انسانی تعلقات کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی فرد کے ساتھ مدت العمر بطور رفیقِ کار یا کاروباری تعلق کے باوجود، فریقین ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی رہتے ہیں، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چاہے زندگی میں عملاً ملاقاتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہو مگر روح اور قلب میں ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ مکانی بُعد کے علی الرغم مسلسل رفاقت اور روح کی سرشاری کی نسبت محسوس ہوتی ہے۔
برادرِ محترم لالۂ صحرائی سے میرا تعلق بھی اس دوسری نوعیت کا تھا۔ بالمشافہ ملاقاتیں کراچی، لاہور اور ملتان میں، زیادہ سے زیادہ سات آٹھ بار ہوئیں لیکن ۱۹۵۵ء میں پہلی ملاقات کے بعد سے، ان کے اِس دنیا سے رخصت ہوجانے تک، ہر لمحہ احساسِ رفاقت رہا اور ان کے عالمِ فانی سے کُوچ کرجانے کے بعد بھی ان کی شفقت، محبت اور رفاقت کی یاد سرمایۂ حیات ہے۔ ان کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں انسان کبھی بھول نہیں سکتا۔
طالب علمی کے دور میں جب اسلامی جمعیت طلبہ سے میرا رشتہ جُڑا تو فطری طور پر جماعت کی شخصیات سے بھی تعلقِ خاطر قائم ہوا۔ کراچی میں محترم چودھری غلام محمد صاحب جماعت کے روحِ رواں اور ہمارے محسن اور مربی تھے۔ ان کا اخلاق، ان کا اخلاص اور ان کا پیار وہ چیزیں تھیں جو انسان کو ان کا گرویدہ بنادیتی تھیں۔ تحریک ان کی زندگی میں اس طرح رچی بسی تھی کہ ان کی شخصیت اور جماعت کا الگ الگ تصور ہی ممکن نہ تھا۔ میں کراچی جمعیت کا ناظم تھا اور وہ میری علمی اور اخلاقی تربیت میں ایک باپ سے بھی زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ ترجمان القرآن تو میرے والد ماجد (نذیراحمدقریشی) کے پاس آتا تھا اور جمعیت سے وابستگی کے بعد اس کے لفظ لفظ کو پڑھنا میرا محبوب مشغلہ تھا، مگر محترم چودھری صاحب بڑے شوق سے مجھے ہر ماہ ’چراغِ راہ‘ دیا کرتے تھے۔ مجھے کبھی خریدنے کی زحمت نہ کرنی پڑی۔ چراغِ راہ کے ذریعے جہاں میرا تعارف محترم نعیم صدیقی سے ہوا، وہیں لالۂ صحرائی کی نگارشات بھی میری توجہ کا مرکز بن گئیں۔ ان کے خاکے، رپورتاژ اور افسانے شوق سے پڑھتا تھا اور ان کی صحتِ زبان اور حُسنِ بیان کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ میری پیدایش اور ابتدائی تعلیم دلّی کی ہے اور دلّی کی زبان ہی گھُٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ چراغِ راہ میں فکروخیال کی آبیاری کا تو بہت سامان ہوتا تھا مگر اس کے ساتھ ادب کی دوسری انواع کا ایک دسترخوان بھی لذتِ کام و دہن کے لیے موجود ہوتا تھا۔ شعروسخن، افسانہ اور رپورتاژ، طنزومزاح اور تبصرہ اور تنقید اس گلدستے کے خوش رنگ پھول تھے اور ہم ان سب ہی پھولوں کی خوشبو سے فیض یاب ہوتے تھے۔ بس یہی وہ پس منظر تھا جس میں لالۂ صحرائی سے پہلا تعلق قائم ہوا۔ چراغِ راہ کے مدیر منتظم محترم خالد احمد صدیقی صاحب جب بھی کراچی آتے تھے، ان کے اور محترم چودھری غلام محمد صاحب کے ساتھ لالۂ صحرائی کا ذکر ہوتا تھا اورمیں ہمیشہ اپنے اس احساس کا اظہار کرتا کہ لالۂ صحرائی کا تعلق خواہ جہانیاں سے ہو لیکن ان کی زبان گنگا اور جمنا کی وادیوں کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ لالۂ صحرائی کے ادبی ذوق کی صورت گری اُردو کے بہترین ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات کی مرہونِ منت ہے اور انھوں نے کلاسیکی ادب کو پڑھا ہی نہیں حرزِجاں کرلیا ہے۔ اس طرح میرا پہلا تعارف ان کی ادبی نگارشات کے ذریعے ہوا اور ملنے کی خواہش سینے میں پالتا رہا۔
ملاقات کی سعادت ۱۹۵۵ء میں حاصل ہوئی۔ کراچی کے جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع کے معاً بعد میں دفتر جماعت میں محترم چودھری صاحب سے ملنے گیا تو ان کے پاس ایک سنجیدہ اور معتبر شخصیت کو بیٹھے دیکھا۔ سلام کرکے میں بھی بیٹھ گیا تو چودھری صاحب نے فرمایا: ’’تم نے پہچانا نہیں؟ یہ ہیں محمد صادق یعنی لالۂ صحرائی۔‘‘
میرا پہلا تاثر خوشی اور انبساط کے ساتھ ایک گونہ تعجب کا تھا۔ میں نے ذہن میں اپنے افسانہ نگار اور خاکہ نویس ادیب کی جو تصویر بنائی ہوئی تھی، وہ اس سے خاصی مختلف تھی جو اَب گوشت پوست کے لالۂ صحرائی کی صورت میں دیکھ رہا تھا، اور شاید میرے اضطراب کو دیکھ کر لالۂ صحرائی اپنی دل کش مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے اور ’اسٹوڈنٹس وائس‘ اور اسلامی دستور پر مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی کے مقالات کا جو ترجمہ میں نے کیا تھا، اس حوالے سے بڑے پیار سے اور مبالغے کی حد تک بڑھتی ہوئی تعریف کی۔ ان کی لطیف گفتگو میں میرا اوّلین تاثر پادر ہوا ہوگیا اور جسے میں عصائے ملتان سمجھ رہا تھا وہ فی الحقیقت لالۂ صحرائی ہی نکلا۔
لالۂ صحرائی مجھ سے عمر میں بارہ سال بڑے تھے اور میرے اس تاثر میں ایک گونہ گستاخی کا پہلو بھی ہے، لیکن میں نے اپنے اوّلین تاثر کو بلاکم و کاست صفحۂ قرطاس پر منتقل کردیا ہے اور اپنی حماقت پر نادم ہوں، لیکن لالۂ صحرائی کی شخصیت کے حُسن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح پہلے ان کی تحریروں نے دل کو موہ لیا تھا، اب ان کی شفقت اور خوش گفتاری (ان کی کم گوئی کی عادت کے باوجود) نے عقیدت، محبت اور رفاقت کے رشتوں کو استوار کردیا۔ وہ میرے بزرگ تھے مگر یہ ان کی شخصیت کا بڑا دل آویز پہلو تھا کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے اس خورد سے بھی ایک بزرگ والا معاملہ کیا اور اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام اورمحبت والتفات کے رشتے میں جڑے رہے۔
لالۂ صحرائی نے مولانا مودودی کے افکار اور ان کی دعوت کو دل کی گہرائیوں اوردماغ کے پورے اطمینان کے ساتھ قبول کیا تھا اور نوجوانی میں اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے آخری عمر تک نبھایا اور اس طرح ان الذین قالو ربنا اللّٰہ ثم استقاموا کی ایک روشن مثال قائم کی۔ وہ جماعت کے رفیق اور کارکن تھے۔ رکن کبھی نہ بنے مگر عملاً ان کے دل و دماغ، قلم اور زبان اور جسم و جان سب اس تحریک اور اس کی دعوت کے لیے وقف تھے اور ارکان سے بھی کہیں زیادہ وفاداری کے ساتھ انھوں نے جس چیز کو شعور کی گہرائیوں کے ساتھ مقصدِ حیات بنایا تھا، اس سے وفاداری کا رشتہ قائم رکھا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں سرگرم رہے۔
لالۂ صحرائی کے مزاج کی شعریت تو ان کی نثری تحریروں میں بھی عیاں تھی مگر کم از کم میرے لیے ان کے ایک اچھا شاعر ہونے کا انکشاف بہت بعد میں ہوا اور حمدونعت کے میدان میں جس طرح انھوں نے اپنی دلی کیفیات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالا ہے، وہ ان کے قادرالکلام شاعر ہونے کا ثبوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت کے میدان میں انھوں نے اپنی عمر کے آخری دورمیں جو خدمت انجام دی ہے وہ محیرالعقول ہے۔ حضور اکرمؐ سے ان کی محبت ہر ہر مصرعے سے عیاں ہے۔ وہ عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے سارے نعتیہ کلام کا محور حضوؐر کی محبت اور آپؐ کی اطاعت ہے، اوراگر میں اپنے اس تاثر کا اظہار کر ہی دوں تو شاید بے جا نہ ہو کہ حمدونعت دونوں کے سلسلے میں ان کے کلام کے مطالعے سے جو بات میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ ان کی نعت ہی حمد کا زینہ اور ذریعہ بنی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ محمدؐ سے محبت ہی وہ راستہ ہے جس سے وہ خود اللہ کے قرب تک پہنچے ہیں۔ عباس محمود العقاد نے اپنے سلسلہ عبقریات میں ایک جگہ بڑی دل لبھاتی بات حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کا تقابل کرتے ہوئے لکھی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ محمدؐ کے ذریعے اسلام تک پہنچے اور حضرت عمرؓ اسلام کے ذریعے محمدؐ تک آئے۔ لالۂ صحرائی کے نعتیہ اور حمدیہ کلام کو پڑھتے ہوئے مجھے بھی بار بار احساس ہوا کہ لالۂ صحرائی خانوادہ صدیقی کا گُل سرسبد ہے۔
لالۂ صحرائی کے خاکے اور رپورتاژ ان سے میرے خصوصی تعلق کو قائم کرنے کا ذریعہ بنے۔ زبان کی سادگی، صحت اور حسنِ بیان کے ساتھ جس چیز نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ ان کے مزاج کا وہ خیر ہے جو وہ ہر دوسرے شخص، ہر واقعے، حتیٰ کہ ہر حادثے میں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ معاملہ کسی شخصیت کی کردارنگاری کا ہو یا کسی واقعے کی منظرکشی کا، وہ اچھائی کے طالب، خیر کے متلاشی، اور کردار کی خوبی کے پرستار ہیں۔ انھوں نے اپنے خاکوں میں دسیوں افراد کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی کی ہے لیکن ان میں جن صفات کو انھوں نے بیان کیا ہے، وہ زندگی میں خیر کے فروغ اور خیر کی قدرومنزلت کے اعتراف کا مرقع ہیں۔ ان کی اس فطرت کو میں شہد کی مکھی کی فطرت سے تشبیہ دیتا ہوں جو ہر پھول کے اس جوہر کو تلاش کرلیتی ہے جو شفائٌ للناس کے مصداق ہے اور یہ فطرتِ سلیم اور وجدان کی پاکی کی ایسی مثال ہے جو اب نادر ہوتی جارہی ہے۔ بارک اللہ خان اور م۔نسیم سے لے کر اسعد گیلانی، مولانا گلزار احمد مظاہری، حکیم اقبال حسین، عامر عثمانی، چودھری نذیراحمد، ماہرالقادری، غلام جیلانی، مولانا مسعود عالم ندوی، چودھری غلام محمد اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی تک جس کا ذکر بھی انھوں نے کیا ہے، اس میں ان کی شخصیت، کردار اور خدمات کا ایسا مرقع پیش کیا ہے جو انھیں دوسروں کے لیے نمونہ (role model) اور روشن چراغ بنا دیتا ہے۔ فطری طور پر مولانامودودی ان کے اور ہم سب کے بہت بڑے محسن تھے اور ان کی شخصیت مینارۂ نور کے طور پر سامنے آتی ہے۔ لالۂ صحرائی نے ہماری تاریخ کے ان تمام روشن کرداروں کی شخصیت کو صفحۂ قرطاس پر محفوظ کرکے سب کے لیے رہنمائی کا بڑا سامان فراہم کردیا ہے اور یہ ایک صدقۂ جاریہ ہے۔
لالۂ صحرائی کو دنیا ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ میں نے ان کے ہر انکار کے باوجود ان سے ایک مقالہ خالص تحقیقی اور تجزیاتی بھی لکھوایا ہے جو میرے علم کی حد تک اس نوعیت کی ان کی واحد تحریر ہے۔ میرے اصرار پر چراغِ راہ کے تحریکِ اسلامی نمبر (۱۹۶۳ء) کے لیے انھوں نے ایک مضمون: ’جماعت اسلامی عالمی لٹریچر کے آئینہ میں‘ لکھا جو رسالے کے ۲۴صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں شائع ہونے والی کتابوں اور رسائل میں جماعت اسلامی پر لکھے گئے مضامین کا تعارف اور تنقیدی جائزہ ہے۔ اس مضمون کے ذریعے مقالہ نگاری کے میدان میں بھی انھوں نے اپنا لوہا منوالیا۔
لالۂ صحرائی کو ہم سے رخصت ہوئے تیرہ سال ہوگئے لیکن ان کی تحریروں کی روشنی اور ان کی باتوں کی خوشبو فضا کو منور اور دلوں کو معطر کیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی علم و ادب اور تحریکِ دعوت کے میدان میں خدمات کو شرفِ قبول سے نوازے اور جو چراغ وہ روشن کرگئے ہیں، ان چراغوں سے مزید چراغ جلتے رہیں تاکہ اللہ کے بندے روشنی کے سفر میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں، اس لیے کہ بقول ان کے:
شمعِ مدحت رہے گی، تابہ قیامت روشن
ہوئی مدھم نہ کبھی اس کی ضیا میرے بعد
کارواں ہوں گے رواں مشعلِ مدحت لے کر
جگمگاتی رہے گی راہِ وفا، میرے بعد