پشتون قوم پرست اور بلوچ قوم پرست دونوں مسلم لیگ (ن) کے تانگے میں سوار ہیں
بلوچستان میں سیاست تضادات کا شکار ہے، موجودہ حکومت اندرونی خلفشار میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اب وزیراعلیٰ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا ہے، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ اسمبلی حقیقی حزبِ اختلاف کے بغیر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ مرکز میں قوم پرست پارٹیاں حکومت کا حصہ ہیں، اور اب تو جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی بھی مسلم لیگ (ن) کی گاڑی میں سوار ہیں، کل تک قوم پرست پارٹیاں مسلم لیگ (ن) کو ’’پنجابی استعمار‘‘ کے لقب سے یاد کرتی تھیں اور جلسوں میں آسمان سر پر اٹھا لیا کرتی تھیں۔ پشتون قوم پرست اور بلوچ قوم پرست دونوں مسلم لیگ (ن) کے تانگے میں سوار ہیں اور اقتدار کی محبت میں ماضی کو فراموش کردیا ہے۔ جام کمال کے دورِ حکومت میں ’باپ‘ کے وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے جمعیت اور بی این پی ’باپ‘ کے تانگے میں سوار ہوگئی تھیں، جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ساتھ سردار اختر مینگل کی پارٹی سراپا احتجاج تھی اور سرفہرست مطالبہ یہ تھا کہ ہمارے حلقے کی اسکیمیں ہمیں دی جائیں۔ یہ لوگ احتجاج کرتے کرتے ہنسی خوشی تھانے پہنچ گئے اور مطالبہ کیا کہ ہمیں گرفتار کیا جائے، لیکن جام کمال نے یہ کمال کیا کہ انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا، اور حزبِ اختلاف کے رہنمائوں نے، جن میں ملک سکندر خان بھی شامل تھے، تھانے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے ڈال دیے، جبکہ جام حکومت نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی۔ پھر کھیل شروع ہوگیا اور جام کمال کو اپنی وزارتِ اعلیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس طرح عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے اور حزبِ اختلاف حکومت کے ساتھ شیر و شکر ہوگئی۔ اب بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں حقیقی حزب اختلاف عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی ہے، جبکہ بلوچستان میں اس کا وجود حزبِ اختلاف کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ وہ حکومت میں وزارتوں سے لطف اٹھا رہی ہے۔ عبدالمالک بلوچ کی پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی مرکزی سطح پر مسلم لیگ(ن) کی گاڑی میں سوار تھے۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی حکومت سے باہر ہے کہ انتخابات میں اس پر سیاسی طور پر جھاڑو پھیر دی گئی اور پشتون خوا پر بھی ایسی ہی جھاڑو پھری، مگر ایک ممبر نصراللہ زیرے اس طوفان سے بچ گئے اور اسمبلی میں موجود ہیں۔ موجودہ اسمبلی عجیب و غریب اسمبلی ہے۔ پاکستان کی سیاست نے ایک ایسا موڑ لیا ہے کہ سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، اور سیاست میں اصولوں کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ بلوچستان میں جب نواب ثنا اللہ زہری وزیراعلیٰ تھے تو اُن کے خلاف کھیل کھیلا گیا، پی پی پی کے مانڈوی والا نے ایک مقامی ہوٹل میں ڈیرے ڈال دیے، انہوں نے تھیلی کے منہ کھول دیے اور بکنے والوںکو خریدا گیا۔ نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے بعض ارکان نے اپنی بولی خود لگائی، اور نواب ثنا اللہ زہری جو ایک دبنگ نواب ہیں، اس کھیل سے اتنے خوف زدہ ہوئے کہ اپنی جیب میں استعفیٰ لیے گورنر ہائوس پہنچ گئے اور سرکار کے دربار میں بڑے احترام سے رکھ کر خاموشی سے لوٹ گئے، اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد اُس پارٹی میں شامل ہوگئے جس نے ان کی وزارتِ اعلیٰ پر شب خون مارا تھا۔
ابوالکلام آزاد مرحوم نے کہا تھا: ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔اس حقیقت کا اظہار بلوچستان کی سیاست میں نظر آرہا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ وقفے وقفے سے کچھ پس پردہ نظر آتا ہے لیکن وہ ہاتھ سامنے نظر نہیں آتا۔
بلوچستان کی سیاست خاص طور پر بلوچ سیاست میں قبائلی انتقام کی کشمکش بڑی واضح نظر آتی ہے اور جب موقع ملتا ہے بدلہ لے لیا جاتا ہے۔ اب چونکہ قبائل کے سربراہ اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں اس لیے سیاست میں بدلہ اس طرح لیا جاتا ہے کہ وزارتِ اعلیٰ کی کرسی ہاتھوں سے کھینچ لی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی کھیل جام کمال کے ساتھ کھیلا گیا اور انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ جام کمال والیِ ریاست اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، موجودہ اسمبلی میں ان کی حیثیت ایک دبنگ شخصیت کے طور پر نظر آتی ہے انہیں ناگریزی زبان پر عبور حاصل ہے، اس لیے وہ فائلوںکو پڑھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ افسر شاہی انہیں دبا نہیں سکی اور نہ ہی وہ اپنے وزیروں کے آگے جھکے، اس لیے ان کی پارٹی کے وزرا نے گٹھ جوڑ کرکے انہیں اقتدار سے نکال باہرکیا۔ انہوں نے ایک بار پھر کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
جام کمال کو جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پاکستان کی افسر شاہی کی کتاب میں سر اٹھانے والوں کی سزا یہ ہے کہ بعض اوقات انہیں اقتدار سے اور بعض دفعہ اپنے سر سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ ہے۔ عمران خان کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا وہ نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ بلوچستان میں اگر سیاست کی شطرنج کو غور سے دیکھا جائے تو پس پردہ کھیل کچھ کچھ نظر آجائے گا۔ اب بلوچستان کی سیاست سمٹ کر پاکستان کے دائرے میں آگئی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ افغانستان میں دو سامراجی اور شیطانی سپر پاورز نے شکست کھائی، اب وہ کھیل ختم ہوچکا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم پرست سیاست مسلم لیگ (ن) کے دامن میں پناہ گزین ہوگئی۔ بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاست کا یہ تاریخی المیہ ہے، اور انہیں خود بھی حیرت ہوتی ہوگی کہ کہاں سے سیاسی سفر شروع ہوا تھا اور کہاں پہنچ گیا۔ سیاست بے رحم ہوتی ہے اور اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔