تاریخ کا تسلسل اور تہذیبوں کی ہم آہنگی

(دوسرا حصہ)

انسان (بحیثیت مادی وجود کے) کس طرح تاریخ کے عمل کو متاثر کرتا اور متاثر ہوتا ہے، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اب اس کے شعوری وجود (conscious material) کا اس مادّی دنیامیں کیا مقصد ہے۔ سبھی انسانوں کی مادّی بناوٹ تو ایک سی ہے لیکن شعور اتنا مختلف کیوں ہے اور اس لیے اس کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔ اسی لیے تاریخ اتنے دھاروں میں بنٹی ہوئی ہے۔ ایک جیسی مادّی حالت میں رہنے والے لوگ اتنے مختلف مقاصد کیوں طے کرتے ہیں؟ کچھ لوگ اس کا سراغ ڈسکورس میں لگاتے ہیں جو کہ شعور کے آئیڈیا کے زیادہ قریب ہے۔ لیکن ڈسکورس کا آئیڈیا بھی سبھی سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان کا شعور بدلتا رہتا ہے اور اس کے مادّی مقاصد بھی۔ اس لیے تاریخ میں ایک تسلسل ہے جو دَوری (cyclic) اور خطی (linear) دونوں ہے۔ حالاں کہ انسان چاہتا تو یہ ہے کہ اسے آخری مقصد اور آخری حل مل جائے اس لیے وہ بار بار اس کا اعلان کرتا ہے۔ چاہے ہیگل ہو یا مارکس اور فوکویاما۔ اسلام کا موقف تاریخ کو لے کر کبھی نہیں بدلا۔ حالاں کہ وہ بدلتی ہوئی مادّی حالت سے انکار نہیں کرتا اور بدلتی ہوئی مادّی شکلوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اس لیے اسلامی تاریخ کے تصور میں جہاں حتمیت ہے وہیں ایک بہاؤ بھی ہے جو دَوری اور خطی ہے۔ اسلام نے قرآن کے مکمل ہونے کے ساتھ تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا اور کہا کہ انسان کی ہدایت یا شعور کے لیے جو رہ نمائی درکار تھی وہ آخری شکل میں آگئی ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ جہاں اس میں ایک مطلقیت (absoluteness) ہے وہیں اجتہاد کی شکل میں ایک مستقل نیا پن ہے جو اس کے بہاؤ کو جاری رکھتا ہے۔ خدا مطلقیت کی نمائندگی ہے اور اجتہاد انسانوں کی۔ اس لیے تاریخ کے بہاؤ میں خدا اور خلق کے درمیان ایک توازن پایا جاتا ہے جس میں خدا کی مطلقیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور بندے کی آزادی بھی جاری رہتی ہے۔ ان سب کے باوجود انسان کو اتنا آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ خدا کا انکار کرکے اپنی مطلقیت اور خود مختاری کا اعلان کر دے۔ اس سے تاریخ کے بہاؤ میں ایک کشمکش پیدا ہوجاتی ہے جو خدا کی مطلقیت اور خود مختاری اور بندے کی اعلان کردہ مطلقیت اور خود مختاری سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی تاریخ کو آگے بڑھانے والی ایک قوت (force) ہے۔ حالاں کہ طالبان کی فتح کے اثرات کمیونسٹ سقوط کی طرح تو نہیں ہیں لیکن اس نے فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے اور اس کی محدودیت کو بتا دیا ہے۔ اس نے مغرب کے لبرل ازم کو بے نقاب کردیا ہے کہ اوپر سے کچھ اور نظر آنے والا لبرل ازم کس طرح اپنے وجود کو بچانے کے لیے ریئلزم کی سیاست پر کھڑا ہے جہاں بے تحاشا دولت اور زبردست فوجی طاقت، جھوٹ (میڈیا پروپیگنڈہ)، بلیک میلنگ اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سلسلہ ہے۔ جس کی کالی پرچھائیاں پوری دنیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ طالبان کی فتح کو نہ صرف پوری اسلامی دنیا میں مثبت اندازمیں دیکھا گیا ہے بلکہ اسلام کے علاوہ جو دوسرے تہذیبی دھارے ہیں جیسے چین اور روس نے بھی اس واقعے کو خوش آئند کہا ہے اور مغرب کے لبرل آئیڈیا اور طرز حکم رانی پر سخت تنقید کی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ فوکویاما کی End of History کے آئیڈیا کو سنجیدہ چیلنج درپیش ہیں۔
تاریخ کا یہ تسلسل یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ اسلامک آئیڈیا لبرل آئیڈیا سے زیادہ وسیع، زیادہ شمولیت پر مبنی inclusive and accommodative ہے۔ اسلامی آئیڈیا میں لبرل ویلیوز کے لیے ایک فریم ورک کی شکل میں جگہ ہے۔ اسلامک آئیڈیا چوں کہ خدا کی مطلقیت کا اعلان کرتا ہے اس لیے انسان کی آزادی کو ایک فریم ورک سے باہر تسلیم نہیں کرتا اور اسے ایک ڈسپلن میں لاتا ہے۔ لیکن لبرل آئیڈیا کے فریم ورک میں کم زوری یہ ہے کہ وہاں اسلام خاص کر اس کے سیاسی اور اجتماعی پہلو کو نہ صرف نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ اس کی شدید مخالفت بھی کی جاتی ہے۔ طالبان کی فتح نے تاریخ کے تسلسل کو نہ صرف بحال کیا ہے بلکہ ایک مثبت رخ بھی دیا ہے۔ جس میں کئی مختلف اور متضاد خیالات مل کر مغربی لبرل تسلط کو چیلنج کر رہے ہیں۔ چوں کہ ایمانی شعور تاریخ کی سب سے فیصلہ کن طاقت رہی ہے اس لیے آنے والے دنوںمیں ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا کردار زیادہ واضح (vocal and bold) انداز میں سامنے آئے گا۔ کبھی تھیسس کی شکل میں، کبھی اینٹی تھیسس کی شکل میں اور کبھی سنتھیسس کی شکل میں۔
کمیونزم کے سقوط اور تاریخ کےخاتمے (End of History) کے اعلان کے بعد ہن ٹنگٹن نے فوکویاما کےEnd of History کے نظریے سے متفق ہوتے ہوئے مستقبل کی دنیا کی تعریف تہذیبوں کے تصادم (Clash of Civilization) کے ذریعے کرنے کی کوشش کی، اور دعویٰ کیا کہ اب مغربی تہذیب کی روایات دائمی ہیں، لیکن اسے دوسری تہذیبوں کی روایات سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ اور یہ دیگر تہذیبیں باہمی طور پر بھی متصادم ہوں گی۔
چناں چہ مستقبل کی عالمی سیاسی بساط کو رخ دینے کے لیے مغرب نے نہ صرف بقیہ تہذیبوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا، بلکہ ان تہذیبوں کو آپس میں بھڑانے کے لیے بھی اکسایا۔ ہن ٹنگٹن نے اپنے مقالے میں اس بات کا عندیہ دیا کہ اب دنیا میں تصادم کی بنیاد نظریہ اور معاش نہیں ہوں گے بلکہ تہذیبیں یا ان سے وابستہ روایات تصادم کی بنیاد بنیں گی۔ یہ تصادم قومیت پر مبنی ریاستوں (nation states)، ملکوں اور مختلف تہذیبی گروہوں کے درمیان ہوگا۔ ہن ٹنگٹن کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں انھوں نے اسے ایک نظریے کے طور پر پیش کیا وہیں اسے مفروضہ بھی کہا، یعنی جو ممکنات میں سے ہے وہ غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ آج تقریباً 28 سال بعد اس نظریے پر گفتگو کی جاسکتی ہے اور پچھلے 28 سال کی اتھل پتھل کو اس روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آیا یہ ایک فطری نظریہ تھا، یا اس کو امریکی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے گھڑا تھا۔ افغانستان میں مغرب کی ملٹری مشین اور جیو پولیٹکل ماڈل کی ناکامی نے اسے خاصا معنی خیز اور دل چسپ بنادیا ہے۔ ہن ٹنگٹن نے لکھا ہے:
“It is my hypothesis that the fundamental source of conflict in this new world will not be primarily ideological or primarily economic. The great divisions among humankind and the dominating source of conflict will be cultural. Nation states will remain the most powerful actors in world affairs, but the principal conflicts of global politics will occur between nations and groups of different civilizations. The clash of civilizations will dominate global politics. The fault lines between civilizations will be the battle lines of the future.”
یعنی،”میرا مفروضہ یہ ہے کہ اس نئی دنیا میں تصادم کا اہم مصدر بنیادی طور پر نظریاتی یا اقتصادی نہیں ہوگا۔ بنی نوع انسان کے درمیان عظیم انتشار اور تنازعے کا اہم سبب تہذیبی ہوگا۔ قومیت پر مبنی ممالک عالمی امور میں سب سے طاقت ور تو ہوں گے، لیکن عالمی سیاست میں آویزش کی بڑی وجہ ممالک اور مختلف تہذیبی گروہوں کے نزاع ہوں گے۔ تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر غالب آجائے گا۔ تہذیبوں کے بیچ کی دراڑیں مستقبل میں میدانِ جنگ کی صفیں بن کر ابھریں گی۔“
ہن ٹنگٹن کے اس نظریے کے بعد عالمی سیاست کو تہذیبوں کے تصادم کے چشمے سے دیکھا جانے لگا۔ خاص طور سے مسلم ممالک اور مغرب کے تعلقات کی تشریح اسی تناظر میں کی جانے لگی۔ ہن ٹنگٹن نے آرنلڈ ٹوئن بی (Arnold Toynbee) کے تصوراتِ تہذیب کو مانتے ہوئے انسانی تاریخ میں اکیس تہذیبوں کی نشان دہی کی، اور بتایا کہ اس وقت اب بس سات یا آٹھ تہذیبیں وجود میں ہیں: مغربی، کنفیوشین، جاپانی، اسلامی، ہندو، سلاوی آرتھوڈوکس (Slavic Orthodox)، لاطینی امریکی اور شاید افریقی تہذیب۔ ہن ٹنگٹن نے صاف طور سے اشارہ کیا کہ ان تہذیبوں کے درمیان اختلافات نہ صرف حقیقی ہیں بلکہ بنیادی (fundamental)بھی ہیں۔ اپنے اس نظریے میں انھوں نے اسلام پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی اور دعویٰ کیا کہ اسلام پچھلے تیرہ سو سال سے یورپ اور مغرب سے برسرپیکار ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلامی تہذیب نہ صرف داخلی طور پر بلکہ اپنے پڑوسیوں سے بھی متصادم ہے، نیز اسلام خونیں سرحدیں رکھتا ہے۔ انھوں نے افریقی اور لاطینی امریکی تہذیبوں پر کوئی روشنی نہیں ڈالی اور نہ ہی وجہ بتائی کہ یہ اپنے آپ میں کیوں کر مکمل تہذیبیں ہیں۔ جاپانی اور ہندو تہذیبوں کے ساتھ مغرب کے تعلقات پر بھی خاموشی اختیار کی۔ ہاں، انھوں نے ہندو اور اسلامی تہذیبوں کے تصادم پر کچھ تفصیل ضرور دی ہے۔ لیکن ہندو تہذیب پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کی۔ انھوں نے چین کے بجائے کنفیوشین (Confucian) تہذیب پر تفصیل سے بات رکھی ہے اور آنے والے وقت میں مغرب کے لیے اسے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ یہی بات انھوں نے روس کے بجائے سلاوی آرتھوڈوکس تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے مغرب اور روس کے تعلقات پر کہی ہے اور اسے بھی مغرب کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے سرد جنگ کے بعد کی تہذیبی کشمکش کو من حیث المجموع مغرب بمقابلہ تمام تہذیبیں (West vs. the Rest) قرار دینے کی کوشش کی ہے، جس میں اسلام، سلاوی آرتھوڈوکس اور کنفیوشین تہذیبوں پر مغرب کے ساتھ کشمکش کے تصور کو پیش کیا ہے، جب کہ ہندو، افریقی، لاطینی امریکی اور جاپانی تہذیبوں کے ساتھ مغرب کے تعلقات پر کھل کر کوئی بات نہیں کی ہے۔ بحیثیتِ مجموعی سرد جنگ کے بعد کے عالمی نظام میں اسلام، روس اور چین کو مغرب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا ہے۔
تہذیبیں کیا ہیں اور اس وقت دنیا میں کُل کتنی مکمل اور ادھوری تہذیبیں وجود رکھتی ہیں، یہ ایک لمبی بحث ہے۔
یوں تو تہذیبوں کی مختلف طریقوں سے تعریف کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں پہچان، مذہب، روایات، نسل اور جغرافیہ کو بنیاد بنایا گیا ہے، لیکن اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: مذہبی تہذیب اور غیر مذہبی تہذیب۔ مذہبی تہذیب میں مذہب کا کردار بنیادی ہوتا ہے اور اس عقیدے کو ماننے والے لوگ ایک مکمل تہذیب کے گروہ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ غیر مذہبی تہذیب میں مذہب کو یا تو رد کردیا جاتا ہے یا اس کا کردار آزادانہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، کیوں کہ مذہب کا تعلق الٰہ سے ہوتا ہے تو خدا کی رہنمائی کی حیثیت بھی کلیدی ہوتی ہے۔ اس میں مذہبی کتاب سب سے اہم ثبوت یا مصدر (source) ہوتی ہے۔ کسی تہذیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ پیش کرے، خواہ وہ سماجی ہو، سیاسی ہو، مذہبی ہو یا معاشی ہو۔ محض چند تمدنی رسومات کے نبھانے کا نام تہذیب نہیں ہے، بلکہ تہذیب وہ ہے جو دائمی ہو اور بدلتی ہوئی اقدار میں انسانی زندگی کی مکمل رہنمائی کرے۔ ہن ٹنگٹن نے جن تہذیبوں کا تعارف کرایا ہے اُن میں صرف دو مکمل طور پر پہچانی جاسکتی ہیں: اسلام اور مغرب۔ باقی تہذیبیں یا تو ماضی کے باقیات ہیں یا مکمل طور پر تصوراتی ہیں، یا ان میں دوسری تہذیبوں کی آمیزش بہت زیادہ ہے اور وہ انسانی زندگی کی مکمل رہنمائی کا دعویٰ پیش نہیں کرتی ہیں۔ چین میں اس وقت کمیونسٹ تصور کی حکمرانی ہے اور کنفیوشینزم کے احیا کی کوئی
تاریخ کا تسلسل اور تہذیبوں کی ہم آہنگی/ڈاکٹر جاوید ظفر تحریک نہیں ہے۔ کنفیوشین کے بارے میں بھی ابھی کوئی مکمل معلومات حاصل نہیں ہیں، جس کی بنیاد پر کسی مکمل تہذیب کا احیا ہوسکے، یا کسی نئی تہذیب کو قائم کیا جاسکے۔ سیاسی طور پر چین کمیونزم کا پیروکار ہے اور سماجی طور پر وہاں پوری طرح مغرب کی لبرل اقدار کے غلبے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اور اگر مستقبل میں وہاں کمیونسٹ سیاسی نظام گر بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ ایک قومی ریاست میں تبدیل ہوسکتا ہے، جو پہلے ہی سے ایک مغربی نظام ہے۔ کنفیوشین کو ایک عظیم چینی فلسفی کے طور پر تو پیش کیا جاسکتا ہے اور اسے چینی قومیت کو ابھارنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک مکمل تہذیب کو قائم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ جاپان یا جاپانی بھی ایک مکمل تہذیب نہیں ہیں، کیوں کہ وہاں کچھ مقامی رسوم کی موجودگی ہوسکتی ہے لیکن مکمل تہذیبی ڈھانچے کی موجودگی، جس کو خالص جاپانی کہا جاسکتا ہو، نہیں ہے۔ اس وقت جاپان کو مغربی تہذیب کی نظریاتی توسیع کہا جاسکتا ہے اور اس میں مغربی تہذیب کے حوالے سے کوئی منفی تاثرات بھی نہیں پائے جاتے، کیوں کہ پڑوسی چین اور روس سے جاپان کے تعلقات لمبے عرصے تک خراب رہنے کے اثرات ہیں، اس لیے وہ ابھی مغربی سیاسی بلاک کا حصہ تو بنا رہے گا لیکن تہذیبی طور پر وہاں کسی نئی تہذیب کے ابھرنے کے امکانات موجود نہیں ہیں۔
حواشی:
1. Fuku Yama, F. (1989). The End of History? The National Intrest, 16, 3-18
2. ملٹی ورس اس سیاسی صورتِ حال (condition) کو کہتے ہیں جب عالمی سیاست میں single polarity، bipolarity یا multipolarity ختم ہوجاتی ہے یاہوجائے گی۔اور ایک ایسا نظام وجود میں آتا ہے یا آسکتا ہے جس میں مختلف تہذیبی دھارے اپنے اپنے دیار میں باہری دباؤ، اثرات یا مداخلت سے مکمل آزاد ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے متوازی (parallel) رہتے ہیں اور ایک دوسرے میں مداخلت کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے جڑے (connect) رہتے ہیں اور کش مکش کے بجائے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔(جاری ہے)