حکمران قوم کے ’’باپ‘‘ کی طرح ہوتے ہیں، مگر پاکستان کے حکمران قوم کے ’’پاپ‘‘ کی طرح ہیں۔ حکمران قوموں کو بیدار کرتے ہیں، پاکستان کے حکمران قوم کو سلاتے ہیں۔ حکمرانوں سے قوم میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے مگر پاکستان کے حکمران اپنی قوم میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ حکمران قوم کو زیادہ سے زیادہ آزاد کرتے ہیں، پاکستان کے حکمران قوم کو زیادہ سے زیادہ غلامی میں مبتلا کرنے کے لیے متحرک رہتے ہیں۔
قوموں کی سب سے بڑی متاع ان کا نظریہ ہوتا ہے۔ نظریے کی طاقت نے ہمیشہ دنیا میں انقلاب برپا کیے ہیں۔ سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ ہے مگر اس نے روس اور چین میں انقلاب برپا کیا۔ جمہوریت بھی انسانی ساختہ نظریہ ہے۔ جمہوریت یا عوامی قوت نے فرانس میں انقلاب برپا کیا۔ جمہوریت نے صرف فرانس ہی میں نہیں بلکہ پورے یورپ میں بادشاہت کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔ پاکستان کا نظریہ اسلام ہے۔ اسلام نے پاکستان کو تخلیق کیا۔ یہ بات اس اعتبار سے حیرت انگیز تھی کہ مغرب کے دانش ور انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں یہ کہتے نظر آتے تھے کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا، اب اُس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، مگر بیسویں صدی کے وسط میں اسلام برصغیر میں اتنا طاقت ور بن کر ابھرا کہ اس نے پاکستان کے نام سے جدید دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست خلق کر ڈالی۔ اسلام کی طاقت نے پاکستان کو عدم سے وجود میں لاکر دکھا دیا۔ اسلام کی طاقت نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا، اسلام کی طاقت نے افراد کے وکیل کو ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ، ایک ملّت اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔ تحریکِ پاکستان سے پہلے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ ایک بھیڑ تھی، مگر اسلام کی طاقت نے بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھالا۔ اسی لیے قائداعظم پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا کرتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہم پاکستان میں اسلام کو نافذ کرکے ثابت کریں گے کہ اسلام چودہ سو سال پرانا مذہب نہیں بلکہ وہ جتنا قدیم ہے اتنا ہی جدید بھی ہے، اس نے ماضی میں جو کارنامے انجام دیئے ہیں انہیں ایک نئے اسلوب میں حال کے اندر بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ اسلام عہدِ حاضر میں ایسے کارنامے انجام دے سکتا تھا تو وہ پاکستان کو دنیا کی دس بڑی طاقتوں میں سے ایک طاقت، اور دنیا کی دس قوی قوموں میں سے ایک قوم بناسکتا تھا۔ اسلام پاکستان میں تخلیق و ایجاد کی ایک داستان رقم کرسکتا تھا۔ اسلام پاکستان کو پورے برصغیر اور پوری امتِ مسلمہ کا محافظ بناکر ابھار سکتا تھا۔ اسلام پاکستانی قوم کو تعلیم اور شعور کے زیور سے آراستہ کرسکتا تھا۔ اسلام پاکستانی قوم کو نظریاتی، عسکری، معاشی اور سماجی طور پر اتنا مضبوط بنا سکتا تھا کہ اسے کسی امریکہ کیا، روس اور کسی چین کی مدد کی ضرورت نہ ہوتی۔ اسلام امکانات کا سمندر ہے اور وہ مسلمانوں کو بھی امکانات کا سمندر بناسکتا ہے۔ اقبال کا یہ بے مثال شعر اسلام کے امکانات کا کتنا غیر معمولی اظہار ہے۔ اقبال نے ’جوابِ شکوہ‘ میں خدا کی زبان سے کہلوایا ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال کا یہ عظیم الشان شعر صرف شعر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت کا ایک معروضی اظہار ہے۔ ظاہر ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کا مطلب صرف آپؐ پر درود بھیجنا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد آپؐ کے اسوۂ حسنہ کو بہ تمام و کمال بسر کرکے دکھانا ہے۔ عہدِ خلافت میں مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرکے دکھائی تو وہ آدھی سے زیادہ دنیا کے مالک بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے دنیا کا سب سے بڑا علمِ تفسیر پیدا کرکے دکھایا۔ انہوں نے علمِ حدیث کے دریا بہادیئے۔ فقہ کی اتنی بڑی روایت پیداکی کہ پوری انسانی تاریخ میں جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ انہوں نے شاعری کی ایسی روایت پیدا کی کہ ساری دنیا کی شاعری مسلمانوں کی فارسی اور اردو شاعری کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نہ صرف یہ بلکہ مسلمان جدید علوم یعنی فلسفے، منطق، طبیعیات، فلکیات، حیاتیات اور عمرانیات میں بھی کئی سو سال تک دنیا کے امام بن کر کھڑے ہوگئے۔ مولانا مودودیؒ نے بھی ایک جگہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر سے ملتی جلتی بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی دعوت لے کر اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کو پڑھیں، اسے سمجھیں، اسے پسند کریں، اس کی تبلیغ کا حق ادا کریں اور اس کے نظام کو دنیا پر غالب کرکے دکھائیں۔ سنت کی دعوت لے کر اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان سنتِ رسولؐ کا مصداق، اس کا نمونہ بن کر دکھائیں۔ پاکستان کی پشت پر ایسی تخلیقی اور معجزاتی قوت موجود تھی کہ پاکستان ان تمام چیزوں کی علامت بن کر ابھر سکتا تھا۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان میں اسلام کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک کیا۔ انہوں نے اسلام کی انقلابی روح کو معاشرے میں پروان ہی نہ چڑھنے دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، مگر قائداعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی پاکستان کو سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں۔ وہ تو قائدِ ملّت لیاقت علی خان زندہ تھے چنانچہ قراردادِ مقاصد منظور ہوگئی، لیکن قراردادِ مقاصد کو کوئی آئینی اور قانونی تحفظ حاصل نہ تھا، چنانچہ قراردادِ مقاصد آنے کے باوجود پاکستان ایک زندہ اسلامی جمہوریہ نہ بن سکا۔ جنرل ایوب خود سیکولر تھے اور انہوں نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے قرآن سے متصادم عائلی قوانین معاشرے پر مسلط کیے۔ انہوں نے سود کو حلال قرار دینے کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی قیادت میں ایک مہم چلائی۔ انہوں نے آئین سے لفظ ’اسلامی‘ نکلوایا۔ اسلام دنیا میں سماجی اور معاشی انصاف اور احترامِ آدمیت کا سب سے بڑا علَم بردار ہے، مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کی 56 فیصد بنگالی آبادی پر سیاسی، معاشی اور سماجی ظلم کی انتہا کردی۔ اس طبقے نے مشرقی پاکستان پر سیاسی، معاشی اور سماجی انصاف کے تمام دروازے بند کردیئے۔ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے اور 1960ء تک وہ فوج میں ایک فیصد بھی موجود نہ تھے۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان میں بحران پیدا ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی تعداد 8 سے 10 فیصد تھی۔ ملک کی طاقت ور ترین فوج پر پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کا قبضہ تھا اور انہوں نے بنگالیوں کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے مگرانہیں مساوات یا Parity کے اصول کے تحت 50 فیصد بنادیا گیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ پاکستان کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری تو فوج اور بھٹو دونوں نے عوامی لیگ کی اکثریت کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہ سیاسی ظلم کی انتہا تھی اور اسلام کی شدید خلاف ورزی تھی، چنانچہ اسلام کے اصولِ انصاف کی تذلیل کی وجہ سے پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر ابھرے۔ جس طرح جرنیلوں کو پاکستان جہیز میں نہیں ملا تھا اسی طرح بھٹو کو بھی پاکستان جہیز میں نہیں ملا تھا۔ چنانچہ وہ پاکستان کے نظریے کے خلاف سازش کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے تھے، مگر انہوں نے فضا میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ اچھال دیا۔ حالانکہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے۔ بھٹو نے ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی بلند کیا۔ یہ بھی ایک دھوکہ تھا اس لیے کہ بھٹو کی روٹی بھی خیالی تھی، کپڑا بھی خیالی تھا اور مکان بھی خیالی تھا، مگر اس نعرے کا نظریاتی ضرر اس سے بھی زیادہ تھا۔ یہ نعرہ لگا کر بھٹو نے اعلان کیا کہ انسان کوئی روحانی، اخلاقی یا علمی وجود نہیں ہے بلکہ وہ صرف جسمانی حقیقت ہے اور صرف روٹی، کپڑے اور مکان سے Define ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کے آدرش کی کھلی تذلیل تھی۔ جس طرح پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کی تکون نے مشرقی پاکستان پر سماجی اور معاشی انصاف کے دروازے بند کرکے اسلام کے اصولِ انصاف کی نفی تھی اسی طرح بھٹو نے سندھ میں کوٹہ سسٹم متعارف کراکے مہاجروں پر معاشی اور سماجی انصاف کے دروازے بند کردیئے۔
بھٹو کے بعد جنرل ضیا الحق کا زمانہ آیا۔ جنرل ضیا نماز روزے کے پابند تھے اور انہوں نے ملک میں بہت سے اسلامی کام کیے، مگر جنرل ضیا الحق کا اسلام اُن کے سیاسی مفادات کے تابع تھا، چنانچہ جنرل ضیا گیارہ سال میں بھی پاکستان کو اُس کے نظریاتی تشخص سے منسلک نہ کرسکے۔ بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایک بلا بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے کے لیے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کی اور اسلام کے نظریۂ اخوت کے پرخچے اڑا دیئے۔ اسلام مسلمانوں کو زبان اور جغرافیے کے تعصبات سے بلند کرتا ہے، جنرل ضیا الحق نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کراچی اور حیدرآباد کو لسانی تعصب کے طوفان میں پھنسادیا۔
بلاشبہ 1973ء میں ملک کو ایک اسلامی آئین مل گیا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا۔ وہ اسلام کو آئین سے نکلنے اور ریاست کے نظام پر اثرانداز ہونے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ قرآن کہتا ہے سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے، اور پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ 70 سال سے سودی نظام کی صورت میں خدا اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام پر مغرب کی مہر لگی ہوئی ہے، ہمارے عدالتی نظام کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ پر عریانی و فحاشی کے دریا بہہ رہے ہیں، مگر پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں کو یہ دریا نظر ہی نہیں آتے۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے چنانچہ پاکستان کی سیاست کو بھی نظریاتی ہونا چاہیے، مگر یہ سیاست اسلام اور کردار و عمل کی عظمت کے بجائے جرنیلوں کا طواف کررہی ہے۔ ایجنسیوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس کا تشخص اسلام کیا، پاکستانیت تک نہیں۔ نواز لیگ خود کو ملک کی سب سے بڑی جماعت کہتی ہے مگر وہ ایک ’’پنجابی پارٹی‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ پیپلزپارٹی کبھی ایک وفاقی جماعت تھی مگر اب وہ ایک ’’سندھی پارٹی‘‘ ہے۔ ایم کیو ایم صرف مہاجروں کی جماعت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پر اسلام کی عصبیت کا نہیں دیوبندیت کی عصبیت کا سایہ ہے۔ ٹی ایل پی اسلامی عصبیت کے بجائے بریلویت کی عصبیت کا استعارہ ہے۔ صرف جماعت اسلامی ملک کی واحد نظریاتی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اپنی ساخت میں وفاقی اور قومی جماعتیں بھی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ سیاست انبیا کا ورثہ ہے، مگر پاکستان کے جرنیلوں اور بڑی سیاسی جماعتوں نے اسے سرمائے اور الیکٹ ایبلز کا کھیل بنادیا ہے۔
یہ اسلام کی روح ہے، اس کی ساخت ہے کہ کوئی اسلامی معاشرہ خدا اور رسولؐ کے سوا کسی کی غلامی قبول کرہی نہیں سکتا۔ سپر پاور کی بھی نہیں۔ مگر پاکستان کے پست مزاج جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں نے ایک سطح پر ہمیں امریکہ کا غلام بنادیا ہے۔ ہم معاشی طور پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور چین کے غلام بن گئے ہیں۔ اقبال نے صاف کہا ہے:
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
مصورِ پاکستان اقبال کے لیے امریکہ اور آئی ایم ایف کیا تقدیر بھی اس قابل نہیں کہ وہ مومن کو اپنا غلام بنالے، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو 60 سال سے امریکہ کی کالونی بنایا ہوا ہے۔ امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطوں میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں کو آگاہ کررہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کی یہ حرکت امریکہ کے جوتے چاٹنے کے مترادف تھی۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب نے پاکستان کی سیاست، دفاع اور معیشت کو ایسا ’’امریکہ مرکز‘‘ یا American Centric بنادیا کہ آج تک ہمیں امریکہ سے نجات نہیں مل سکی۔ امریکہ کی غلامی کا سب سے ہولناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بحیثیت ایک قوم ہم نے اپنی خودی کھودی۔ بدقسمتی سے ہمارے جرنیل امریکی ایجنٹ ہیں، بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما امریکی ایجنٹ ہیں، ہماری بیورو کریسی امریکیوں کی طرف دیکھتی ہے، یہاں تک کہ امریکہ کی غلامی پر ہمارے ذرائع ابلاغ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کی، نظریے اور قوم سے غداری کی شرمناک تاریخ/شاہنواز فاروقی زیر بحث موضوع کے حوالے سے ہمیں ایک حدیث شریف یاد آرہی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ایسی غربت یا عسرت سے اللہ کی پناہ طلب کرو جو انسان کو کفر تک لے جاسکتی ہے۔ ہمارے جرنیل اور ہمارے سیاست دان 70 سال سے فائیو اسٹار زندگی بسر کررہے ہیں، مگر انہوں نے ملک کے کروڑوں لوگوں کو ایسی غربت اور عسرت میں مبتلا کیا ہوا ہے جو انسان کو کفر تک لے جاسکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے، اس آبادی میں سے 8 سے 10 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے دو سے تین وقت پیٹ بھرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مہنگائی کی تازہ ترین لہر ایسی ہے کہ اب 20 یا 25 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے خاندان ہی کے لیے نہیں 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے خاندان کے لیے بھی زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہم جن فلیٹس میں رہتے ہیں وہ 40 سال پرانے ہیں اور ان کا ماہانہ کرایہ 25 ہزار روپے ہے۔ 10 ہزار روپے یوٹیلٹی بلز میں چلے جاتے ہیں، اشیائے خورونوش کے لیے بھی ایک ماہ میں 20 سے 25 ہزار روپے درکار ہیں۔ بیماری اور شادی بیاہ کے معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ چنانچہ اب 50 ہزار روپے ماہانہ میں بھی ایک متوسط سطح پر زندگی بسر نہیں ہوسکتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے جرنیلوں اور ہمارے سیاسی حکمرانوں نے متوسط طبقے تک کو معاشی پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا ہے۔ حالات یہی رہے تو متوسط طبقہ بھی بہت جلد ایسی غربت اور عسرت کا شکار ہوسکتا ہے جو انسان کو کفر تک لے جانے والی ہوتی ہے۔ جو ریاست ساری دنیا میں خیر اگانے کے لیے وجود میں آرہی تھی، اب اس ریاست میں حکمران طبقہ کروڑوںلوگوں کے لیے کفر کاشت کررہا ہے۔