عبدالقدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام

جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کی حزبِ اختلاف کی نشستوں پر موجودگی دراصل’’چلمن‘‘کا پردہ ہے، جبکہ یہ حقیقت میں عبدالقدوس بزنجو حکومت کا بالواسطہ حصہ ہیں

جام کمال خان صلاحیتوں اور کئی عمدہ صفات کے حامل ہیں… جو کمزور، مروجہ سیاسی دائو پیچ اور چالوں سے نابلد ساتھیوں کے رہبر ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے آغاز ہی میں مات نہ کھانی پڑتی، جو 18 مئی کو سیکریٹری بلوچستان اسمبلی کے پاس جمع کرا دی گئی تھی، جس پر 14ارکان نے دستخط کر رکھے تھے۔ قائم مقام گورنر بلوچستان جان محمد جمالی نے عدم اعتماد کی تحریک کرانے کے لیے26مئی کو صبح دس بجے اسمبلی اجلاس طلب کرلیا تھا۔ چناں چہ اس روز مقررہ وقت پر اجلاس شروع نہ ہوسکا، کیونکہ ارکان حاضر نہ تھے۔ حیرت ہے کہ جام کمال، سردار یار محمد رند، ظہور بلیدی اور ان کے دوسرے ہم خیال عین اسمبلی اجلاس کے وقت جمعیت علمائے اسلام وغیرہ سے حمایت کی خاطر گفت و شنید کی بھاگ دوڑ میں لگے رہے۔ چناں چہ پانچ گھنٹے کی تاخیر سے اجلاس شروع ہوا۔ ظہور بلیدی نے عبدالقدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو محض 11 ارکان تحریک کی حمایت میں اٹھے۔ تحریک ٹیبل ہونے کے لیے 65 اراکین پر مشتمل ایوان کا 20 فیصد یعنی 13ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے، جو پورے نہ ہوسکے۔ اس طرح ان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ یہ اتنے لاعلم رہے کہ محض ایک دن پہلے عبدالقدوس بزنجو نے پی ٹی آئی کے مبین خان کو ان سے توڑا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی نے پہلوتہی کر رکھی تھی، وہ اجلاس میں بھی شریک نہ ہوئے۔ اے این پی کے نعیم بازئی آخری وقت میں کھسک گئے۔ مبین اور نعیم بازئی نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط بھی کیے تھے۔ ظاہر ہے یہ ملاپ اللہ واسطے نہیں ہوا ہے، ضرور دنیاداری کے تقاضے مانے گئے ہیں۔ رہی بات زمرک اچکزئی کی، تو اُن کے نزدیک پارٹی فیصلے کے بجائے حلقۂ انتخاب اور وزارت اہم ہے، حالانکہ ایمل ولی خان واشگاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ ان کی جماعت بلوچستان میں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی تبدیلی میں ساتھ دے گی۔ اصغر خان اچکزئی جو اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر ہونے کے ساتھ صوبائی صدر بھی ہیں، اور خاتون رکن شاہینہ کاکڑ پارٹی فیصلے پر قائم و صادق رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی اس صریح انحراف پر زمرک اچکزئی اور نعیم بازئی سے بازپرس کرے گی؟
دراصل جام کمال خان، اراکین قومی اسمبلی خالد مگسی، سردار اسرار ترین، روبینہ عرفان اور احسان ریکی نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ساتھ دیتے وقت اپنی شرائط منوانے میں ضابطہ و طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کی مانند تحریری معاہدے کی صورت میں ساتھ دیا جاتا۔ کیونکہ عبدالقدوس بزنجو کو بلوچستان میں پی ڈی ایم کی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کا تعاون و حمایت حاصل ہے، ان ہی کے کندھوں کے سہارے وہ وزیراعلیٰ بنے بیٹھے ہیں۔ بالخصوص بلوچستان نیشنل پارٹی ساری رنگینیوں میں شریک ہے۔ یعنی جام کمال خان کے بعض ساتھیوں نے قدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو سرے سے سنجیدہ نہیں لیا تھا، اور نری عجلت کا مظاہرہ کیا۔ اس بنا پر اراکین پارلیمنٹ اور جماعتوں سے بامعنی ملاقاتیں اور روابط نہیں ہوسکے۔ سردار یار محمد رند ملاقاتیں کرتے رہے، جو سیاسی اثر رسوخ کے حامل ہی نہیں، اُن سے اپنی جماعت کے ہی لوگ دور ہیں۔ گویا ہر لحاظ سے غیر سنجید گی و نافہمی دیکھی گئی۔
سردار اختر مینگل پی ڈی ایم کے عہد و پیمان کی تردید کرتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن ہیں اور اجلاسوں میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی۔ سردار اختر مینگل نے تو الٹا مزید جام کمال خان پر طنزیہ جملے کسے کہ ’’عمران خان کے پاس تو سیاسی قوت ہے جس کا وہ مظاہرہ کررہے ہیں، لیکن جام کمال کے پاس سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں‘‘۔ اور یہ کہ ’’جام کمال بھول گئے کہ میاں نوازشریف کی حکومت جانے کے بعد انہوں نے نواز لیگ کو کیوں چھوڑا، اور جام کمال کا مقصد اقتدار کا حصول ہے‘‘۔ سردار ا خترمینگل نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق انہیں اعتماد میں لیا جاتا تو وہ ضرور بات کرتے، جب ہر جگہ سے جام کمال کو سرخ جھنڈی دکھادی گئی تو انہیں ہم یاد آئے‘‘۔ خیر،سردار مینگل لاعلم بھی نہیں تھے، اُن سے جے یو آئی کے مولانا عبدالواسع رابطہ کرچکے تھے، جنہیں جام کمال خان نے مکمل اختیار دے رکھا تھا، مگر سردار مینگل نے اس بارے میں گفتگو سے گریز کیے رکھا، اور جے یوآئی بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے بھی قدوس بزنجو کی قیادت پر راضی ہونے کا کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن، میاں شہبازشریف اور آصف علی زرداری نے جام کمال خان، خالد مگسی، سردار اسرار ترین، روبینہ عرفان اور احسان ریکی سے صوبے میں تبدیلی میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہاں عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی تدبیر اگرچہ اچھی نہ تھی، لیکن اگر یہ قائدین اپنے وعدے میں سچے ہوتے تو ان کی مزید رہنمائی کرتے۔ جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا میپ یا کسی دوسرے، تیسرے کواس سے کیا کہ صوبے کی حکومت کن کے ہاتھوں میں ہے! لوٹ مار کی حکومت ہورہی ہے۔ ہر ایک اپنا کام نکالنے و چلانے کی فکر اور تاک میں رہتا ہے، اور یہ سارے دھندے جمہوریت اور دستور کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ صوبے میں ٹھیکیدار حکومت کررہے ہیں۔ نوکریاں فروخت ہورہی ہیں۔ ملازمتوں پر خلافِ ضابطہ تعیناتیاں ہوتی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے اندر حال ہی میں ایسی ہی تعیناتیوں کی بازگشت ہے۔ یہ سیاسی و حکومتی لابیاں صوبے پر مسلط کی گئی ایسی ہی حکومت کو جمہوری نظام کی شائستگی، آئین اور قانون کی بالادستی پر مقدم سمجھتی ہیں۔ جمہوریت،آئین و قانون کی بالادستی اور شفافیت کے نعرے اور سلوگن محض فریب ہیں۔
عدم اعتماد کی تحریک والے دن اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی جے یوآئی کے رکن نے کی، اور تحریک کی ناکامی پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے اراکین خوشی سے نہال ہوکر ڈیسک بجاتے رہے۔ اسی رات فتح کی خوشی میں وزیراعلیٰ ہائوس میں عشائیہ کا اہتمام ہوا۔ جے یو آئی اور بی این پی کے اراکین اسمبلی سمیت اے این پی کے زمرک اچکزئی اور پشتون خوا میپ کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم زیارتوال شادمانی میں شریک تھے، گزارشات پیش کی گئیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر عبدالرحیم مندوخیل مرحوم، جو پارٹی میں ڈپٹی چیئرمین کے اس بڑے عہدے پر فائز تھے، حیات ہوتے توکیا وہ اس طرح کے کسی عشائیہ میں شریک ہوتے؟ جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کی حزبِ اختلاف کی نشستوں پر موجودگی دراصل’’چلمن‘‘کا پردہ ہے، جبکہ یہ حقیقت میں عبدالقدوس بزنجو حکومت کا بالواسطہ حصہ ہیں۔ جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی تو خیر سے وفاقی کابینہ میں بھی جگہ پاچکی ہیں۔