پاکستان کی بنیادی ضرورت ایک مضبوط سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اورمعاشی نظام ہے۔ ایسا نظام جو جدید تقاضوں کے مطابق ریاستی اور حکومتی ضرورت کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کو بھی تحفظ دے سکے۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب ملک میں فرد یا گروہ کے بجائے قانون اور کی حکمرانی کے نظام کو یقینی بنایا جاسکے۔ کیونکہ اگر قوم کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی ہوگی تو نظام ریاستی یا عوامی مفاد کے بجائے مخصوص طبقات یا افراد کے مفادات کے تابع ہوگا۔ ایسی صورت میں عام آدمی کا مقدمہ کمزور ہوتا ہے اور اس کی بھاری قیمت معاشرے کو کمزور نظام کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔کیونکہ طبقاتی مفادات کی بنیادوں پر چلایا جانے والا نظام کسی بھی صورت میں اپنی سیاسی ساکھ قائم نہیں کرسکتا، اور اس کا نتیجہ ریاست، حکومت، اداروں اور عام آدمی کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو اور زیادہ گہرا کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ دیگر فریقوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو نظام کی اصلاح یا اسے مربوط بنانے کے بجائے افراد کی سیاست اور مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔
اہلِ دانش کی سطح پر سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، اداروں کی بالادستی اور معیشت کی مضبوطی پر فکری مباحثے کی موجودگی کے باوجود ہم آج بھی ایک مضبوط نظام سے دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ نظام کے عدم تسلسل اور اس میں عدم شفافیت کی ایک بڑی وجہ قومی سطح پر عملاً ’’سیاسی تجربہ گاہ‘‘ کا وجود ہے۔ سیاسی، انتظامی یا اسٹیبلشمنٹ سے جڑے افراد یا اداروں نے عملی طور پر اس ملک کو ایک بڑی سیاسی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ ایسی تجربہ گاہ جس میں تواتر کے ساتھ پہلے سے موجود نظاموں کی اکھاڑ پچھاڑ، شخصیت پرستی پر مبنی نظام جو افراد کے نام سے چلائے جاتے ہیں، یا سیاسی مہم جوئی یعنی اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے یا گرانے کے کھیل کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک نئے نظام کی تشکیل کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ لیکن نظام کیسا ہوگا، کون قائم کرے گا اور اس کے خدوخال کیا ہوں گے، اور عمل درآمد کا طریقہ کیا ہوگا اس پر سوالات تو بہت ہیں مگر کوئی مؤثر جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ آج کی دنیا میں ہمیں بلاوجہ نت نئے تجربے کرنے کے بجائے بڑے اور مضبوط ممالک کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے قومی ترقی کے دھارے کا حصہ ہیں اور اس میں ان کے نظام کیا ہیں اورکس کے تحت مجموعی نظام کو چلایا جاتا ہے۔ اسی طرح طاقت ور ممالک کے عالمی سیاسی، سماجی، قانونی، انتظامی، حکمرانی اور ریاستی نظام کے فریم ورک مختلف عالمی ادارہ جاتی شکل میں موجود ہیں، ان کو بنیاد بنانا ہوگا۔ جو سیاسی تماشا ہمارے ریاستی یا حکمرانی کے نظام میں موجود ہے اسے ہر صورت میں ختم کرنا ہوگا۔ اگر واقعی کسی مضبوط سیاسی و معاشی نظام کی جانب بڑھنا ہے تو ہمیں چھ بنیادی اصولوں کو اختیار کرنا ہوگا:
(1) نظام کے تسلسل کو قائم کرنا ہوگا اور حکومتوں کو گرانے، کمزور کرنے، مرضی کی حکومتوں کی تشکیل، حکومتی امور میں بے جا مداخلتوں کو ختم کرنے پر اصولی اتفاق کرنا ہوگا۔
(2) ہمیں حکمرانی کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے ایک نیا اور جدید سیاسی فریم ورک درکار ہے، جو اتفاق رائے سے بنے اوراس میں تسلسل کو برقرار رکھا جائے، اورکسی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے کسی سیاسی یا ذاتی مفاد کی بنیاد پر نظاموں کے ساتھ فرسودہ تجربے کرے۔ جو نظام پہلے سے موجود ہے اسی میں اصلاح کے امکانات کو تلاش کرنا اور اسے نئی جہت دینا ہی مسئلے کا حل ہوگا۔
(3) آج کی دنیا اختیارات اور وسائل کی تقسیم سے جڑی ہے، اور جہاں نظام میں شفافیت ہوگی وہی نظام اپنی افادیت منوا سکے گا۔ دنیا میں اس افادیت کے پیش نظر خودمختار مقامی حکومتوں کے نظام کو کلید کی حیثیت دی جاتی ہے، اسی کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے نظام کو وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے ضلعی سطح پر منظم، مربوط اور شفاف بنایا جاتا ہے۔
(4) کچھ بنیادی سیاسی ومعاشی پالیسیوں پر سب فریقوں میں اتفاقِ رائے ہونا چاہیے کہ ان پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور جو بھی نئی حکومت آئے گی اسے اسی بنیادی سطح کے فریم ورک کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
(5) سول ملٹری تعلقاتِ کار میں بہتری پیدا کرنا، تاکہ عدم اعتماد کے ماحول کا خاتمہ اور سیاسی حکومتوں کے تسلسل کو آگے بڑھایا جاسکے۔
(6) جو بھی حکومت آئے وہ پہلے سے موجود منصوبوں کو مزید ترمیم کے ساتھ بہتر بنائے، اس روش کو ختم کیا جانا چاہیے کہ ہر حکومت سابق حکومت کے منصوبوں کو ختم کرکے پھر الف سے نئے منصوبوں کی بنیاد رکھے۔ یہ عمل پائیدار قومی ترقی کے عمل کو آگے نہیں بڑھنے دے گا۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے تمام اسٹیک ہولڈر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور بلاوجہ اُن تجربات کو دہرانے کی کوشش نہ کریں جن کے نتائج ماضی میں مثبت نہیں مل سکے۔ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنا اور اپنی دکان علیحدہ سے سجانا، اور خود کو ہی عقلِ کُل سمجھنا اور محاذآرائی کو اپنا سیاسی ہتھیار سمجھنا… اس روش سے خود بھی باہر نکلنا ہے اور دوسروں کو بھی نکالنا ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی برتری کا احساس دلانا اور ڈکٹیشن دینا قومی معاملات میں بگاڑ کو ہی نمایاں کرے گا۔ اصل کام قومی سیاسی قیادتوں کا ہے، اور سیاسی قیادتیں جب تک خود اور اپنی سیاسی جماعتوں میں داخلی محاذ پر بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں لائیں گی، کچھ تبدیل نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پورے معاشرے میں سب کچھ بدلنے کے نعرے لگاتی ہیں لیکن اگر کوئی نعرہ ان کے پاس نہیں، یا جس پر ان کا کوئی یقین نہیں وہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر داخلی محاذ پر خود کو جمہوری بنانا ہے۔ آمرانہ مزاج، فیصلوں، شخصی نظام، عوامی معاملات سے لاتعلقی، پسِ پردہ قوتوں سے ہر سطح پر بناکر رکھنے کے کھیل اور اداروں کے بجائے خود کو مضبوط بنانے کی روش نے قومی سیاست میں تبدیلی کے امکانات کو کمزور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوریت، قانون کی حکمرانی یا سول بالادستی کی جنگ محض سیاسی نعروں یا عوام کو بے وقوف بنانے تک محدود ہوگئی ہے جو سیاسی جماعتوں کو عوام سے لاتعلقی پر مجبور کرتی ہے۔
ہمیں عملاً خواہشات کی دنیا سے باہر نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا ہے، اور کوئی بھی تجربہ محض خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلی دلیل، ٹھوس شواہد اور دیگر ملکوں کے تجربات یا علم و وسائل کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ملک کو طبقاتی بنیادوں پر چلانے کے بجائے عام آدمی کے فریم ورک میں چلانا ہوگا اور اسی کو بنیاد بناکر قومی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ہم نے 18ویں ترمیم کرلی مگر صوبائی حکومتیں نہ تو کہیں جواب دہ ہیں اور نہ ہی مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کے لیے تیار ہیں۔ پارلیمنٹ کو مؤثر انداز میں چلانے اور آگے بڑھنے کے لیے کوئی ایسے مربوط نظام یا منصوبہ بندی کا نہ ہونا بھی ہمارے لیے المیہ ہے۔ قومی ترجیحات کا عدم تعین ہی ہمارے مسائل کی بنیاد ہے، اور ایسے لگتا ہے کہ ہم حقائق سے زیادہ خواہشات پر مبنی نظام چلا کر ملک کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمیں محض ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے اپنے دامن کو بچانے کے بجائے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ جو خرابیاں ہیں انہیں پیدا کرنے کے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ جب تک ہم مجموعی طور پر بطور فیصلہ ساز یہ اعتراف نہیں کریں گے کہ ہم سیاسی تعصب، بغض اورکینہ پروری کو بنیاد بناکر فیصلے کرتے ہیں، اپنی اصلاح ممکن نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے ہمیں خود کو جھنجھوڑنا ہوگا اور دوسروں کو بھی قائل کرنا ہوگا کہ روایتی طرز پر مبنی حکمرانی کا نظام ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ کیا واقعی ہم خود کو بدلنا چاہتے ہیں؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کی شہادت بھی ملنی چاہئے۔