ؒجرات و استقامت کا پیکر سید منور حسن

میرے چارہ گر کو نوید ہو ، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پروہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیںپہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلادیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاںسے گزر گئے
رہ ِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
مدبر سیاستدان، باعمل مسلمان اورجرأت مند قائد سید منور حسن دائیں ہاتھ میں اپنا نامۂ اعمال تھامے اور آنکھوں میں عجزو نیاز کے آنسو لیے ایک سرخرو بندۂ عاجزکے طور پر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ ہماری منہ زور اسٹیبلشمنٹ کو ہارڈلائنر منورحسن تو پہلے بھی قبول نہیں تھے لیکن امیر جماعت کے طور پر افغانستان میں امریکی مداخلت، دہشت گردی کے نام پر جنگ، ڈرون حملوں، لاپتا افراد، ڈاکٹر عافیہ صدیقی، فلسطین میں یہودی مظالم، مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت اور فلسطین میں جیتی ہوئی حماس کی اعلانیہ حمایت، تحریک آزادیِ کشمیرکی پُرجوش وکالت،عالمی طاغوتی قوتوں کی سفاکی کے خلاف سینہ سپر ہوجانے اور ملکی سیاست میں طاقتور حلقوں کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار نے اسٹیلشمنٹ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، لیکن وہ اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے۔
نفاست، وضع داری، عاجزی، جرأت، عبادت گزاری، استقامت، تدبر، علمی گہرائی، حالات پر نظر، مقصد سے عشق کی حد تک لگن اور کردار میں قرونِ اولیٰ کی مثال سیدِ والا تبار ایک فرد اور ادارہ نہیں ایک چلتی پھرتی اکیڈمی اور تربیتی انسٹی ٹیوشن تھے۔ جو ان سے چھو کر گزر جاتا پارس ہوجاتا۔ جو ساتھ رہتا کندن بن جاتا۔ جو مخالف تھے وہ دانتوں میں انگلیاں دبائے گھنٹوں سوچتے کہ اتنا عاجز و منکسر مزاج بندہ اس قدر حوصلے اور جرأت کا حامل کیسے ہے! جو تقریر سنتا گھنٹوں سر دھنتا۔ جو تحریر پڑھتا برسوں یاد رکھتا۔ جو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا اش اش کر اٹھتا۔ اور جو کام کرتے ہوئے پاتا حیران و پریشان ہوجاتا کہ ایسا قلاش شخص اتنا اچھا منتظم بھی ہے اور اپنے وقت کا اتنا اعلیٰ استعمال بھی کرتا ہے۔
یہ 1970ء کی دہائی کا کوئی سال تھا، اسلامی جمعیت طلبہ لاہور نے اسلامیہ کالج کینٹ میں تین روزہ تربیت گاہ کا انتظام کیا، جس کے منتظمین محترم سمیع اللہ بٹ اور جنٹلمین بسم اللہ اور جنٹلمین الحمدللہ والے اشفاق حسین تھے، جبکہ شرکاء میں جاوید ہاشمی، احمد بلال محبوب، اکمل جاوید اور ڈاکٹر اعجاز شامل تھے۔ پروگرام کے دوسرے روز سید منور حسن کو درس قرآن دینا تھا۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھے تربیت گاہ پہنچے تھے۔ سفید ململ کے کرتے، کھلے پائنچے کے پاجامے، سر پر کلف لگی کپڑے کی سفید ٹوپی اور چہرے پر سجی چھوٹی چھوٹی داڑھی کے ساتھ انہوں نے درس شروع کیا تو محفل پر ایک سحر طاری ہوگیا۔ وہ ٹھیر ٹھیر کر قرآن اس طرح پڑھتے کہ دلوں پر اترتا ہوا محسوس ہوتا۔ ابتدا میں لمبا توقف کیا، مگر پھر بے تکان بولتے چلے گئے۔ عربی اور اردو کے ساتھ انگریزی زبان پر ان کی دسترس بہت جلد واضح ہوگئی۔ برموقع مصرعوں کے استعمال سے ان کے اعلیٰ ذوق کا اندازہ ہورہا تھا۔ سوالوں کے وقفے میں ان کی علمی وجاہت، موضوع پرگرفت اور جواب دینے کے سلیقے اور شائستگی نے مجھ سمیت سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان کی تقریر میں ایک عجیب نغمگی تھی (بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ موسیقی کے اسرارو رموز سے بھی آشنا تھے اور ہمارے ایک مرحوم ترقی پسند دوست تو انھیں علم موسیقی کا عالم گردانتے تھے )۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات یا آمنا سامنا تھا، جس میں مَیں ان کی شخصیت کے سحر میں اس قدر کھو گیا تھا کہ آگے بڑھ کر مصافحہ بھی نہ کرسکا۔
اس کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگراموں اور جماعت اسلامی کی تقریبات میں بار بار ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ بطور صحافی بھی گفتگو کے مواقع میسر آئے لیکن ان سے پہلی ملاقات کا سحر آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ ان سے آخری ون ٹو ون ملاقات دارالضیافہ منصورہ میں ہوئی جب وہ جماعت کی امارت سے فراغت پا چکے تھے۔ دراصل کبھی منصورہ یا پریس کلب میں ان سے مختصر سی ملاقات ہوتی اور میں عقیدت سے سلام کرتا تو وہ روایتی انداز میں کہتے ’’بھئی کسی وقت آئیے گا…‘‘ یہ ان کی محبت کا ایک انداز تھا۔ یہ جملہ وہ مجھے کئی بار کہہ چکے تھے۔ جس روز سراج الحق صاحب نے بطور امیر جماعت حلف اٹھایا اور جامع مسجد منصورہ میں نمازِ مغرب کے بعد سرِ راہے منور صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنا یہی جملہ ذرا مختلف انداز میں پھر دہرایاکہ ’’بھئی اب تو آجائیے نا…‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اس لیے گریز کرتا ہوں۔ کہنے لگے ’’آپ کو ملاقات کے لیے کتنا وقت چاہیے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرے لیے تو آپ کے ساتھ پانچ منٹ کی ملاقات بھی سعادت ہے‘‘۔ مسکرا کر کہنے لگے ’’اسے ساڑھے چار منٹ کر لیجیے‘‘۔ میں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ گھر آکر یہ سوچتے ہوئے کہ منور صاحب کے یہ ساڑھے چار منٹ بھی بچا لینا زیادہ اچھا ہے، میں نے انھیں ایک خط لکھ دیاکہ میں آپ کی زیارت اور مصافحہ کرکے ثواب کما لیتا ہوں اس سے زیادہ کی کوئی خواہش بھی نہیں ہے، آپ کے یہ ساڑھے چار منٹ بہت قیمتی ہیں اس لیے انہیں کسی اچھے کام میں صرف کرلیجیے، مجھے خوشی اور ثواب ہوگا۔اس خط کے مندرجات یہ تھے:
سید محترم!
السلام علیکم! صحافت کی تنگنائیوں میں کوئی 33 سال گزارنے کے باوجود میں ایک خوش عقیدہ مسلمان ہوں اور ارکانِ جماعت کو اللہ کے ولی اور اس اعتبار سے امیر جماعت کو مجدد سے کم نہیں سمجھتا۔ آپ کے پانچ سالہ دورِ امارت میں یہ حدِّ ادب حائل رہا۔ میں کبھی دور سے آپ کی زیارت ،کبھی مصافحہ اور کبھی معانقہ کرکے ثواب حاصل کرتا رہا مگر باوجود خواہش کے آپ سے ملاقات سے گریزاں رہا کہ آپ کا وقت قیمتی ہے اور ہم ثواب تو آپ کی زیارت کرکے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
اس عقیدت و ارادت کے باوجود آپ کی مدتِ امارت مکمل ہونے پر گزشتہ شام جامع منصورہ میں مَیں نے نجانے کیوں اور کیسے آپ سے پانچ منٹ عنایت کرنے کی درخواست کردی۔ اورآپ نے بھی کمالِ شفقت سے 4½ منٹ دینے پر رضامندی ظاہر کردی۔ لیکن خود مجھے بعد میں احساس ہوا کہ آپ کے یہ 4½منٹ بھی ضائع ہونے سے بچا لینے چاہئیں، اسی جذبے کے تحت اس خط کا سہارا لے رہا ہوں۔
سید صاحب! آپ نے پانچ سال تک امارت کی وکٹ پر ایک اچھی اننگ کھیلی، چوکے چھکے نہ لگانے کے باوجود وکٹ پر جمے رہے۔ صحافتی حلقوں میں گردش کرتی اطلاعات کے مطابق آپ نے امیر جماعت کے انتخاب سے قبل ہی اگلی مدت کے لیے مجلس شوریٰ سے معذرت کرلی تھی، لیکن شوریٰ نے آپ کی معذرت قبول نہ کی، حالانکہ وہ اس سے قبل سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کی ایسی ہی معذرت قبول کرچکی تھی۔ اس صورتِ حال پر یار لوگوں نے تکلیف دہ تبصرے بھی کیے، جن کی جانب آپ نے بطور امیر اپنے آخری خطاب میں کچھ اشارہ بھی کیاہے۔
لیکن میں جماعت کا ادنیٰ ہمدرد اور تحریکی گھرانے کا فرد ہونے کے ناتے آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں کہ میری اطلاعات کے مطابق
-1 آپ نے جماعت اسلامی کو کاروباری منصوبے شروع کرنے یا جاری رکھنے سے روک دیا۔
-2 انٹیلی جنس اداروں سے معاونت لینے اور ان سے ربط و ضبط بڑھانے سے انکار کیا۔
-3 جماعت کو زیادہ سیاسی بنانے کے بجائے تنظیمی اور تحریکی پہلوؤں پر زور دیا۔
-4 منہ زور میڈیا سے خوف زدہ ہونے یا اس سے بلا ضرورت مفاہمت کرنے کی پالیسی مسترد کردی۔
-5 اپنے درست مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے بجائے آئی ایس پی آر کے سامنے ڈٹ گئے اور اس طرح ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو خاموش ہونا پڑا، اور پہلی بار جماعت پر سے فوج کی بی ٹیم ہونے کا داغ دھودیا۔
-6 اتحادی سیاست کے بجائے اپنے جھنڈے اور اپنے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست کرنے کی آپ کی کوششیں کامیاب تو نہ ہوسکیں لیکن یہ صحیح سمت میں 43 سال بعد ایک اچھا آغاز ضرور تھا۔
یہ اور ان جیسے آپ کے دوسرے اقدامات اور فیصلے (اور شاید ایسے بہت سے فیصلے جو ہم جیسے لوگوں تک نہیں پہنچ سکے) آپ کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث ہیں، جن کی اہمیت گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ ہوتی جائے گی۔ میں ایک بار پھر آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ اب آپ کو مجھ جیسے عامی عقیدت مند پر اپنے 4½منٹ ضائع کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ میں یہ ثواب دور سے آپ کی زیارت کرکے حاصل کرتا رہوں گا۔ البتہ آپ سے اپنے لیے دعا کی درخواست ایک حق سمجھ کر ضرور کروں گا۔
جناب سید منور حسن
منصورہ لاہور
آپ کا ایک معمولی ساہمدرد
تاثیر مصطفی ، لاہور
10 اپریل 2014ء
چند روز بعد میں یونیورسٹی آف گجرات میں ایک میڈیا ورکشاپ میں شریک تھا کہ منور صاحب کے سیکرٹری جناب ابرار صاحب کا فون آگیا کہ آج شام کو منور صاحب سے ملاقات کرلیں۔ یہ وہی دن تھا جس دن حامد میر پر کراچی میں حملہ ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ میں کل تک گجرات میں مصروف ہوں۔ اس کے بعد حاضر ہوسکتا ہوں۔ لاہور پہنچا تو شاید اگلے ہی روز ابرار صاحب نے یاد دہانی کرا دی اور بعد نماز عصر ملاقات کا وقت طے کردیا۔ میں احترام اور عقیدت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مقررہ وقت پر دارا لضیافہ پہنچ گیا۔ منور صاحب چند منٹ بعد آئے۔ پوچھا کب آئے؟ میں نے بتایا کہ مقررہ وقت پر… کہا: آپ وقت کے بہت پابند لگتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: آپ سے عقیدت اور احترام کا یہی تقاضا تھا۔ میں نے پوچھا: ہمارے پاس کتنا وقت ہے؟ مسکرا کر کہنے لگے: ابھی کافی وقت ہے۔ میرے بچوں کے بارے میں تفصیل سے پوچھا، ان کی تعلیم پر بات کی، گفتگو شروع ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے امیر جماعت منتخب ہونے سے پہلے کے امارت کے انتخاب میں مجلس شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے ان میں ان کا نام بھی شامل تھا۔ یہ خبر شائع ہونے کے بعد حامد میر کا فون آیا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں، آپ کہیں تو میں لاہور آجاؤں۔ اگر آپ اسلام آباد آنے والے ہوں تو وہاں مل لیتے ہیں۔ منور صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے روز اسلام آباد آرہے ہیں۔ چنانچہ اگلے روز ملاقات ہوئی تو حامد میر نے بتایا کہ فوج کے اعلیٰ حلقوں سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ شوریٰ کے تجویر کردہ ناموں میں پہلے نمبر والے جماعت کے رہنما امیر منتخب ہوجائیں تو ٹھیک۔ دوسرے نمبر والے بھی قابل قبول ہیں مگر منور حسن ہارڈ لائنر ہیں۔ یہ کہہ کر منور صاحب نے گیند میری جانب اچھال دی کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟ میں نے کہہ دیا کہ میری نظر میں وہ آپ کو خبر دینے نہیں پیغام دینے آئے تھے۔ منور صاحب کے تاثر سے لگا کہ وہ میری رائے کو کچھ وزن دے رہے ہیں۔ اسی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ سلیم صافی کے متنازع انٹرویو کے بعد بعض عسکری افسران ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ تشریف لائے اور تجویز دی کہ تنازع مناسب نہیں اگر آپ اپنا بیان واپس لے لیں تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ جس پر منور صاحب کا جواب تھا کہ یہ تنازع اس سے بھی زیادہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے اگرآپ اپنا بیان واپس لے لیں۔ یہ بات انہوں نے بالکل عمومی انداز میں اور انتہائی سادگی سے بتائی اور مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی فقیر منش شخص ہی ایسا مدبرانہ اور جرأت مندانہ جواب دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بعض معاملات پر اُس وقت ڈٹے رہے جب سب سپر ڈال چکے تھے۔
ان کی جرأت کی گواہی امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب ’’دی کانٹریکٹر‘‘میں اس طرح دی ہے: ’’جس وقت پاکستان کے صدر، وزیراعظم،آرمی چیف، حتیٰ کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی میری رہائی کے حق میں مہم چلانے اور مجھے بحفاظت رہا کروانے میں پیش پیش تھے اُس وقت یہی ستّر سالہ بوڑھا منور حسن تھا جومیری رہائی کے خلاف پورے پاکستان میں آگ لگانے کے درپے تھا اور سچ بات بتائوں تو مجھے آئی ایس آئی چیف کی حمایت سے زیادہ اس بوڑھے کی مخالفت سے ڈر لگ رہا تھا۔‘‘
شاید اسی وجہ سے اس کتاب کے سرورق پر جماعت اسلامی کے مظاہرے اور جھنڈے کو نمایاں انداز میں دکھایا گیا ہے۔
اس نحیف و نزار مگر بے خوف بوڑھے کی درویشی کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ دور کے گورنر شام محمد بن عروہ کی طرح جو جس اونٹ پرشام پہنچے تھے دورِ گورنری مکمل ہونے پر اسی پرسوار ہوکر واپس مدینہ لوٹ گئے۔ سید منور حسن بھی جس سوٹ کیس کے ساتھ منصورہ آئے تھے اسی کے ساتھ واپس کراچی لوٹ گئے۔ اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی میں لوگوں کو تحائف لانے سے منع کردیا۔ اس سادہ سی تقریب میں جو لوگ تحائف لے آئے وہ تمام جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دیئے۔ ان کا واحد اثاثہ شادمان ٹائون کراچی کا 100 گز کا وہ گھر تھا جو ان کی اہلیہ کے نام ہے۔ جبکہ اپنے معاملات چلانے کے لیے وہ اکثر مقروض رہتے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل، سیکرٹری جنرل اور امیر کے طور پر 22سال منصورہ میں مقیم رہے، اور یہ سارا عرصہ دارالضیافہ کے ایک کمرے میں ہنسی خوشی گزار دیا۔
منور حسن میں نفاست ایسی تھی کہ وضو کرکے نکلتے تو کپڑوں پر ایک چھینٹ نہ ہوتی۔ مسجد میں سب سے پہلے پہنچتے اور اس خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے کہ لوگ رشک کرتے۔ وضع داری کا یہ حال کہ جمعیت و جماعت کے عام کارکنوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کے کارکنان سے بھی پوری اپنائیت کے ساتھ ملتے۔ دینی، سیاسی، تحریکی اور سماجی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ایسے ایسے نکات نکال لیتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ گفتگو کی اس خوبی اور وسیع مطالعے نے انھیں ہمیشہ اپنے حلقوں میں نمایاں رکھا، لیکن اطاعتِ نظم کے ایسے پابند تھے کہ قاضی حسین احمد کے ساتھ سیکرٹری جنرل ہوتے ہوئے ہمیشہ انہیں آگے رکھتے اور خود میڈیا اور تشہیر کے دوسرے لوازم سے دامن بچانے میں مصروف رہتے۔
سید منور حسن کی شخصیت کا ایک خاصہ ان کی بزلہ سنجی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے برجستہ جملوں سے محفل کو ہلکا پھلکا کردیتے تھے۔ بائیں بازو کے معروف صحافی زبیر رانا مرحوم نے ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، جناب امیرالعظیم کے ذریعے ملاقات طے ہوگئی۔ زبیر رانا تو نہ پہنچ سکے مگر ہمیں منور صاحب سے استفادہ کا موقع مل گیا۔ اس ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ اسی ہوٹل میں حسین حقانی سے کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی تو حسین حقانی کہنے لگے ’’منور صاحب 1970ء کی دہائی اور آپ کی انتخابی مہم کے دوران ہم لوگ جو کچھ کرتے تھے کیا اب اس پر شرمندگی سی نہیں ہوتی!‘‘ منور صاحب نے برجستہ جواب دیا ’’میاں خاطر جمع رکھو، جوکچھ اب کررہے ہو اس پر کچھ عرصے بعد زیادہ شرمندہ ہوگے۔‘‘
ایک ایسا شخص جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہو کہ ایک زمانے میں پورا کراچی ’’صبح منور، شام منور… روشن تیرا نام منور‘‘ کے نعروں سے گونجتا ہو، جس کی انتخابی مہم آج کے صدرِ مملکت چلاتے ہوں، اس کے عاجزانہ مزاج اور درویشانہ بے نیازی کا یہ حال تھا کہ 1977ء کے انتخابات میں وہ پیپلزپارٹی کے جمیل الدین عالی کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ان انتخابات میں انہوں نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، مگر یہ انتخاب جیتنے اور ریکارڈ ووٹ لینے کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کو بہترین طریقے سے چلایا اور جماعت اسلامی میں بنیادی اہمیت کے حامل اقدامات کیے۔ اپنی امارت کے دوران انہوں نے چوکے چھکے تو نہ لگائے مگر وکٹ پر مضبوطی سے جمے رہے اور اننگ مکمل کرکے اپنے واحد اٹیچی کیس کے ساتھ واپس اپنے 100 گز کے گھر چلے گئے۔ وہ میڈیا سے مرعوب ہونے والے رہنما نہیں تھے۔ چنانچہ میڈیا انہیں بار بار متنازع بناتا رہا۔ وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے اور باقی سب کو پیش ہونا ہے۔ انہوں نے جن سوالات کو اٹھایا تھا جن پر انہیں متنازع بنایا گیا اُن کے جوابات اب تک نہیں آسکے۔کیا پوری قوم اور پوری ملّتِ اسلامیہ کے ذمے ان سوالات کے جوابات اب بھی قرض نہیں ہیں؟ اللہ پاک اس نفیس، درویش منش اور جرأت مند رہنما کی قبر کو نور سے بھر دے جس نے مرتے دم تک اقامتِ دین کا جھنڈا اٹھائے رکھا اور تندیِ بادِ مخالف سے گھبرانے کے بجائے دھیمے قدموں کے ساتھ منزل کی جانب بڑھتا رہا۔ ان کے جانے سے قحط الرجال کے سائے مزید گہرے ہوگئے ہیںکہ بقول اقبال
ملا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
صوفی کی طریقت ہے فقط مستیِ احوال
شاعر کی نوا مُردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستیِ کردار