آئی ایم ایف کے مطالبات ختم نہیں ہوئے

پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی طور پر جن خطرات سے دوچار ہے اس میں سب سے بڑا خطرہ ملک کی معاشی بدحالی ہے۔ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے، اس وقت سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لیے جنگ خوفناک دور سے گزر رہی ہے، جانے انجام کیا ہو؟ البتہ ایک بات واضح ہے کہ سیاسی قوتیں اپنے باہم تضادات کے باعث سویلین بالادستی کی خواہش سے بھی دست بردار ہوگئی ہیں۔ ایک فریق اقتدار میں واپسی کے لیے فوج کی حمایت چاہتا ہے، دوسرا فریق اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کا طلب گار ہے۔ ملک میں عوامی حلقوں میں اٹھنے والی آوازوں کے باعث اتحادی حکومت کو سیاسی محاذ پر چیلنجوں کا سامنا تو ہے ہی، لیکن اصل چیلنج معیشت کی بہتری ہے۔ سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین اور موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے جومعاہدہ کیا، مفتاح اسماعیل اسی معاہدے کے پاسبان بن گئے ہیں۔ پاکستان جس کثیرالجہتی بحران کی لپیٹ میں ہے اس سے نکلنے کی کوئی راہ حکمران طبقوں کو نہیں سوجھ رہی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو موردِ الزام ٹھیرائے گی اور ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ غیر مستحکم ہوگی۔ اب سول بیوروکریسی میں ترقی و تبادلے، تنزلی و بحالی اور عدلیہ میں ججوں کا انتخاب بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ منتخب حکومت اور پارلیمنٹ ثانوی پوزیشن میں چلی گئی ہیں۔ اب حکومتوں کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ صرف بوجھ اٹھائیں، سیاسی ذلت کمائیں۔ یہ کیسا آزاد ملک ہے جس کی گلیاں بھی بیرونی کمپنیاں صاف کریں گی، جس کی توانائی، پانی اور بجلی کی فراہمی بھی وہی کریں گی۔ اب تو تمام تر معاشی منصوبہ بندی بھی آئی ایم ایف کے حوالے ہے۔
حکومت نے پیٹرول کے نرخ میں مزید 30 روپے کا اضافہ کرکے اسے 210 روپے لیٹر پر پہنچا دیا۔ یہ نرخ ابھی مزید بڑھیں گے اور پیٹرول فی لیٹر245 روپے ہوگا۔ پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں دس روز میں ہی جو 60 روپے اور 10فیصد کا اضافہ ہوا ہے اس سے خورونوش کی ہرشے، ٹرانسپورٹ اور مکانوں کے کرائے میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔ ابھی تو آئی ایم ایف کی دیگر شرائط پر عمل درآمد باقی ہے۔ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار افراد پر 30فیصد ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے مطابق وہ تمام افراد جو ایک لاکھ سے 10 لاکھ روپے ماہانہ کماتے ہیں ان پر 30 فیصد فلیٹ ٹیکس عائد کیے جانے کی تجویز ہے، اگر یہ ٹیکس لاگو ہوگیا تو ایک لاکھ روپے کمانے والے افراد کی ماہانہ آمدن یک لخت ستر ہزار رہ جائے گی۔ آئی ایم ایف نے ایک لاکھ روپے سے کم ماہانہ آمدنی رکھنے والے افراد پر بھی 20 فیصد ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان تجاویز کے نتیجے میں 96 ارب روپے کااضافی ٹیکس اکٹھا ہو گا۔اس نوعیت کے دیگر ٹیکس ملا کر مجموعی رقم 220 ارب روپے تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ یہ رقم آئی ایم ایف کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو گی۔ملک کے لیے اہم چیلنج آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے لیے گئے قرضوں کی واپسی ہے ۔یہ چیلنج اسی وقت ختم ہوگا جب حکومت مقامی وسائل اختیار کرے گی اور مزید قرض نہیں لے گی، توازنِ ادائیگی بہتر بنائے گی، برآمدات کو بڑھائے گی، وہی حکومت ڈالر کی شرح میں کمی لائے گی اور روپیہ مضبوط بنائے گی، یہی ہماری ملکی معیشت کا بہترین حل ہے۔ اس کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانی پڑیں گی۔
ملکوں ملکوں کی خاک چھاننے کے بعد بھی وہ مطلوبہ معاشی نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے جس کی توقع تھی۔ ہماری حکومتیں گزشتہ 75 برس سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے قومی اکنامکس کونسل بنانے کی ضرورت ہے، خبر یہ ہے کہ اب اس جانب کام شروع ہونے والا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک میں سیاسی فساد کا ایک اور دور شروع ہونے کو ہے اُن کے لیے اطلاع ہے کہ اب کوئی لانگ مارچ ہوگا نہ سیاسی دنگا فساد… اب معاملات ملک کی معیشت سنبھالنے کے لیے جامع مذاکرات کی جانب بڑھنے لگے ہیں۔ ماضی کے حقائق یہی ہیں کہ ملک میں سیاسی جماعتوں اور حکومت و اپوزیشن کے مابین اختلافات سر اٹھاتے رہے ہیں، تاہم تاریخ کا سبق یہی ہے کہ صرف طاقت یا ہٹ دھرمی سے معاملات کا کبھی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ متحارب فریقوں کو کسی نہ کسی سطح پر گفت و شنید کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑا۔ یہی دانش مندانہ کلیہ ہے۔ ہر قسم کی انتہا پسندی کا علاج بھی یہی ہے۔ پاکستان اس وقت مشکل ترین معاشی مسائل اور بھاری بیرونی قرضوں ا ور بین الاقوامی کساد بازاری کے نتیجے میں شدید ترین دبائو کا شکار ہے، ایسے میں ملک میں تمام سیاسی جماعتوں اور فیصلہ ساز طبقوں کو ذاتی عناد اور انا کو بالائے طاق رکھ کر مشکلات پر قابو پانے کے لیے ایک دوسرے کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہوگا۔ مگر زمینی صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے، ملک میں سیاسی کشیدگی خانہ جنگی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ صورت حال ایسی ہے کہ ملکی مسائل، تعلیم، صحت، صنعت اور زراعت سب کچھ سیاست کی نذر ہورہے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے اس حوالے سے متفقہ قومی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز دی گئی ہے، یہی تجویز بطور لیڈر آف دی اپوزیشن گزشتہ سال پارلیمنٹ میں پیش کی تھی کہ ملک کو آگے چلانا ہے تو ہمیں بڑے پیمانے پر مذاکرات کرنا ہوں گے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر سوچ بچار کرنا ہوگی۔ گرینڈ ڈائیلاگ میں سیاسی پارٹیاں، فوج، عدلیہ اور قومی سلامتی کے ادارے سب مل بیٹھیں اور ملک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کے لیے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنی اپنی تجاویز سامنے لائیں۔ جماعت اسلامی اس تجویز کی حمایت کرچکی ہے، تاہم تحریک انصاف نے یہ تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی ہے کہ ہم باہر سے مسلط کردہ حکومت کو تسلیم کرتے ہیں نہ اس سے کسی مسئلے پر بات چیت کریں گے۔ البتہ وہ نئے انتخابات کے مسئلے پر بات چیت کے لیے دستیاب ہے۔ جامع مذاکرات کی یہ کوئی انوکھی تجویز نہیں ہے۔ روشن مستقبل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ذاتی انا بالائے طاق رکھ کر گرینڈ ڈائیلاگ میں شامل ہوکر قومی دھارے کا حصہ بننا چاہیے۔
اشیائے خورونوش کی گرانی سے سخت کوش زندگی میں جکڑے عوام بجٹ کی آمد سے پریشان ہیں، انہیں مہنگائی نے مار رکھا ہے اور اب چولہا ٹھنڈا ہونے کا خوف انہیں کھائے جارہا ہے۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ اس وقت معاشی مسائل کے باعث اعصاب شکن دبائو میں ہے۔ سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں بھی مہنگائی کارڈ استعمال کررہی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد سے پہلے لانگ مارچ کا نام بھی ’’مہنگائی مارچ‘‘ رکھا گیا تھا، مگر آج سندھ اور پنجاب میں وہ خود مہنگائی پر چیخ پکار پر دھیان نہیں دے رہی ہیں۔ تضادات سے بھرپور ہماری سیاسی جماعتوں کی نظریں صرف اپنے اقتدار پر رہتی ہیں، یہی ان کا سانجھا مفاد ہے۔ تحریک انصاف ساڑھے تین سال حکومت میں رہی اور کوئی مختصرالمدت معاشی منصوبہ بھی نہیں دے سکی جس سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم ہوتیں۔ ہر حکومت اور اپوزیشن عوام کے مفاد میں چارٹر آف اکنامکس کرنے میں ناکام رہی ہے، ہر ایک کی اپنی ڈگڈگی اور پٹاری ہاتھ میں رہی اور وہ ملک میں نامعقول سیاسی ماحول بناتی رہی ہیں۔ ہرزہ سرائی اور لغو بیانی کرنے، اور بے ربط بیانیے تراشنے کے باوجود ایک طبقہ سمجھ رہا ہے کہ تحریک انصاف مقبول ہورہی ہے۔ کسی کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ پاکستان کی مڈل کلاس مشکل میں ہے، ملک کی ہر سیاسی جماعت انہیں معاشی مسائل کے نام پر سڑکوں پر اکٹھا کرتی رہتی ہے۔ پاکستان دو سیاسی خاندانوں بھٹو اور شریف کی حکومتوں کو تین دہائیوں سے سہتا چلا آرہا ہے، ملک کے اقتصادی حالات سخت خراب ہیں اور اب واقعی جہاد کا وقت آگیا ہے جس کے تحت ہر صورت میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ عوام پاکستان کو ایسا ملک دیکھنا چاہتے ہیں جہاں خوشحالی ہو، قانون کی بالادستی ہو، ایک خوددار ملک جہاں حکومت میرٹ پر اور مؤثر طریقے سے کام کرے۔ بس یہی دیرینہ خواب ہے جس سے پاکستانی قوم 70 سالوں سے جڑی ہوئی ہے۔ مگر اس ملک میں جہاں کبھی غیر منتخب حکمرانوں کا کنٹرول رہتا ہے، کبھی منتخب مگر کمزور حکومتوں کے سلسلے… اس لیے یہ خواب پورے نہیں ہوتے، بلکہ نہایت بگڑتے ہوئے اقتصادی حالات عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جو لوگ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں کہ سیاسی اکھاڑے میں اصل جیت کس کی ہوگی؟ ان کو پانچ اہم معاملات پر نظر رکھنی چاہیے، پہلا یہ کہ کیا عمران خان کا بالواسطہ اداروں سے رابطہ ہے جن پر وہ تنقید کرتے ہیں؟ ان کے ساتھ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے ذریعے اسلام آباد میں اسپیکر ہاؤس میںمذاکرات کرنا، کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کے حق میں ہے کہ اب پنڈی سے جھگڑے ختم ہونے چاہئیں اور سیاسی مقابلہ شہباز حکومت سے کرنا چاہیے۔ دوسری اہم بات کہ اب کوئی نیا مارچ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اور تیسرا نکتہ یہ کہ تحریک انصاف کے سیاسی حالات پنجاب میں بہت کمزور ہیں، تحریک انصاف کی صوبائی قیادت نے بھی مایوسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت کو تبدیل کردیا گیا۔
پنجاب میں مسلم لیگ(ن) نے حمزہ شہباز کی حکومت اور گورنر کے ذریعے خود کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے۔ کچھ سمجھوتا پرویزالٰہی کے ساتھ بھی ہوگیا ہے۔ ان حالات میں پنجاب میں ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن)کی برتری نظر آتی ہے، مگر یہ ضمنی انتخاب مسلم لیگ(ن) کے لیے بہت بڑا امتحان بھی ہیں، کیونکہ تحریک انصاف نے بھی ان میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ فیصلہ اس لیے ہوا کہ عمران خان کی کچھ سیاست اور کچھ کرپشن سے منسلک آڈیو ٹیپ سامنے آئی ہیں، تحریک انصاف اس دبائو سے باہر نکلنا چاہتی ہے۔ اس سب کے باوجود شہبازشریف کی متحدہ حکومت کو مہنگائی کا سامنا ہے، ایک ماہ اس حکومت کا مستقبل مخدوش تھا مگر اب یہ جم گئی ہے۔ حکومت کے لیے فوری خطرہ ٹلتا ہوا دکھائی دیتا ہے، لیکن عمران خان کے جلسوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ جلسوں میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں یہ الگ سوال ہے، اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت پورا ملک بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہا ہے، اور حکومت صرف بیانات اور طفل تسلیوں کے تیر چلا رہی ہے۔ وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے، مگر ابھی بھی چھے چھے گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھے ہزار میگا واٹ سے بڑھ گیا ہے اور 14گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ ملک بھر میں بجلی کی مجموعی پیداوار 19ہزار 135میگاواٹ، جبکہ طلب 26ہزار میگاواٹ ہے۔ وزیراعظم کو پہلی ہی بریفنگ میں بتادیا گیا تھا کہ ملک میں بجلی پیدا کرنے والے دو درجن سے زائد پلانٹ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ یا ایندھن کی نایابی کا شکار ہیں، انہیں فعال کرکے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔ کیونکہ سسٹم میں طلب سے زائد بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا تو اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ تمام پلانٹ فعال تو کردیے گئے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں جس کی درآمد کے آرڈر دیے جا چکے ہیں، یہ مسئلہ حل ہوتے ہی پوری گنجائش کے مطابق بجلی کی تیاری شروع ہوجائے گی اور ملک کے کسی بھی حصے میں لوڈشیڈنگ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ تاہم یہ تمام دعوے فی الحال غیرحقیقی ثابت ہوئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے شارٹ اور لانگ ٹرم پلان تیار کرنے، سستی اور وافر مقدار میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کرنے اور اس مقصد کی خاطر تمام وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ مسئلے کا ایک ممکنہ حل ملک بھر میں شمسی توانائی سے لوگوں کو خود اپنی ضرورت کی بجلی تیار کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اس ذریعے سے لوگ اپنے طور پر پہلے ہی استفادہ کررہے ہیں۔ حکومت نجی شعبے کو اس مقصد کے لیے سہولتیں، صحت مند مسابقت کا ماحول اور صارفین کو آسان قرضوں کی سہولت فراہم کرکے بجلی کی قلت کے دائمی حل کو ممکن بنا سکتی ہے، جبکہ زائد بجلی پیدا کرکے لوگ نیشنل گرڈ کو فراہم کرسکتے ہیں، اور یوں بجلی کی قلت دور کرنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتے ہیں، اور آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ بھی اس طرح انہیں حاصل ہوسکتا ہے۔ لیکن حکومت کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے چھوٹے بیٹے سلیمان شہباز کو ترکی کے سرکاری دورے میں لندن سے بلا کر پاکستانی وفد میں شامل کیا۔ سلیمان شہباز پاکستانی عدالتوں کی طرف سے مفرور قرار دیے جا چکے ہیں، وہ منی لانڈرنگ کے کیس میں مطلوب ہیں، انہیں سرکاری وفد میں شامل کرنا قانون سے مذاق ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک کیس میں ایف آئی اے نے عدالت سے اجازت طلب کی کہ اُسے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ دونوں سے تفتیش کی جا سکے، اگرچہ عدالت نے ان دونوں کو گرفتار کرنے کی ایف آئی اے کو اجازت نہیں دی لیکن وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو کسی نہ کسی عدالت میں ملزم کے طور پر پیش ہونا پڑتا ہے جو ایک عجیب ہی صورت حال ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں کے خلاف خصوصاً نیب نے جھوٹے سچے کیس بنائے اور اپوزیشن لیڈر اس کا شکار رہے، لیکن اب شہبازشریف وزیراعظم بن گئے ہیں تو قانون کی پاس داری کریں، مقدمات کی تحقیقات اور پراسیکیوشن کے لیے کوئی قابل عمل طریق کار بنائیں تاکہ یہ شائبہ بھی نہ ہو کہ موجودہ وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کے دوسرے رہنما مل ملا کر اپنے اپنے کرپشن کیس ختم کروا رہے ہیں۔ حکومت یہ بات ذہن میں رکھے کہ اس وقت لوگوں میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی ایک تحریک میں ڈھل رہی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان کے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور مشکلات نے انہیں گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔