پروجیکٹ کے لیے الخدمت نے 50ملین روپے مختص کیے ہیں، جس میں 30ملین اسکالر شپ اور 20ملین دیگر ضروری اخراجات کے لیے رکھے گئے ہیں۔
معیشت کی بدحالی سے جہاں گھروں کی خوش حالی ختم ہوئی ہے، وہاں نوجوانوں کی بھی پریشانی بڑھی ہے۔ نوجوان بے مقصدیت کا شکار ہیں، ان کے پاس نہ کوئی بڑا مقصد ہے اور نہ مستقبل کے لیے کوئی رہنمائی۔ یہاں کا نوجوان باصلاحیت ہے، قابل ہے اور جذبے سے بھرپور ہے، کچھ کرنا چاہتا ہے اور کچھ بننا چاہتا ہے، لیکن ریاست اور حکومت کی سطح پر اس کی سرپرستی موجود نہیں ہے۔ ہمیں نوجوانوں کی قوت، صلاحیت، حوصلے، امنگوں، جفاکشی، بلند پروازی اور بلند عزائم سے استفادہ کرنا ہے۔ یہ معاشرے میں ماں باپ، استاد، علما اور دانش وروں کے کرنے کا کام ہے، اور انہیں اپنا یہ کردار ادا کرنا ہوگا، اسی صورت میں نوجوان طبقہ مستقبل میں ملک و قوم اور معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کرنے کے ساتھ قوموں اور تحریکوں کے لیے امید کی کرن اور مستقبل کی تعمیر کا ضامن بن سکتا ہے، اس شہر کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری وہ سیاسی جماعتیں جو اس شہر پر حکومت کرتی رہی ہیں اور اس کے وسائل کو لوٹتی بھی رہی ہیں انہیں کراچی شہر اور یہاں کے لوگوں، بالخصوص نوجوانوں کو کچھ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور نہ ہی ان کے پاس کوئی پروگرام ہے۔ جماعت اسلامی کی شہر کے لیے خدمات تاریخی ہیں اور اس کی خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسی پس منظر کے ساتھ الخدمت نے کچھ نیا اور الگ سے سوچا ہے اور ”بنو قابل پروجیکٹ“ کے تحت وہ نوجوانوں کو کچھ بنانے کے عزم کے ساتھ ابتدائی طور پر آئی ٹی کے شعبے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے اس پروجیکٹ کے تحت میٹرک اور انٹر پاس کرنے والے طلبہ کو تین اور چھ ماہ کے ویب ڈویلپمنٹ، ویب ڈیزائننگ ایمزون سمیت مختلف کورسز کرانے جارہی ہے۔ یہ ابتدا ہے لیکن بڑا اور اہم کام ہے اور منفرد بھی ہے۔ یہ کورسز PASHA,APTEC سمیت دیگر نجی اداروں کے تعاون سے کرائے جائیں گے۔ پلیسمنٹ بیورو بھی قائم کیا جارہا ہے جس کے ذریعے کورسز کرنے والے نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی کی بھی کوشش کی جائے گی۔ پروجیکٹ کے لیے الخدمت نے 50ملین روپے مختص کیے ہیں، جس میں 30ملین اسکالر شپ اور 20ملین دیگر ضروری اخراجات کے لیے رکھے گئے ہیں۔ کورس سال میں دو مرتبہ ہوں گے، Banoqabil.pkپر رجسٹریشن کی جائے گی۔ پہلے کورسز کا ٹیسٹ 3جولائی کو ہوگا۔
یہ اعلانات مقامی ہوٹل میں ”بنو قابل پروجیکٹ“ کی افتتاحی تعارفی تقریب میں کیے گئے جس کے مہمانِ خصوصی الخدمت کراچی کے صدر و امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن تھے۔ تقریب سے الخدمت کے چیف ایگزیکٹو نوید علی بیگ، APTECکے سی ای او اقبال یوسف، PASHAکی شمیم راجانی، انوویٹر سلوشنز کے ایم ڈی طاہر عزیز، سوشل انٹر پینور ریحان اللہ والا، و دیگر نے خطاب کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”الخدمت کا بنو قابل پروجیکٹ نوجوانوں کو خودانحصار بنانے کی جانب اہم قدم ہے، اس کا مقصد نوجوانوں کو اپنی فیملی اور ملک و قوم کے لیے مفید بنانا ہے۔ کراچی میں لاکھوں نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ تعلیمی قابلیت کے مطابق مناسب ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان معمولی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ عارضی اور وقتی کام ہمارے نوجوانوں کا مقدر نہیں ہوسکتا۔ ”بنو قابل پروجیکٹ“ کے تحت مختلف کورسز کرنے والے نوجوان اپنا روزگار خود پیدا کرنے کے قابل بن جائیں گے، سوسائٹی میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ناپسندیدہ سرگرمیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نوجوانوں کو مختلف اسکلز سکھاکر ہنرمند بنانا حکومت کا کام ہے، لیکن وہ مکمل لاتعلق ہے۔ حکومت نہ سڑکیں بنا رہی ہے، نہ ٹرانسپورٹ کا نظام فراہم کررہی ہے، صرف اعلانات کیے جارہے ہیں۔ صوبائی حکومت 14سال میں کراچی کے ساڑھے تین کروڑ لوگوں کے لیے 200بسیں لاکر ایسے جشن منا رہی ہے جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ جو حکومت عوام کو سہولیات نہ دے اُس کے خلاف جدوجہد ذمہ داری بھی ہے اور عبادت بھی۔“
نوید علی بیگ نے مختلف کورسز کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ الخدمت آئی ٹی سمیت تعلیم کے شعبے میں اپنی خدمات جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کے شعبے کے ماہرین نے پروجیکٹ کے لیے کورسز تیار کیے ہیں، ان کو مزید وسعت دی جائے گی۔ نوید علی بیگ نے بنوقابل پروجیکٹ میں تعاون کرنے والے اداروں اور ان کے ذمہ داران کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔
اقبال یوسف، شمیم راجانی، طاہر عزیز اور دیگر مقررین نے اپنے خطاب میں الخدمت کے بنوقابل پروجیکٹ کو بھرپور طریقے سے سراہتے ہوئے آئی ٹی کے شعبے میں نوجوانوں کے لیے اسے ایک اہم قدم قرار دیا اور کہا کہ ہم اس طرح کی کوششوں کو بہت قابلِ قدر سمجھتے ہیں، ڈیزائن کیے گئے کورسز میں ہمارا مکمل تعاون جاری رہے گا۔
”بنو قابل“ کراچی کے نوجوانوں کے لیے اہم پروجیکٹ ہے جو شہر کی ضرورت ہے اور قابل ستائش ہے۔ یہ اور ان جیسے کام بڑے پیمانے پر جنگی بنیادوں پر حکومت اور ریاست کے بھی کرنے کے ہیں، وہ بھی اس ضمن میں کچھ سوچیں اور کراچی کے نوجوانوں کو پڑھا لکھا باہنر بنانے میں ریاست کا کردار سامنے آئے۔ یہ کراچی کی ضرورت ہے اور ملک کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ یہ شہر منی پاکستان ہے۔