطلب: کسی پر اپنی جان نثار کردینا۔ اکثر یہ دعویٰ محض زبانی ہی ہوتا ہے۔
رُتبے شہیدِ ناز کے گر جان جائیے
قربان جانے والے کے قربان جائیے
’قر ب‘ سے بننے والے بہت سے الفاظ اُردو بولنے اور اُردو لکھنے والوں کومانوس ہیں۔ قرب کا مطلب نزدیکی ہے یا کسی کے پاس ہونا۔ ’قریب قریب‘ کے علاقوں کو ’قرب و جوار‘ کہتے ہیں۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’قربت‘ بنا ہے۔ ذرامصطفی زیدی کی مایوسی دیکھیے:
شفق نظر کا فریب ہے، تتلیوں کی رنگت میں کچھ نہیں ہے
فراق میں کیا طِلِسم ہوگا؟ جب اُس کی قربت میں کچھ نہیں ہے
قریب ہو جانے کو قرابت کہتے ہیں، جس کا مفہوم تعلق اور رشتے داری بھی لیا جاتا ہے۔قریب ترین رشتے دار کو ’اقرب‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع اقربا ہے۔اللہ جانے کس مقتول شاعر کو اپنے اقربا سے یہ توقع اور اُن کی فکر تھی کہ
وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر؟
’اقرب‘ سے صوتی ہم آہنگی رکھتا ہوا ایک لفظ ’عقرب‘ ہے جس کا مطلب ہے بچھو۔ بچھو کا ڈنک ’نیشِ عقرب‘ کہلاتا ہے۔ اس صوتی ہم آہنگی سے مشتاق احمد یوسفی صاحب نے خوب فائدہ اُٹھا یا اوراپنے دفتری ساتھی خان سیف الملوک خان کے متعلق بتایا کہ ’’نیشِ اقرب کے ڈسے ہوئے تھے‘‘۔قرابت کو ’قُربیٰ‘ بھی کہا جاتا ہے، قرآنِ مجید میں ’ذوی القربیٰ‘ (قریبی رشتے داروں) کا خیال رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔’اقربا‘ کے لیے ’اَقارِب‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’اعزہ و اقارب‘ کی ترکیب ہمارے ہاں عام ہے۔ اگر کوئی بات اصل تک نہ پہنچے مگر اصل سے ’قریب قریب‘ ہو تو اُس کے لیے ہم ’تقریباً‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔لوگوں کو ایک جگہ اور قریب قریب جمع کرکے میل ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے تو اس کو ’تقریب‘ کہا جاتا ہے۔ تقریب کا کوئی سبب بھی ہوتا ہے، مثلاً تقریبِ نکاح، تقریبِ ولیمہ یا قبل از وقت صاحبِ کتاب بن جانے والوں کی تقریبِ رُونمائی و جگ ہنسائی۔ ’تقریب‘ دو سے زائد افراد کو بھی قریب کر سکتی ہے اوردو افراد کو بھی۔ غالبؔ ایسی ہی قربت کے طالب تھے۔ کہتے ہیں:
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
کہا جاتا ہے کہ ’جو کسی کے قریب ہوتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں‘۔ ایسے لوگوں کو ’مقرب‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ جنھیں قریب کیا گیا ہو یا قربت دی گئی ہو۔ اس کی جمع ’مقربین‘ ہے۔ سرکار دربار میں خصوصی قربت پانے والوں کو ’مقربینِ خاص‘ کہا جاتا ہے۔ ذرا اپنے دل کے دربار میں جھانک کر دیکھیے تو شاید ’مقربینِ خاص‘ کی فہرست میں کہیں ہمارا نام بھی درج ہو۔