کشمیر میں فلسطین ماڈل پر عمل درآمد جاری

اس وقت کشمیر ایک دہکتا ہوا تندور ہے جس پر بھارت کی ریاستی طاقت کا ڈھکن چڑھا ہوا ہے

بھارتی حکومت نے کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں پانچ گھر سرکاری تحویل میں لے لیے ہیں۔ بھارتی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پانچ گھر مالکان کی رضامندی سے عسکریت پسندوں کے ہائیڈ آوٹس کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس اقدام کے لیے حال ہی میں بنائے گئے قوانین کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس سے پہلے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے الزام میں گھروں کو گن پاوڈر ڈال کر اُڑا دیا جاتا تھا۔1990ء میں جب کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہوئی تو گھروں کو گن پاوڈر چھڑک کر جلانے یا بارود سے اُڑانے کے عمل کو انتقامی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے مکان جلتا یا منہدم ہوتا تھا مگر زمین بہرحال اصل مالک کی ہی ملکیت رہتی تھی۔ 5 اگست2019ء کے بعد بنائے جانے والے قوانین کے تحت اب مکان اور زمین دونوں ہی حکومت کے قبضے میں چلے جاتے ہیں، اور یہ وہ اصل منصوبہ ہے اور یہی کشمیر میں اپنایا گیا فلسطین ماڈل ہے جس سے کشمیریوں کی جائدادوں پر ریاست کا قبضہ مقصود ہے۔
کشمیر کی زمینیں، خالصہ سرکاری، متروکہ املاک پہلے ہی بھارت کے کنٹرول میں جا چکے ہیں۔ ان میں اُن مہاجرین کی املاک بھی شامل ہیں جو 1947ء کے بعد پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ ان میں سے بیشتر لوگوں کی زمینیں اصل مالکان کے نام پر عارضی طور پر محکمہ کسٹوڈین کے پاس تھیں۔ اب یہ زمینیں ازخود بھارت کی ملکیت بن چکی ہیں کیونکہ اس حوالے سے اسپیڈ بریکر کا کام دینے والے ریاستی قوانین ختم ہوگئے ہیں۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم بہت سے مہاجرین کی وہ زمینیں جو متروکہ املاک کے طور پر محفوظ تھیں اب بھارتی تصرف میں جا چکی ہیں۔ اس پر مستزاد مقامی لوگوں کی جائدادوں کو نئے حیلوں بہانوں سے ہتھیانے کی پالیسی ہے۔ ساٹھ سال پہلے اسی طرح کا کھیل اسرائیل نے فلسطین میں شروع کیا تھا جس نے فلسطین کو ایک افسانہ اور اسرائیل کو سب سے بڑی زمینی حقیقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
گھروں اور جائدادوں کو ہتھیانے کی کشمیر سے شروع ہونے والی یہ روایت اب بھارت کے طول و عرض تک دراز ہوگئی ہے جہاں روایتی مظاہرے کرنے کی بنا پر گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کی سوشل ورکر آفرین فاطمہ کے گھر کی تباہی اس وقت دنیا بھر میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں اس وقت فلسطینیوں اور کشمیریوں کے گھر گرائے، جلائے اور قبضے میں لیے جارہے ہیں، اور دلخراش حقیقت یہ ہے کہ دونوں مقامات پر اس سلوک کے حق دار صرف مسلمان ہیں۔ اس پر بھارت کی انسانی حقوق کی معروف علَم بردار ارون دھتی رائے نے یہ فقرہ چست کیا ہے کہ ’’بلڈوزر پر سوار ہندوستان تیزی سے ہندو فسطائیت کی راہ پر گامزن ہے‘‘۔ 5 اگست 2019ء کے بعد کشمیر میں بھارت کو جو لامحدود اختیارات حاصل ہوئے اُن کے تحت ہر وہ قدم اُٹھایا جارہا ہے جس سے کشمیر میں ٓآبادی کا تناسب تبدیل ہونے میں مدد مل سکے۔ اس سفر میں بھارت کو کوئی رکاوٹ درپیش نہیں۔ مزاحمت پسند قوتوں کا وجود ہی مٹادیا گیا ہے۔ عوام پر بدترین فسطائیت مسلط ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی بھارت نواز جماعتیں پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے نام پر ایک نمائشی سا اتحاد بناکر فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ ان حالات میں بھارت میں قومی سلامتی کے مشیر اور کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کے عمل کے مرکزی کردار اجیت دووال نے ایک انٹرویو میں بہت اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ پانچ اگست کے بعد بننے والے ماحول کے نتیجے میں کشمیری اب پاکستان یا دہشت گردی کے حامی نہیں رہے۔ اس فیصلے کے بعد کشمیریوں کا مزاج اور موڈ بدل گیا ہے۔ اجیت دووال کا یہ دعویٰ کہ ”کشمیری پاکستان کے حامی نہیں رہے“ مان بھی لیا جائے تو پھر انہیں یہ دعویٰ کرنے میں کیا تامل تھا کہ کشمیری اب بھارت کے حامی ہوگئے ہیں! حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان یا حریت پسندوں کے حامی نہ رہنے کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ کشمیری بھارت کے حامی ہوگئے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں۔ اسی لیے اجیت دووال کو یہ دعویٰ کرنے میں مشکل پیش آئی۔
دو سال ہونے کو ہیں، بھارت کشمیر میں مارشل لا نافذ کرکے عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی زعفرانی قسم کی کلاس متعارف کرانے اور اسے عوام میں اعتبار بخشنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر نتیجہ صفر ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر میں فوج کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ کشمیری پنڈتوں کو واپس گھروں میں لاکر بسانے کے دعوے ہوا ہوگئے ہیں۔ نوکریوں کے سلسلے میں آئے ہوئے پنڈت احتجاج کرکے واپس جموں اور دیگر علاقوں میں تبادلے کرنے کے بعد واپس جا چکے ہیں۔ پنڈتوں کی ٹارگٹ کلنگ نے آبادکاری کے اس منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت کشمیر ایک دہکتا ہوا تندور ہے جس پر بھارت کی ریاستی طاقت کا ڈھکن چڑھا ہوا ہے۔ جس دن یہ ڈھکن اُٹھا دیا گیا، تندور کے شعلے ایک بار پھر فضائوں میں بلند ہوں گے۔ اس کا کچھ اندازہ ’’دی پرنٹ‘‘ میں بھارتی صحافی شیلا بھٹ کے مضمون سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ایک جملہ یوں درج ہے: ’’کشمیر وادی میں لوگ خاموش ہیں، مگر وہ زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ سڑکوں پر پُرتشدد واقعات کا رونما نہ ہونا نارمل نہیں۔‘‘ اسی طرح ایک اور صحافی کے حوالے سے مضمون میں کہا گیا کہ عوام نے اپنی آواز بلند کرنا اس لیے چھوڑ دی ہے کہ وہ چاہتے ہیں پہلے لیڈر بولیں۔ انہیں بھارت کے یوپی ماڈل کا خوف ہے۔ جو کچھ آج یوپی میں ہورہا ہے وہ کشمیر پر اپنے اثرات چھوڑ رہا ہے۔ پاکستان کے چودہ سو حمایتیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اب جنازوں کے جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سخت اقدامات کے باعث سنگ باری ختم ہوچکی ہے۔ سید علی گیلانی کی وفات کے موقع پر امن وامان کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ یاسین ملک کو سزائے عمر قید ہوئی تو معمولی سا احتجاج ہوا، حتیٰ کہ نوپور شرما کے خلاف بھی احتجاج کے دوران کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔