آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
دو سال قبل 26 جون 2020ء کو اللہ کے شیر، ولیِ کامل، مردِ درویش سید منورحسن داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کی یادیں احباب کے دلوں سے کبھی محو نہیں ہوسکتیں۔ کیا لکھوں، یاد آتے ہیں تو قلبِ حزیں کو تڑپاجاتے ہیں۔
’’نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں‘‘… ہماری تو نصف صدی سے بھی زائد پچپن سال کی داستان ہے۔ سچ ہے یہ دنیا مسافر خانہ ہے۔ یہاں جو بھی آیا اسے چلے جانا ہے۔ خوش نصیب ہے وہ مسافر جو ہلکی پھلکی زندگی گزارے۔ اپنے ساتھ بھاری بھرکم بوجھ اٹھائے بغیر اپنی منزل سے ہم کنار ہوجائے۔ یہ خوش نصیب لوگ ہر دور میں دنیا میں پائے جاتے ہیں، مگر بہت قلیل۔ جو محاورہ ہے ’’آٹے میں نمک‘‘… یہ عظیم لوگ اس سے بھی کم ہوتے ہیں۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اے اہلِ دنیا! ان اللہ والوں کی بدولت تمھیں رزق دیا جاتا ہے اور انھی کی بدولت بارانِ رحمت نازل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کے نام کی قسم کھا لیں تو اللہ اسے جھوٹا نہیں ہونے دیتا۔‘‘
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز
عالمی شہرت رکھنے والی اس شخصیت نے دنیا کو کبھی اپنے دل میں بسنے نہیں دیا۔ وہ دنیا کا راکب تھا، مرکب نہیں۔ پانچ مرلے کے مکان میں پورے سکون اور مکمل اطمینانِ قلب کے ساتھ زندگی کے شب و روز بسر کیے۔ اس مکان سے پہلے اپنا خاندانی گھر سب بہن بھائیوں نے مشورے سے فروخت کردیا اور اپنے اپنے گھر تعمیر کر لیے۔ مردِ درویش سید منور حسن، نعمت اللہ خان صاحب کے مکان کے ایک چھوٹے سے حصے میں سالہا سال مقیم رہے۔ اس کے بعد اپنا گھر بنانے کا موقع آیا۔ وہ اگر چاہتے تو بہت دولت جمع کرسکتے تھے، مگر وہ حدیث کے مطابق اللہ کے ساتھ سودا کرچکے تھے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے ’’جان لو، اللہ کا سودا بڑا مہنگا ہے، اور جان لو کہ اس سودے کے بدلے میں اللہ کی طرف سے جنت ملتی ہے۔‘‘ (ترمذی،2450، عن ابی ہریرہؓ)
آج سید منور حسن جیسی کوئی شخصیت مجھے نظر نہیں آتی۔ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ کبھی صلے کی تمنا نہیں رکھتے تھے، نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتے تھے۔ حق بات ڈنکے کی چوٹ کہتے اور پھر اس پر ڈٹ جاتے۔ باطل کے ساتھ مصلحت اور ظلم کے سامنے مداہنت ان کی لغت ہی میں نہیں تھی۔ دارا و سکندر ان کے سامنے کیا تھے؟ وہ تو اللہ کے ہاتھ اپنا سب کچھ بیچ چکے تھے۔
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسد اللّٰہی!
سید منور حسن دہلی کے ایک علمی سید گھرانے میں اگست 1941ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ایک بہن اور تین بھائی تھے (بڑے بھائی سید شفیق حسن کراچی میں رہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر بھائی مشتاق حسن تھے جو فوت ہوچکے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ارشاد حسن ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں)۔ منور بھائی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کرکے دہلی سے کراچی آگیا۔ یہیں سید منور حسن کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ جامعہ کراچی سے سوشیالوجی اور علوم اسلامیہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اپنی سرگرمیوں کا آغاز دورِ طالب علمی میں نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں 1959ء میں اس طلبہ تنظیم کے کُل پاکستان صدر منتخب ہوئے۔ اللہ کو اپنے اس بندے کے بارے میںکچھ اور ہی منظور تھا۔
بائیں بازو کی سیاست اور سرگرمیوں سے جلد ہی یہ نفیس طبع نوجوان بیزار ہوگیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کے حسنِ خلق نے سوچنے پر مجبور کیا۔ پھر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں تک رسائی ہوئی تو بلاتردد اپنا راستہ بدل لیا۔ کشتیاں جلا کر آنے والا یہ مسافر پھر زندگی بھر اسی راستے پر قائدانہ کردار کے ساتھ رواں دواں رہا۔ سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ میں آئے تو اپنی ذہانت و قابلیت اور للہیت و صلاحیت کے نتیجے میں بہت جلد قیادت کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔ پہلے کراچی یونیورسٹی کے ناظم، پھر کراچی شہر کے ناظم اور اس کے بعد تین سال تک کُل پاکستان ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے کے بعد فوری طور پر جماعت کے رکن بنے اور کراچی جماعت کے نائب قیم، قیم، نائب امیر اور پھر امیر منتخب ہوئے۔ کراچی جماعت جو ان کے سابقین چودھری غلام محمد، پروفیسر غفور احمد، حکیم صادق حسین، محمود اعظم فاروقی جیسی عظیم شخصیتوں کی محنتِ شاقہ سے مضبوط بنیادوں پر کھڑی تھی، اسے مزید بلندیوں تک پہنچایا۔ اس عرصے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ عاملہ کے رکن بھی رہے۔ مرکزِ جماعت میں بطور نائب قیم ان کی ذمہ داری 1992ء میں لگی، پھر 1993ء سے 2009ء تک مرکزی سیکریٹری جنرل رہے۔ 2009ء سے 2014ء تک امیر جماعت کی ذمہ داری ادا کی۔
سید منور حسن نے جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں کئی بار حصہ لیا، مگر ایک ہی بار 1977ء کے انتخابات میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز سید منور حسن کو ملا۔ یہ نعرہ پورے ملک میں مقبول ہوا ’’صبح منور، شام منور، روشن تیرا نام منوّر‘‘
سید منور حسن نے عملی زندگی کا آغاز علمی سرگرمیوں سے کیا۔ ادارہ معارف اسلامی کراچی میں بطور ڈائریکٹر سالہا سال تک نہایت کامیابی سے ذمہ داری ادا کی۔ سید منور حسن کی شادی قدرے تاخیر سے ہوئی۔ ان کی اہلیہ آپا سیدہ عائشہ منور بھی تحریک اسلامی سے وابستہ اور حلقۂ خواتین میں کئی سال تک جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی قیمہ (ناظمہ) کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔ آپ خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی میں 2002ء میں منتخب ہوئیں۔ اللہ نے اس صالح جوڑے کو کئی بچے عطا فرمائے، مگر وہ پیدائش کے تھوڑے عرصے بعد فوت ہوجاتے رہے۔ ایک بیٹا عزیزم طلحہ اور بیٹی عزیزہ سیدہ فاطمہ منور کو رب رحمان و رحیم نے زندگی دی اور وہ اللہ کے فضل سے ان کے جانشین ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ طلحہ کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے جب کہ سید صاحب کی زندگی میں عزیزہ فاطمہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اللہ نے فاطمہ بیٹی کو سید صاحب کی وفات کے بعد بیٹا زید عطا کیا جو ماشاء اللہ اب ڈیڑھ سال کا ہوگیا ہے۔ اللہ اسے سلامت رکھے۔
سید منور حسن سے راقم کا پچپن سال ذاتی اور تحریکی تعلق رہا ہے۔ 1965ء میں جب کہ وہ ناظم اعلیٰ تھے پہلی بار لاہور میں ملاقات ہوئی، اور پھر زندگی بھر اس میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا۔ اتنے طویل عرصے تک کئی مجالس میں آرا کا اختلاف بھی رہا اور اتفاق بھی، مگر اللہ گواہ ہے اس مردِ درویش کے ساتھ باہمی محبت میں کسی تلخی اور رنجش کا شائبہ تک نہیں مل سکتا۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، یہ اس مردِ درویش کی خوبی تھی۔ وہ نہایت محبت کرنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ کبھی کبھار اپنی جیب سے معمولی تحفہ دیتے، تو دل اتنا خوش ہوتا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ مثلاً کبھی جرابوں کا جوڑا اور کبھی جیبی رومال… کبھی کوئی سویٹر اور کبھی کوئی بنیان۔ اسی طرح میں بھی اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی ہدیہ پیش کرتا، تو بخوشی قبول فرماتے۔ منصورہ میں قیام کے دوران کبھی کبھار ہم انھیں اپنے گھر بلاتے تو دعوتِ شیراز بخوشی قبول فرماتے۔ وہ دورِ جوانی ہی سے بہت کم خوراک کھانے کے عادی تھے۔ راتوں کو جاگنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
سید صاحب ایک بار ہمارے گائوں تشریف لائے، وہاں میں نے عرض کیا کہ یہاں تو اپنے گھر کا خالص دودھ اصل سوغات ہے۔ فرمایا: نہیں، ہم تو چائے پئیں گے۔ چائے کے اس عصرانے پر خوب مجلس جمی اور سب لوگوں نے سید صاحب کی باتوں کو بڑی محبت اور غور سے سنا۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو مرحوم بھائی کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ کراچی میں جن دنوں نعمت اللہ صاحب کے گھر میں مقیم تھے، کئی بار اصرار کے ساتھ مجھے اپنے ہاں ٹھیرایا۔ اس دور میں اکیلے ہوتے تھے اور اپنے ہاتھ سے چائے بناکر ناشتا کراتے تھے۔ اس درویشانہ ناشتے میں بہت لذیذ کیک رس ہوتے تھے، جن کا لطف آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ طویل تعلق کی وجہ سے بہت سی یادداشتیں ہیں جن کی تفصیل ہماری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ (جلد ہشتم) کے صفحہ 71تا95 میں محفوظ کردی گئی ہیں۔
میں یہ بات بہت سوچ سمجھ کر زبان و قلم سے نکال رہا ہوں، میرا دل گواہی دیتا ہے (اور دل سے دعا بھی نکلتی ہے) کہ سید منور حسن اللہ کے اُن خوش نصیب بندوں میں ہوں گے جن کے ساتھ رب رحمان و رحیم کی طرف سے حسابِ یسیر کا معاملہ کیا جائے گا۔ اس دور میں منور بھائی جیسی شخصیات کہاں ملتی ہیں؟ آپ کی وفات پر دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعزیت کررہے تھے۔ یہ نقصان پوری عالمی اسلامی تحریکوں نے محسوس کیا۔ شعر میں تصرف کے ساتھ عرض ہے ؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے ’’جہاں‘‘ کو ویران کر گیا!