اگر کبھی آپ کے گلے، داڑھ، زبان یا گال کے اندرونی حصے پر دُکھن اور سُوجن کے ساتھ چھوٹا سا چھالا پڑ جائے تو آپ زیادہ پریشان نہیں ہوتے کیونکہ تھوڑی سی دیکھ بھال سے یہ چھالا یا پھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اِسی طور نظامِ انہضام اور تنفس میں تھوڑی بہت دشواری، پٹھوں میں کھنچاؤ، وزن میں کمی، تھکن، سر میں درد، آنکھوں کے حلقوں کے گرد کھنچاؤ اور ایسی ہی دوسری بہت سی پیچیدگیوں کو آپ عمومی سمجھ کر نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر یہی تکلیف برقرار رہے تو؟
کسی ماہر سے رابطہ کیا جائے اور وہ بایوپسی کرانے کو کہے تو ہمیں دھچکا لگتا ہے۔ بایوپسی یعنی چند خلیوں کے مجموعے (ٹشو) کو جسم سے الگ کرکے اس بات کا جائزہ لینا کہ جسم کہیں کسی پیچیدہ بیماری (کینسر وغیرہ) کی طرف تو نہیں بڑھ رہا۔ اگر رپورٹ مثبت آئے تو متعلقہ فرد اور اُس کے متعلقین کے پیروں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوتی ہے۔ بہت زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اب تو کینسر کے علاج کے حوالے سے بھی خاصی حوصلہ افزا پیش رفت ہوچکی ہے۔
کینسر کے لیے دو عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ایک تو کینسر جنین جسے آنکوجنین کہا جاتا ہے، اور دوسرے کارسینوجی۔ پہلا عامل اندرونی ہے۔ دوسرے عامل یعنی کینسر کارکو سے ہم بچ بھی سکتے ہیں اور اُسے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ کینسر پیدا کرنے والے بیرونی عوامل میں تمباکو سب سے جان دار ہے جس سے بچنا عام آدمی کے لیے بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ سگریٹ، بیڑی یا حقے کے دھویں سے ماوا، گٹکا، پان وغیرہ میں تمباکو چبانے سے دانتوں کی صفائی کے نام پر تمباکو سُونگھنے تک بہت سے طریقے ایسے ہیں جو تمباکو کو جسم میں بہت کچھ اُلٹا سیدھا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ گلے، منہ، زبان، پھیپھڑوں، خوراک کی نالی، معدے اور مثانے کے کینسر کا نشانہ بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں قتل کی وارداتوں میں جتنے لوگ مارے جاتے ہیں اُن سے 54 گُنا لوگ تمباکو کے استعمال سے موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں کی مجموعی تعداد سے 30 گُنا افراد تمباکو کی نذر ہوتے ہیں۔ ذیابیطس (شوگر) سے مرنے والوں کے مقابلے میں تمباکو کے استعمال سے مرنے والوں کی تعداد 18 گُنا ہے۔ دنیا بھر میں ہر ہر منٹ 6 افراد تمباکو کے استعمال سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہر سال دنیا بھر میں 60 لاکھ افراد کینسر کی نذر ہوتے ہیں۔ ان میں تمباکو کے استعمال سے مرنے والے 30 لاکھ سے زائد ہیں۔ جنوبی ایشیا کے بعض ممالک سمیت دنیا بھر میں تمباکو کی کاشت خاصا منافع بخش معاملہ ہے۔ برصغیر میں تمباکو سگریٹ، بیڑی، پائپ اور حقے کے علاوہ گٹکے، پان اور نسوار وغیرہ میں بہت بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے میں بہت سوں کو آپ تمباکو کا عادی پائیں گے۔ بھارت میں تمباکو کی سالانہ پیداوار 44 کروڑ کلو گرام ہے۔ اس پیداوار کا 80 فیصد بھارت ہی میں 30 کروڑ افراد کسی نہ کسی طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ بھارت میں تمباکو استعمال کرنے والوں میں 30 فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بھی خواتین تمباکو حقہ پیتی ہیں، تاہم اُن کی تعداد کم ہے۔ تمباکو کی کاشت امریکہ کے اصل باشندوں یعنی ریڈ انڈینز نے شروع کی تھی۔ وہاں سے یہ دنیا بھر میں پھیلا۔
آج دنیا بھر میں تمباکو کے استعمال کے خلاف تحریک چلائی جارہی ہے۔ ہر سال 31 مئی کو تمباکو کا استعمال ترک کرنے کا دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں تمباکو کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کہیں بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ امریکہ اور یورپ میں یہ تحریک خاصی کامیاب جارہی ہے۔ وہاں تمباکو کے استعمال سے ہونے والے کینسر کے کیس گھٹے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے کیسوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جو لوگ تمباکو زیادہ استعمال کرتے ہیں اُنہیں اگر بتائیے کہ تمباکو نوشی یا تمباکو خوری سے کینسر ہوسکتا ہے تو وہ پلٹ کر دلیل دیتے ہیں کہ بہت سے لوگ زندگی بھر سگریٹ اور بیڑی پیتے رہتے ہیں اور 90 سال سے زیادہ کے ہوکر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں! ایسے لوگ یہ ماننے ہی کو تیار نہیں ہوتے کہ تمباکو سے کینسر ہوسکتا ہے۔ اگر اِنہیں کینسر ہو بھی جائے تو یہ امید رکھتے ہیں کہ کسی دن معجزے کے طور پر اِن کا کینسر ختم ہوجائے گا۔
تمباکو نوشی یا تمباکو خوری کے باوجود کینسر کیوں نہیں ہوتا یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس معاملے میں کون کتنا خوش نصیب ہے۔ اِسی طور کینسر کے علاج میں کامیابی کے بعد بھی معاملات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ متعلقہ فرد کہاں کھڑا ہے۔ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کینسر کا سبب بننے والے اندرونی اور بیرونی عوامل کس طور کام کرتے ہیں۔ پختہ عمر کے عام آدمی کا جسم خوردبین سے بھی دکھائی نہ دینے والے 60 ہزار ارب خلیوں سے بنا ہوا ہے۔ قدرت کا کمال یہ ہے کہ انسان کی ابتدا رحمِ مادر میں صرف ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ یہ خلیہ ہی زندگی کی اکائی ہے۔ ہر خلیے کے تین حصے ہوتے ہیں: سیل کی بیرونی جِھلّی، مرکزہ اور اِن دونوں کے درمیان موجود مواد یعنی سائٹو پلازم۔ خلیے کا مرکزہ بالعموم ڈی این اے نامی خاص ذرّے سے بنا ہوتا ہے۔ اس کا پورا نام ’’ڈی اوکسی ریبوز نیوکلک ایسڈ‘‘ ہے۔ یہ ذرّہ (ایٹم) بہت حد تک کثیر سالمی مرکب (پولیمر) ہوتا ہے۔ اس کی شکل ڈبل ہیلکس جیسی ہوتی ہے۔ یہ ڈی این اے ہی ہماری زندگی کی مکمل کتاب ہے۔ والد اور والدہ کی طرف سے مجموعی طور پر ملنے والے 23 موروثی خواص کا یہ مجموعہ ہے۔ ان میں چھپے ہوئے اشارے کھلتے جاتے ہیں اور ہماری زندگی تشکیل پاتی جاتی ہے۔ یہ اشارے یا پیغامات 34 ہزار جنینوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ہر جنین ایک پیغام یا حکم ہے۔ ڈی این اے کی شکل میں ہماری جو کتاب قدرت نے خلق کی ہے اُس کے حروفِ تہجی base کہلاتے ہیں اور یہ بھی کیمیائی سالمے ہی ہیں۔ ہر بیز دوسروں کے ساتھ مل کر ایک جوڑ بناتی ہے۔ ڈی این اے میں 3 ارب 20 کروڑ جوڑ ہوتے ہیں۔ ان bases کے کتنے ہی سلسلوں کو جنین کہا جاتا ہے۔ 35 ہزار جنینوں میں ہماری موروثی خصوصیات چُھپی ہوتی ہیں۔ ہر جنین کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ جنین کے اشارے، پیغام یا ہدایت کے مطابق ہمارے جسم میں خلیوں کی تعداد بڑھتی ہے۔ اُن کی تقسیم کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایک میں سے دو، دو میں سے چار اور چار میں سے آٹھ … اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب ہم پختہ عمر کو پہنچتے ہیں تب جسم میں خلیوں کی مجموعی تعداد 60 ہزار ارب ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جسم میں خلیوں کی تعداد صرف بڑھتی رہتی ہے۔ خلیے کمزور پڑتے ہیں اور خاتمے کی طرف بھی جاتے ہیں۔ ہمہ وقت خلیے بن بھی رہے ہوتے ہیں اور خودکشی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ خلیوں کے فروغ اور اتلاف کے درمیان توازن برقرار رہتا ہے۔
کسی بھی وجہ سے خلیوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے والی کوئی کڑی ٹوٹ جائے یا اُس میں دوسری جنینیں شامل ہوجائیں یا کوئی کجی واقع ہو تو خلیوں کی تقسیم اور پیدائش کا عمل رک جاتا ہے۔ ایسے میں غیر فعال رہ جانے والی جنین فعال ہوکر غلط پیغام بھیجتے ہوئے خلیوں کی تعداد میں غیر ضروری اضافے کا باعث بنتی ہے۔ خلیوں کی تعداد کا یوں بے قابو ہوکر بڑھنا کینسر کہلاتا ہے۔ کینسر پیدا کرنے والی جنین آنکوجنین کہلاتی ہے۔ یوں خلیوں کی تقسیم اور اُن کی تعداد میں اضافے کے بے لگام عمل والی ڈی این اے کی سیریز کو آنکو سیریز کہا جاتاہے۔ کینسر جنین جسم میں موجود ہوتی ہے اور غیر فعال رہتی ہے۔ اِس کے فعال ہونے ہی پر کینسر ہوتا ہے۔ یہ خودبخود فعال نہیں ہوتی بلکہ بعض عوامل اِسے فعال کرتے ہیں۔ کھانے پینے کی بعض عادات جنین کا توازن بگاڑتی ہیں اور معاملات کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں۔
جسم میں رونما ہونے والی کسی بھی کجی کے ہاتھوں کینسر جنین فعال ہوسکتی ہے۔ کینسر پیدا کرنے والے عوامل بھی کینسر جنین کو فعال کرسکتے ہیں۔ یہ عوامل تین طرح کے ہوسکتے ہیں: طبعی، کیمیائی اور حیاتیاتی۔ کینسر پیدا کرنے والے کیمیائی عوامل دو طرح کے ہوتے ہیں: ابتدائی اور بڑھاوا دینے والے عوامل۔ ابتدائی عوامل خلیے کے ڈی این اے میں مستقل تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں، تاہم اس عمل سے کینسر نہیں ہوتا۔ جب خرابی کو بڑھاوا دینے والے عوامل خلیے پر اثرانداز ہوتے ہیں تب کینسر ہوتا ہے۔ بہت سے کیمیائی مادوں میں دونوں طرح کے عوامل کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تمباکو کینسر پیدا کرنے والا ایسا ہی عنصر ہے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تمباکو نوشی اور تمباکو خوری کے عادی افراد کو سمجھانے جائیے تو وہ کیوں اُن لوگوں کا حوالہ دیتے ہیں جو زندگی بھر کُھل کر تمباکو نوشی اور تمباکو خوری کرتے رہے تاہم 98 سال کے ہوکر مرے۔ اور اگر کینسر ہوجائے تو تمباکو نوشی کا عادی فرد کہتا ہے کہ میری طرح تو بہت سے تمباکو نوشی اور تمباکو خوری کے عادی ہیں تو پھر مجھ ہی کو کینسر کیوں ہوا؟ کینسر پیدا کرنے والے کیمیائی مادوں کے ذریعے جو زہر جسم میں داخل ہوتا ہے اگر اُن کا سامنا کرنے والی جنین موجود اور فعال ہو تو انسان بچ جاتا ہے۔ ایسی جنین کم ہی لوگوں کے جسم میں ہوتی ہے۔ بہت سوں کے جسم میں ایسی جنین ہوتی تو ہے تاہم خاصی سُست رفتاری سے اثر کرتی ہے۔ کینسر پیدا کرنے والے کیمیائی مادوں کا بہت زیادہ استعمال انسان کو کینسر کے سامنے لا پھینکتا ہے۔
ہمارے جسم میں P-53 نام کی جنین بھی ہوتی ہے جو کینسر پیدا کرنے والے مادّوں کو ناکام بنانے میں مصروف رہتی ہے۔ کسی بھی وجہ سے یہ جنین اگر کج روی کا شکار ہو یا غیر فعال ہو جائے تو کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کسی کی جنین میں کینسر پیدا کرنے والے مادّے سے کجی پیدا ہوتی ہے اور کسی میں تمباکو کے استعمال سے۔
ہمارے جسم میں اینزائم کا ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوتا ہے جو ہمیں کینسر پیدا کرنے والے مادّوں کے شدید مُضِر اثرات سے بچاتا ہے۔ کینسر پیدا کرنے والا مادّہ جب خلیے کی دیوار کے نزدیک آتا ہے تب اُسے اینزائم ملتا ہے جو اُسے پانی میں تحلیل کرکے نکال باہر کرتا ہے۔
کبھی کبھی کینسر کا سبب بننے والا مادّہ شکل بدل لیتا ہے اور کینسر کا خطرہ بڑھادیتا ہے۔ بعض لوگوں میں اینزائم دیر سے فعال ہوتا ہے، یوں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ حال ہی میں نیویارک کے البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کے محققین نے بہت تمباکو نوشی کرنے اور تمباکو نوشی بالکل نہ کرنے والوں کے پھیپھڑوں کے خلیوں میں توارث کے حوالے سے تبدیلیوں کا جائزہ لینے کا نیا طریقہ وضع کیا ہے۔ اس حوالے سے کیا جانے والا تجربہ سنگل سیل ملٹی پل ڈس پلیسمنٹ ایمپلیفکیشن (SCMDA) کہلاتا ہے۔ نیچر جینیٹکس میں آن لائن شایع کیے جانے والے ایک تجزیے میں محققین نے لکھا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے بعض افراد میں بہت مضبوط میکینزم ہوسکتا ہے جو اُنہیں متعلقہ کینسر سے بچاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس انوکھا اور مضبوط ڈی این اے ریپیئر سسٹم ہوسکتا ہے۔ یہ تحقیق اُن لوگوں کو تلاش کرنے میں غیر معمولی مدد دے سکتی ہے جو تمباکو نوشی کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے سے دوچار ہیں۔