’’شہید ِماحولیات‘‘ ناظم جوکھیو کا خونِ ناحق

جس ملک اور معاشرے سے انصاف ناپید ہوجائے اور حق دار کے لیے اپنے حق کا حصول دشوار اور کٹھن ہوجائے، وہاں ایک عام فرد کے لیے زندگی سکون اور اطمینان کے ساتھ بسر کرنا محال بلکہ ایک طرح سے ناممکن اور کارِدار ہوجاتا ہے۔ آج اہلِ وطن کی عظیم اکثریت بالکل ایسی ہی حالت اور کیفیت سے دوچار ہے۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ آثار و قرائن سے بظاہر صاف لگتا ہے کہ گزشتہ برس 2021ء کے ماہ نومبر کے اوائل میں عرب شکاریوں کو معصوم پرندوں کے شکار سے منع کرنے کے جرمِ ناحق کی پاداش میں بہیمانہ تشدد کے بعد بے دردی سے عرب شکاریوں کے میزبان پی پی کے ایم این اے جام عبدالکریم جوکھیو اور پی پی ہی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام کی مبینہ ایما پر ان کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہوکر سندھ کے پہلے ’’شہیدِ ماحولیات‘‘ کا لقب پانے والے شہید ناظم جوکھیو کا خونِ ناحق بھی وطنِ عزیز اور صوبہ سندھ کے دیگر بہت سارے مقتولین کے خونِ ناحق کی طرح رائیگاں اور ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہوچلا ہے۔ اس وقت لگتا یہ ہے کہ ناظم جوکھیو کے خون ناحق کو رائیگاں کرنے کے لیے تمام بااثر قوتیں بیک وقت متحرک اور فعال ہوگئی ہیں۔ سندھ میں ہر روز نامعلوم کتنے بے گناہ مارے جانے والے مرد اور خواتین کا خون بالکل اسی طرح سے ضائع اور رائیگاں ہوجایا کرتا ہے، اور اس کی وجہ وہی ہے جس کے بارے میں ہر باشعور فرد بخوبی جانتا ہے۔ عام سے لے کر خاص تک، حکومت سے لے کر اپوزیشن تک، مدعی سے لے کر ملزم تک، وکیل سے لے کر منصف تک، مظلوم سے لے کر ظالم تک… سبھی کو اس امر کا اچھی طرح سے علم ہے کہ ہمارے ملک کے نظام انصاف میں ایسے کون سے واضح اسقام اور خلا موجود ہیں جن کی وجہ سے خونِ ناحق کا ارتکاب کرنے والے قاتل اپنے وسائل، وسیع تعلقات اور اثر رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صاف بچ نکلتے ہیں اور کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، اور بے دردی سے قتل کیے جانے والے اس موقع پر عالمِ خیال میں یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
سندھ میں نہ صرف نظام انصاف میں موجود خامیوں بلکہ صدیوں سے رائج فرسودہ روایتی ظالمانہ رسوم و رواج کی وجہ سے بھی قاتل ٹھوس شواہد اور ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود بچ نکلتے ہیں۔ ’’رجوانی‘‘ (جرگہ طرز کا فریقین کے مابین مصالحت پر مبنی ایک جبراً مسلط کردہ طریقہ، جو عموماً ظالم ہی کو تحفظ فراہم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے) کے ذریعے کیے گئے فیصلوں کے بعد قاتل خود پر عائد کردہ مخصوص جرمانے کی رقم کی متاثرہ فریق کے ورثا کو ادائی کے بعد نہ صرف صاف رہائی اور آزادی پالیتے ہیں بلکہ معاشرے میں مزید بدامنی اور انتشار پھیلانے کے لیے دندناتے پھرتے ہیں۔ ’’رجوانی‘‘ کا فیصلہ ہی انہیں عدالت میں بطور ثبوت پیش کرنے پر وہاں سے بھی ’’باعزت بری‘‘ ہونے کا ایک شاندار موقع مہیا کردیتا ہے۔
گزشتہ برس ماہ نومبر کے پہلے ہفتے میں ملیر میمن گوٹھ سندھ کے تین معصوم بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد 32 سالہ ناظم جوکھیو نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں وہ اپنے علاقے میں چند عرب شکاریوں کو شکار کرنے سے روکنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ مذکورہ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ ناظم جوکھیو کے لواحقین نے اس مبینہ قتل کے الزام میں پی پی کے ایم این اے جام عبدالکریم اور ممبر سندھ اسمبلی سمیت 22 ملزمان کو نامزد کیا تھا (اس سانحہ کی تفصیلی رپورٹ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوچکی ہے) بیشتر ملزمان کو بعدازاں بوجوہ ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ دریں اثنا اس سانحہ اور کیس کے حوالے سے بہت سارے اتار چڑھائو دیکھنے میں آئے۔ مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو کی طرف سے اس بہیمانہ قتل کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی مبینہ دبائو کے تحت یا پھر دیگر نامعلوم اسباب کی بنا پر مقدمے میں نامزد بااثر ایم این اے جام عبدالکریم بجار کا نام مرکزی ملزمان سے ہٹوادیا جس کی وجہ سے ان پر ’’ڈیل‘‘ کا الزام بھی عائد کیا گیا، جبکہ افضل جوکھیو نے اس امر کی سختی سے تردید کی۔ اسی دوران مقتول کی مدعی اہلیہ شیریں جوکھیو نے عدم اعتماد کے باعث مقدمے کے وکلا کو تبدیل کردیا اور تحقیقاتی پولیس افسران کو بھی بوجوہ تبدیل کردیا گیا۔ اطلاعات اس طرح کی سامنے آنی شروع ہوگئی تھیں کہ بااثر ملزمان نے اندرونِ خانہ خفیہ طور پر ترغیب، تحریص اور سخت دبائو ڈال کر مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کو بجائے عدالت میں کیس کی پیروی کرنے کے، بذریعہ نجی طور پر روایتی انداز میں ’’رجوانی‘‘ کے توسط سے بااثر ترین ملزمان کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ پر آمادہ و تیار کرلیا ہے، بصورت دیگر اسے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ کئی ماہ گزرنے کے بعد بالآخر اس مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ شدید عوامی دبائو اور میڈیا کے دبائوکی وجہ سے مدعیانِ مقدمہ نے بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کیا جائے، جس کے بعد یہ دفعات شامل کرنے کے بعد مقدمہ متعلقہ عدالت کو منتقل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ مقتول ناظم جوکھیو کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں قرار واقعی سزائیں دینے کے لیے سندھ بھر میں اس دوران ہر سطح پر شدید احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ بھی دبائو کا شکار دکھائی دیں، یہاں یہ بات یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مطابق ورثا قصاص اور دیت کے تحت ملزمان کو معاف نہیں کرسکتے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ اطلاع سامنے آئی کہ ناظم جوکھیو کے قتل میں ملوث ایک ملزم پی پی کے جام عبدالکریم بجار ایم این اے خاموشی کے ساتھ بیرون ملک (دبئی) تشریف لے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ کے اقتدار پر براجمان حکومت سندھ کے سارے ذمہ داران اس پر دم سادھے رہے اور انہوں نے اس موقع پر کسی قسم کی کوئی لب کشائی کرنا پسند نہیں کیا، البتہ اہلِ سندھ میں تشویش اور اضطراب کی لہر ضرور دوڑ گئی اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ جام عبدالکریم بجار کی یوں خفیہ انداز میں ملک سے روانگی ’’دال میں بہت کچھ کالا‘‘ ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے۔ لیکن وہ بے بس تھے اس لیے بڑی بے بسی کے ساتھ یہ سب ’’تماشا‘‘ اور ’’ڈرامہ‘‘ ہوتے ہوئے دیکھا کیے۔ ان کے اس اضطراب اور بے چینی میں گزشتہ روز سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے صفحہ اول پر بروز منگل 24 مئی 2022ء نمایاں انداز میں چھپنے والی اس خبر نے بہت زیادہ اضافہ کرڈالا ہے جس کا ترجمہ اور خلاصہ کچھ یوں ہے: ’’ناظم جوکھیو کا قتل ذاتی دشمنی کے سبب ہوا۔ دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئیں، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ناظم جوکھیو کا قتل کیس اپنے دائرۂ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے اسے ملیر کی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر عدالت میں پی پی کے گرفتار کردہ ایم پی اے جام اویس گہرام اور دیگر ملزمان بھی موجود تھے۔ اس سے قبل پولیس پراسیکیوشن، مدعی افضل جوکھیو اور مقتول ناظم جوکھیو کی اہلیہ شیریں جوکھیو نے قتل کے اس کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کی مخالفت کی تھی‘‘۔ اس خبر کی اشاعت سے صاف معلوم پڑتا ہے کہ مقتول ناظم جوکھیو کے خونِ ناحق کو رائیگاں کرنے کے لیے بڑی پلاننگ کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔ اب تو کڑی سے کڑی ملتی ہوئی صاف دکھائی دینے لگی ہے اور صورت حال بتدریج واضح طور پر نکھر کر سامنے آنے لگی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی دفعات کو مقدمے سے ختم کرنے سے پیشتر ماہ مارچ کے اواخر میں مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کی ایک ویڈیو بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ بزبانِ اردو اور سندھی بڑے دکھی اور دل گرفتہ، دل شکستہ انداز میں مذکورہ کیس سے اپنی دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہتی دکھائی دیں کہ ’’میں اب حالات سے لڑتے لڑتے تھک چکی ہوں، میرے اپنوں نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، میں تنہا اور اکیلی ہوکر رہ گئی ہوں۔ میرے اپنے بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں، میں وفادار ہوں لیکن مجھے سب نے اکیلا کردیا ہے، میں نے اس کیس میں نامزد تمام ملزمان کو معاف کردیا ہے اور میں اپنا فیصلہ اب اپنے اللہ پر چھوڑتی ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور اب میں یہ کیس مزید نہیں لڑسکتی۔ میں اپنے شوہر کے تمام قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کرتی ہوں‘‘۔ یہ ویڈیو وائرل ہونے پر اہلِ سندھ میں بجاطور پر شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ ویڈیو میں آپ، اپنی شکست کی آواز محسوس ہورہی اور صاف دکھائی بھی دے رہی تھیں، تاہم اہلِ سندھ نے یہ سوچ کر اپنے منفی خیالات کو اپنے اذہان سے جھٹک دیا اور یہ کہہ کر خود کو وقتی طور پر بہلالیا کہ مقتول ناظم جوکھیو کا کیس اب مقامی نہیں بلکہ ملک گیر اور عالم گیر سطح پر منظرعام پر آنے کی وجہ سے اس قدر ’’ہائی پروفائل‘‘ حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ مقتول ناظم جوکھیو کے قاتلوں کی رہائی یا معافی تقریباً ناممکن ہے۔ بیشتر کا خیال تھا کہ یہ وائرل ہونے والی ویڈیو کیس کے طوالت اختیار کیے جانے کی وجہ سے مقتول کی اہلیہ کا عالمِ مایوسی میں جذباتیت کا ایک اظہار ہے اور بس۔ لیکن جن افراد نے اس ویڈیو کو بے حد سنجیدہ لیتے ہوئے اسے مذکورہ سانحے کو غتربود کرنے کی سعی اور منصوبہ بندی کا قاتلوں کی جانب سے ایک حصہ اور قدم قرار دیا تھا، رونامہ کاوش میں چھپنے والی مذکورہ خبر کے بعد وہ اپنے خدشات میں بالکل حق بہ جانب لگتے ہیں۔ کڑی سے کڑی واضح طور پر ملتی ہوئی محسوس ہی نہیں ہوتی بلکہ دکھائی بھی دے رہی ہے۔ ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں سے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا مقتول کے بھائی، بیوہ اور پراسیکیوشن کی جانب سے درخواست کے بعد نکالا جانا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اب بااثر ملزمان اور مقتول کے لواحقین کے مابین جبری طور پر مسلط کردہ ’’رجوانی‘‘ کے تحت اپنی من مانی شرائط پر مصالحت اور قصاص یا دیت کے ذریعے بااثر ملزمان کی مذکورہ مقدمے سے گلوخلاصی اب زیادہ دور کی بات نہیں رہی۔ لگتا یہ ہے کہ ایک اور خاک نشیں کا خونِ ناحق رزقِ خاک ہونے والا ہے، بہ قول فیض
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں ہے لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لب و خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
پس نوشت: مقتول ناظم جوکھیو کے خونِ ناحق کو رائیگاں کرنے کے لیے عوامی حقوق کی علَم بردار پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت، فراہمیِ انصاف کے لیے قائم کردہ تحریک انصاف کی سابق وفاقی حکومت اور مسلم لیگ نواز سمیت تمام ملکی اداروں کا کردار انتہائی افسوس ناک بلکہ شرم ناک رہا، جس کا قدرے مختصر ذکر سطورِ بالا میں بھی کیا جاچکا ہے۔ سرداری نظام کے خلاف آواز بلند کرنے پر ’’شہیدِ ماحولیات‘‘ ناظم جوکھیو کو قتل کرانے کے ملزم پی پی کے ایم این اے جام عبدالکریم بجار کو پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی عمل داری کے تحت آنے والے ایئر پورٹ سے دبئی رخصت کرکے جس انداز میں پی پی کی مرکزی قیادت نے اسے قتل کیس میں گرفتاری سے بچنے کے لیے معاونت فراہم کی اور بعدازاں اس کی پکی ضمانت کرواکے جس شان و شوکت کے ساتھ سندھ ہائوس اسلام آباد میں سابق صدر زرداری صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا اور بعدازاں جس طرح سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم میاں شہبازشریف کے انتخاب کے وقت پی پی کے مذکورہ ایم این اے کو ووٹ دینے کا حق تفویض کیا گیا، اس پر سب ہی انگشت بدنداں ہیں۔