لالہ صحرائی اور نعت گوئی

لالۂ صحرائی کا اصل نام محمد صادق تھا۔ وہ 14 فروری 1920ء کو مہتہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا خاندان جہانیاں (ضلع ملتان) منتقل ہوچکا تھا۔ اوائل عمر سے ہی کتب و رسائل کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کیا کرتے تھے۔ یوں ان کے اندر اعلیٰ درجے کا ادبی ذوق تخلیق پاتا رہا۔ ان کے اپنے بقول ’’غیر تدریسی کتابوں اور رسائل وغیرہ کے مطالعے کی لت مجھے آٹھویں جماعت ہی میں پڑ گئی تھی، نثر اور نطم دونوں ہی اصناف کی اعلیٰ کتابوں کو میں نے نہایت شوق کے عالم میں نہ صرف پڑھا بلکہ انہیں پیا‘‘۔
جلد ہی آپ نے لکھنا شروع کردیا۔ سالہاسال تک آپ کی نثری کاوشیں علمی و ادبی رسالوں میں شائع ہوتی رہیں، اور یہ کسی ایک صنف تک محدود نہ تھیں۔ آپ کی نثری نگارشات کے موضوعات میں بہت وسعت، تنوع اور ہمہ گیریت ہے۔ علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی مضامین، افسانے، ڈرامے، تمثیلیں، خاکے، انشایئے، سفرنامے، تراجم اور طنز و مزاح غرض اردو کی بیشتر اصنافِ نثر میں ان کے وفورِ قلم نے یادگار اور اَن منٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ سب تحریریں ایک پختہ ادبی اور شگفتہ اسلوب کی عکاس ہیں جن میں کہیں کہیں طنز و مزاح کے ہلکے ہلکے چھینٹوں کی گل کاریاں نظر آتی ہیں۔
یوں تو وہ سرسید احمد خان، مولانا حالی، علامہ شبلی، مولانا محمد اشرف علی تھانوی، ابوالکلام آزاد، راشد الخیری، سید سلیمان ندوی اور ظفر علی خان کے مداح ہیں لیکن فکری اور نظریاتی جہت میں وہ علامہ اقبال اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مقلد ہیں۔ ان کی متعدد نثری کتابیں (نور منارہ، چمن میری امیدوں کا، نئے پھول، پرانی خوشبو) شائع ہوچکی تھیں کہ نعت گوئی کی طرف ملتفت ہوئے، کیسے؟
یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ خود لالہ صحرائی کی زبانی سنیے، کہتے ہیں:
’’میں ادبِ عالیہ نیز اعلیٰ شاعری کا ہمیشہ دل دادہ رہا ہوں، اپنی اس افتادِ طبع کے ساتھ نہ جانے کب مجھے نعمتوں کے ساتھ آپ سے آپ خصوصی شغف پیدا ہوگیا۔ عمدہ نعت جب بھی میں پڑھتا یا سنتا تو دل گداز ہوجاتا اور آنکھیں اشک بار۔ جی چاہتا کہ میں خود بھی کوئی نعت کہوں، تاہم میرا غیر شاعر ہونا آڑے آجاتا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطفِ خاص سے مجھے حرمین شریفین میں حاضر ہونے کا شرف بخشا۔ ان سعید مواقع پر تقریباً ہر مرتبہ میں نے دوسری دعائوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کی کہ وہ اپنی رحمت سے مجھے نعت کہنے کی توفیق عطا فرمائے، تاہم اپنی نعت گوئی کی خواہش اور اس کے لیے توفیق طلبی کی دعائوں کو میں نے دوسروں سے بالکل مخفی رکھا۔ اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل و کرم کا کرشمہ ملاحظہ ہوکہ جولائی 1991ء کی ایک چمکتی صبح کو مجھ پر یکایک نعتوں کا نزول شروع ہوگیا اور میں نے بے اختیاری کے عالم میں ایک ہی نشست میں تین نعتیں کہہ ڈالیں جو قدرتاً میرے لیے انتہائی خوش گوار حیرت کا موجب ہوئیں، لیکن ساتھ ہی میں اس حیض بیض میں مبتلا ہوگیا کہ رموزِ شعر سے میری عدم واقفیت کی بنا پر آیا میری یہ نعتیں شاعری میں شمار ہوسکیں گی؟ اگلے روز میں پھر دو نعتیں ایک ہی نشست میں کہنے پر ’’مجبور‘‘ ہوگیا۔ اسی دن میں نے سعودی عرب کے شہر طائف میں بسلسلۂ روزگار مقیم اپنے بیٹے ڈاکٹر جاوید احمد کو اس کے ایک خط کا جواب لکھتے ہوئے اپنی دو نعتوں کی کاپی کے ساتھ مختصراً یہ اطلاع بھی دی کہ مجھے اچانک چند نعتیں کہنے کی توفیق ملی ہے، تمہیں جب مکہ مکرمہ جانے پر حرم پاک میں حاضری کی سعادت نصیب ہو تو دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے اس نئی نعمت کو مبارک ثابت کرے۔ چند یوم بعد جب برخوردار جاوید نے میرے اس خط کا جواب بھجوایا، تو اس میں یہ حیران کن اطلاع درج تھی کہ اس کے نام میرا متذکرہ خط معمول کے بالکل برخلاف، بغیر کسی ظاہری وجہ کے سعودی محکمہ ڈاک کی مہروں کے مطابق، پہلے مدینہ منورہ گیا اور پھر طائف پہنچا!… اس شوق انگیز واقعے نے میرے ربابِ دل کے تاروں کو اپنے اعجاز آفریں مضراب سے کچھ اس طرح چھیڑا کہ اس میں سے نعتوں کے نغمے ایک سیل کی صورت پھوٹنے لگے۔ یہ سیلِ مبارک اب تک نہیں تھما، اور تھمے بھی تو کیوں کر؟ کیا رحمتِ خداوندی کی طغیانی کے آگے بھی کوئی بند باندھا جاسکتا ہے؟‘‘
اور یہ سیلِ مبارک لالۂ صحرائی کی وفات (7 جولائی 2000ء) تک رواں اور جاری رہا۔
جب بھی اردو نعت (مختصر، مختصر ترین یا مفصل) کی تاریخ لکھی جائے گی جناب لالۂ صحرائی کی نعت گوئی کو نظرانداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اردو کے نعتیہ ادب میں لالہ صحرائی کے نعتیہ مجموعے، ایک ناقابلِ فراموش اضافہ ہیں۔
……٭٭٭……
لالۂ صحرائی: مشاہیر اہلِ قلم کی نظر میں
احمد ندیم قاسمی:
لالۂ صحرائی کے ساتھ میری رفاقت و محبت کی تاریخ نصف صدی پرانی ہے۔ لالۂ صحرائی محبت اور نیکی کے معاملے میں استقامت کے ایک معجزے سے کم نہیں تھے۔ وہ اُن اِکا دُکا اصحاب میں شامل ہیں جن کے دم سے یہ دنیا قائم ہے، ورنہ اس کو تہس نہس کرنے میں ہم میں سے کسی نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اور یہ محمد صادق مرحوم اور ان کے سے چند دیگر بندگانِ خدا تھے جن کا وجود اس امر کی ناقابلِ تردید شہادت تھا کہ روزِ ازل اگر اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا تو ٹھیک کیا تھا۔
مشفق خواجہ:
جناب محمد صادق زندگی بھر نثر کی شاہراہ پر گامزن رہے۔ اس کا گمان نہ انہیں تھا اور نہ ان کے مجھ جیسے نیاز مندوں کو کہ ان کے ادبی سفر کی منزل شاعری ہے، اور شاعری بھی وہ جسے حاصلِ شاعری کہنا چاہیے۔ ان کی نعت گوئی کو اگر ایک ادبی معجزہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ایک عرصے سے اس کے خواہش مند تھے کہ ان کے دل میں عشقِ رسولؐ کے جو جذبات موجزن ہیں، انہیں لفظوں کی زبان مل جائے۔ یہ دعا قبول ہوئی اور صرف چھ مہینے کے عرصے میں ان کے دلی جذبات نے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوکر ایک سو نعتوں کی صورت میں گل و گلزار کا سماں پیدا کردیا اور پھر یہ ایک سیلِ رواں بن گیا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی:
لالۂ صحرائی کے نتائجِ قلم پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خاموشی سے کام کرنے والے کیسے ہوتے ہیں، ایسے ہی لوگ ’’نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو‘‘ کے مصداق ہیں۔ لالۂ صحرائی نے مبدئِ فیاض سے بلاکا تنوع اور کمال کا تسلسل پایا تھا۔ لالۂ صحرائی نے مضمون، خاکہ، رپورتاژ، افسانہ، طنز و مزاح، ترجمہ، تبصرہ، ڈرامہ، سفرنامہ جیسی متنوع اصناف میں بہت کچھ لکھا۔ نثر میں ان کے اشہبِ قلم کی یہ جولانیاں اہلِ نظر سے داد پاتی رہیں۔ پیرانہ سالی میں جب کئی بار حج و عمرہ کی سعادت پائی اور روضۂ رسولؐ پر حاضری نصیب ہوئی تو نعت گوئی کی آرزو دل میں چٹکیاں لینے لگی، اور پھر ایسے بھرپور انداز میں پوری ہوئی کہ اس کا فیضان آخری وقت تک جاری رہا۔