اللہ اور اس کے رسولﷺ کیخلاف کھلی جنگ کا اعلان

خوائے بدرا بہانہ بسیار۔ وہی ہوا جس کا موجودہ حکمرانوں سے خطرہ تھا، ریاست کے سرکاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور چار تجارتی بنکوں نے وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے سود کو غیر شرعی، غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر اس کے خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی معاشی اور بلاسود بینکاری نظام نافذ کرنے کا حکم عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا ہے۔ حکومت نے اول روز ہی سے وفاقی شرعی عدالت کے اس انتہائی اہم اور انقلابی فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کا عزم و ارادہ ظاہر کیا تھا ورنہ اس کی کوئی نہ کوئی جھلک وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سالانہ میزانیوںمیں ضرور نظر آتی، حکمرانوں کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو راضی کرنے کی فکر تھی چنانچہ اس کی خاطر انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے حالانکہ جتنی تگ و دو حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے کی ہے اور جس طرح اس مشن کی تکمیل کی خاطر غریب ، بے بس اور بے کس عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی اس کا عشر عشیر بھی اگر اپنے حقیقی خالق و مالک، رب رحمن و رحیم کو راضی کرنے کے لیے کرتے تو رحمت باری ضرور جوش میں آتی مگر اس کے لیے غافل اور مغلوب گمان حکمرانوں کو جس یقین پیدا کرنے کی تلقین شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمائی ہے، وہ عنقا ہے اور ان کا معاملہ تو کچھ یوں ہے کہ ؎
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
یہ پہلا موقع بھی نہیں کہ موجودہ حکمران خاندان اور اس کے نام سے موسوم مسلم لیگ (ن) نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے بغاوت کا راستہ اختیار کیا ہو اور اس کی حاکمیت کو چیلنج کیا ہو… 1992ء میں بھی بڑے میاں صاحب نواز شریف وزیر اعظم تھے جب وفاقی شرعی عدالت نے سود ختم کر کے اسلامی بنکاری نظام نافذ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا مگر حکومت نے آج ہی کی طرح عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی پھر مختلف حیلوں بہانوں اور ٹال مٹول کے حربوںسے حکم امتناعی کے سہارے ایک دو نہیں پورے تیس برس گزار دیئے گئے، اب چھوٹے بھائی شہباز شریف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں تو انہوں نے بھی وفاقی شرعی عدالت کا واضح اور دو ٹوک فیصلہ تسلیم کر کے اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کی بجائے ریاستی بینک، جو ملک کے پورے نظام معیشت اور بینکاری کو کنٹرول کرتا ہے، کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر دی ہے کہ پورے ملک کا مکمل معاشی نظام اسلامی اصولوں کے تحت ڈھالنے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے دیا گیا پانچ سال کا وقت قلیل ہے، بیس برس دیئے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئین 23 مارچ 1973ء کو نافذ العمل ہوا تھا جس میں یہ لازم کیا گیا تھا کہ ملک کے مالیاتی امور اسلامی اصولوں کے مطابق چلائے جائیں گے، آئین میں اس مقصد کی خاطر معقول مہلت بھی دی گئی تھی،آج مزید مہلت مانگنے والوں نے گزشتہ نصف صدی میں آئین کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے سوچ بچار اور عملی اقدام کیوں نہیں کئے؟ پھر جب 1992ء میں سود سے نجات کے لیے شرعی عدالت نے حکم جاری کر دیا تھا اور آپ نے عدالت عظمیٰ سے حکم امتناعی کے نام پر تیس برس ضائع کر دیئے، اگر ریاستی کار پرداز سنجیدہ ہوتے تو ان تیس برسوں میں اسلامی معاشی نظام کی جانب ٹھوس پیش رفت کر چکے ہوتے مگر اصل چیز نیت اور ارادہ ہے، دل ہی نہ چاہتا ہو تو دعا میں اثر کہاں؟ حقیقت وہی ہے کہ خوئے بدرا بہانہ بسیار… ورنہ اب تو نجی شعبہ میں بلا سود بنکاری کی جانب خاصا کام کیا جا چکا ہے، بہت سے بنک اسے اختیار کر چکے ہیں جن کا شمار ملک کے کامیاب ترین بینکوں میں ہوتا ہے، خود اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک چوتھائی صارفین از خود بلاسود بنکاری کو اختیار کر چکے ہیں، حکومت اور ریاستی بینک نیک نیتی سے کوشش کریں تو پورا بنکاری نظام سود سے پاک کرنا کچھ مشکل کام نہیں مگر اس کے لیے کفر کے عالمی ساہوکاری نظام کے چنگل اور غلامی سے نکلنا لازم ہے جس کی سکت ہمارا موجودہ حکمران طبقہ بہرحال نہیں رکھتا… !!!
معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے اور سود جیسی لعنت سے نجات دلانے کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے سوا ہماری دینی سیاسی جماعتوں کا طرز عمل تکلیف دہ حد تک افسوس ناک ہے، اس وقت ملک پر حکمران اتحاد، پی ڈی ایم کو جمعیت العلماء اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث جیسی مذہبی جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل ہے اور اگر یہ جماعتیں چاہیں تو موجودہ حکومت ایک دن نہیں چل سکتی مگر ان کی جانب سے ملکی معیشت کوقرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے اور سود جیسے حرام سے پاک کرنے کے لیے رتی برابر دبائو استعمال نہیں کیا گیا اگر ایسا ہوتا تو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل ممکن نہیں تھی، ان دینی جماعتوں کے قائدین کو سوچنا ہو گا کہ وہ اپنے اس طرز عمل کا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے…؟
بنکوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی جانے والی درخواست ملک کے منصف اعلیٰ اور دیگر منصفین کے لیے بھی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے، جنہوں نے حال ہی میں ملک کے بد عنوانی میں لتھڑے ہوئے نظام کو بچانے اور تسلسل فراہم کرنے کے لیے نصف شب کو عدالت لگانے کی روایت کا آغاز کیا ہے، سود کا خاتمہ اور ملکی نظام کو قرآن و سنت کے مطابق استوار کرنا بھی بلاشبہ آئین کا لازمی تقاضا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری عدالت عظمیٰ اپنی اس آئینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے شب و روز بلاناغہ ان اپیلوں کی سماعت کر کے اس اہم ترین معاملہ میں شریعت کے اصولوں کے مطابق اپنا فیصلہ بلا تاخیر صادر کرتی ہے یا حسب سابق حکم امتناعی جاری کر کے بنکوں کی اپیل کے تاخیری حربے کو کامیاب بناتی اور معاملہ کو سالہاسال کے لیے سرد خانے کی نذر کر دیتی ہے۔ ہمارے فاضل منصفین کرام جو کچھ بھی کریں یہ حقیقت پیش نظر ضرور رکھیں کہ انہیں اس کے لیے اپنے رب کے حضور جواب دہ ہونا ہو گا…!!!
آخری گزارش یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم بھی اس معاملہ میں بے حسی ترک کرنا ہو گی اور عوام میں سے ایک ایک فرد کو وہ جہاں بھی ہے اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنا ہو گا ورنہ اگر ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلی جنگ کا یہ سلسلہ جاری رکھا تو یاد رہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے جس کے خاصے اذیت ناک اثرات ہم بحیثیت قوم بھگت بھی رہے ہیں اور مزید کے آثار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ عقل و شعور رکھنے والے انہیں بخوبی دیکھ سکتے ہیں…!!!