اسٹیٹ بینک اور 4 نجی بینکوں کا اعلان جنگ،شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تشکیل پائے اور رائج ہوئے آئندہ برس نصف صدی مکمل ہوجائے گی، لیکن ملک کا بنیادی معاشی نظام و ڈھانچہ ہنوز بحث و مباحثے اور ہاں ناں کی گردان سے باہر نہیں نکل پایا جس کا مرکزی نقطہ سود سے پاک بینکاری نظام ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس محمد انور خان، نور محمد مسکان زئی اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز ملک کے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کے حوالے سے دائر کردہ درخواستوں پر تین عشروں سے زیر سماعت مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد ربا (سود) کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور ان کی شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ تمام قرضوں کا لین دین اسلامی قوانین کے تحت کیا جائے اور31 دسمبر 2027ء تک معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔ پاکستان کے مرکزی بینک اور چار دیگر نجی بینکوں نے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ اپیل میں خزانہ اور قانون کی وفاقی وزارتوں اور چیئرمین بینکنگ کونسل کو فریق بنایا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے فیصلے کے خلاف اپیل سلمان اکرم راجا نے دائر کی۔ پانچوں بینکوں نے عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے میں سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھا گیا، لہٰذا فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کی حد تک ترمیم کی جائے۔ اسٹیٹ بینک کی اپیل میں یہ جو الفاظ’’ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھا گیا‘‘ لکھے گئے ہیں، یہ قانون کے لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اب جو سپریم کورٹ میں اس اپیل کی سماعت ہوگی تو سارا کیس انہی الفاظ کے گرد گھومے گا۔
اس کیس میں سپریم کورٹ کا ریمانڈ آرڈر کیا ہے؟ اس پر غور کی ضرورت ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اُس وقت کے بینچ کے ججوں نے جو فیصلہ دیا تھا اسے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس شیخ ریاض احمد کی سربراہی میں قائم بینچ نے واپس کردیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے دنیا بھر کے جید علمائے کرام سے رائے طلب نہیں کی لہٰذا ضروری ہے کہ اس اہم کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے دنیا بھر سے جید علمائے کرام اور مفتی صاحبان سے ان کی رائے معلوم کی جائے اور یہ رائے فیصلے کی بنیاد ہونی چاہیے۔ اسٹیٹ بینک نے اسی نکتے کو جواز بناکر اپیل کی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ کے ریمانڈ آرڈر کے مینڈیٹ کو نظرانداز کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اپیل کے ذریعے اب اس کی رائے مانگی گئی ہے۔ یہ بینک کی اپیل کا نچوڑ اور عرق ہے، اب دیکھتے ہیں کہ جب اس کی سماعت ہوگی تو یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ بہرحال وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے 28 اپریل 2022ء کو جاری کردہ فیصلے میں ربا (سود) کی ہر قسم کو حرام اور اس کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی گئی تھی اور 31 دسمبر 2027ء تک تمام قوانین کو سود سے پاک اسلامی اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مذکورہ فیصلہ آنے کے بعد فوری ردعمل میں تو اسے خوش آئند قرار دیا تھا لیکن اب مرکزی بینک نے متعدد دیگر بینکوں کے ساتھ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک حکومتِ پاکستان کا ادارہ ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کے مرکزی بینک کا کردار ادا کرتا ہے اور اندرون ملک تمام بینکاری نظام کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ بینکاری نظام سے متعلق تمام ضوابط پر عمل درآمد کی نگرانی وزارتِ خزانہ کے ذمے ہے۔ اتحادی حکومت خود بھی آئین کی پاس داری کرنے کی دعویدار ہے، اور آئین میں واضح طور پر تحریر ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا، اس طرح یہ تضادات خود حکومت کی حیثیت کو متنازع بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت خود واضح کرے کہ وہ اس ملک میں کون سا نظامِ معیشت رائج کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت ایک طرف آئین میں درج قرآن و سنت کے احکامات کو فوقیت دینے والے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے شرعی فیصلہ دے رہی ہے اور دوسری جانب ریاست کا مرکزی بینک ہی اس فیصلے کے کچھ نکات کی وضاحت مانگ رہا ہے۔ اس اپیل میں چونکہ وزارتِ قانون کو فریق بنایا گیا ہے لہٰذا حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں واضح کرے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر اس کا مؤقف کیا ہے اور وہ ملکی معیشت کو کس ڈھب پر چلانا چاہتی ہے۔ فیصلے کے خلاف اب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے اور اس کی سماعت میں عدلیہ جو بھی رخ اختیار کرے گی وہ ملکی معیشت اور سیاست کے علاوہ ملک کے سماجی ماحول پر بھی اثرانداز ہوگا۔
اس کیس کی جلد اور تیز سماعت کے لیے جماعت اسلامی نے مکمل پہرہ دیا ہے، جماعت اسلامی کی قیادت ہر سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود ہوتی رہی ہے۔ جس روز اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا اُس روز جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، نائب امراء میں لیاقت بلوچ و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ جماعت اسلامی کی مسلسل کاوشوں سے اس مقدمے کا فیصلہ ہوا اور آج بھی جماعت اسلامی پوری طرح متحرک ہے اور اس اپیل کے خلاف جماعت اسلامی نے سخت ردعمل دیا ہے، اور فیصلہ تبدیل کیے جانے کی صورت میں جے یو آئی (ف) کے علاوہ وفاق المدارس کے رہنما مولانا حنیف جالندھری نے بھی مزاحمت کا اعلان کیا اور کہا کہ علامہ تقی عثمانی کی سربراہی میں علمائے کرام کی ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو اس کا مکمل جائزہ لے گی۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے ردعمل میں جو کچھ کہا ہے وہ پوری قوم کی آواز ہے، ان کا کہنا ہے کہ شہبازشریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے سود کے خاتمے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں لائحہ عمل دینے کے بجائے اسٹیٹ بینک اور سودی بینکوں کے پیچھے چھپ کر اسلامیانِ پاکستان کے دینی جذبات کو مجروح کیاہے۔ حکومت عوام کو تو ناراض کرچکی، لیکن اللہ کی ناراضی ملک و ملّت کے لیے بہت مہلک ہوگی، وفاقی حکومت فوری طور پر عدالت عظمیٰ میں دائر پٹیشنز کے اقدامات روک دے، واپس لے اور پوری قوم عدالت عظمیٰ سے اپیل کرتی ہے کہ سودی نظام کی حفاظت کی غیر آئینی، قرآن و سُنت سے متصادم پٹیشنز کو مسترد کردے اور حکومت کو پابند کرے کہ آئین کے مطابق قومی معیشت کو ربا فری بنائے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر مرحلہ وار عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ اسلام کا معاشی نظام ہی عالمی اداروں سے ڈائیلاگ اور قومی وقار سے ہم آہنگ آزاد و خودمختار پالیسی بنانے کا مضبوط چانس ہے۔ حکومت اپنی نااہلی، اسلام بے زاری، سودی قرضوں اور کرپشن کی تباہ کن عادات سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا نہ کرے۔ حکومت کو مساجد، مدارس، منبر ومحراب، چوکوں چوراہوں سے بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا۔
ملک و ملت کے بحرانوں کا علاج اسلام کی حکمرانی ہی ہے۔ جماعت اسلامی کا دوٹوک اعلان اور عزم ہے کہ وطن عزیز کی اسلامی، نظریاتی، جغرافیائی اور ایٹمی صلاحیت کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ عوام کو لاوارث نہیں چھوڑا جائے گا، عوامی مسائل پر پوری طاقت سے احتجاج کرتے اور آواز بلند کرتے رہیں گے۔ عوام منظم طاقت سے حالات کو بدلیں گے۔ اقتصادی بحرانوں کا علاج آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، کشکول پھیلانے اور ذلت آمیز شرائط کے سامنے سرنڈر کرنے سے نہیں بلکہ سود کے خاتمے، اسلام کے معاشی نظام، خود انحصاری، خودداری، قومی وسائل، انسانی صلاحیتوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرکے ہی ممکن ہے۔