کیا پاکستان خطرے میں ہے؟

اس وقت صورتحال یہ کہ ملک کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے ،جنانچہ پاکستان،سری لنکا بن کر ابھر سکتا ہے

سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک دھماکہ خیز انٹرویو میں فرمایا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ ہو جائے گی اور پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ یہ اصل میں پاکستان کا مسئلہ ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں لکھ کے دیتا ہوں کہ موجودہ حکومت بھی تباہ ہوگی اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی کیوں کہ موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدر سے نہ نکالا گیا تو ملک کے جوہری اثاثے چھن جائیں گے‘ درست فیصلے نہ ہوئے تو ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے، اگر وہ نہ رہا تو مسلم دنیا کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو علیحدہ کرنے کے لیے بیرونی منصوبے بنے ہوئے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ ملک خودکشی کی راہ پر جا رہا ہے اس لیے میں زور لگا رہا ہوں۔ عمران خان کے انٹرویو کے مندرجات پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ عمران خان مودی کی زبان بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کی خواہش ہمارے اور ہماری نسلوں کے جیتے جی تو پوری نہیں ہوسکتی۔ اِن شاء اللہ پاکستان تاقیامت آباد رہے گا۔ عمران خان اقتدار سے محروم ہو کر صدمے کی حالت میں ہیں۔ مگر ان کے انٹرویو کے مندرجات کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔ پاکستان ہر اعتبار سے سنگین خطرات میں گھرا ہوا ہے‘ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کہا ہے اُسے پڑھ کر اقبال کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے:
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ
عمران خان کل بھی اسٹیبلشمنٹ کے اندر کے آدمی تھے اور آج بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے باہر کے آدمی نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کو عمران کی پشت پر کھڑے ہوئے صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ عمران خان تقریباً چار سال اقتدار میں رہے ہیں‘ انہوں نے ملک کے نظام کو اندر اور باہر سے دیکھا ہے۔ ملک کی اگر کوئی طاقت ہے تو وہ اُس سے بھی آگاہ ہیں اور اگر ملک کی کوئی کمزوری ہے تو وہ اُس پر بھی مطلع ہیں۔ ان کے پاس نظام کی معلومات بھی ہیں‘ اس کا علم بھی ہے‘ اس کا مشاہدہ بھی ہے اور اس کا تجربہ بھی ہے، چنانچہ ان کی باتوںکو ہوا میں نہیں اُڑایا جاسکتا۔ اتفاق سے یہ عمران خان کی خوبی بھی ہے اور برائی بھی کہ اُن کے دل میں جو ہوتا ہے وہ اُن کی زبان پر آکر رہتا ہے۔ وہ اپنے خیالات‘ جذبات‘ احساسات اور تجزیے کو اپنے آپ تک محدود رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
ویسے بھی جب ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پاکستان ہمیشہ بحران اور وجودی یا Existential خطرے سے دوچار نظر آیا ہے۔ پاکستان 1971ء میں وجودی خطرے سے دوچا رتھا۔ مولانا مودودیؒ نے 1969ء میں سابق مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے بعد انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان کے یہی حالات رہے تو ملک کو متحد نہیں رکھا جاسکتا۔ خدانخواستہ یہ مولانا کی ’’خواہش‘‘ نہیں تھی‘ یہ ان کا تجزیہ تھا۔ یہ عام آدمی کا تجزیہ نہیں تھا‘ مجددِ وقت کا تجزیہ تھا۔ مولانا کے سوا یہ بات کسی نے نہیں کہی۔ پاکستان کے سارے اخبارات جھوٹ بول رہے تھے۔ وہ حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے کوشاں تھے۔ وہ قوم کو یہ بتانے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ملک دو ٹکڑے ہونے والا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جب فوجی آپریشن کے بعد ہر طرف فوج کے خلاف نفرت کی آگ لگی ہوئی تھی تو الطاف حسن قریشی صاحب قوم کو بتا رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں ہر طرف فوج کے لیے محبت کا زم زمہ بہہ رہا ہے۔ جنرل نیازی نے سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ عرصے پہلے ہی فرمایا تھا کہ بھارتی فوجیں اُن کی لاش سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہوسکیںگی۔ ملک کے صدر اور آرمی چیف جنرل یحییٰ نے سقوط ڈھاکہ سے چند روز قبل ہی قوم کو یقین دلایا تھا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو جنرل نیازی کی لاش کا کہیں پتا نہ تھا اور بھارتی فوج ڈھاکہ میں دندناتی پھر رہی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے خطاب کے پرخچے اُڑ چکے تھے اور ثابت ہو چکا تھا کہ ملک کا دفاع انتہائی کمزور ہاتھوں میں تھا۔ شاعر نے کہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سقوط ڈھاکہ ایک دم نہیں ہوا تھا۔ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ بیس سال سے بنگالیوں پر ظلم کر رہا تھا۔ ان کے معاشی اور سیاسی حقوق پامال کر رہا تھا۔ سقوط ڈھاکہ مغربی پاکستان کے حکمرانوںکے ظلم اور جبر کا منطقی نتیجہ تھا۔ اس کے سوا جو کچھ کہا جاتا ہے وہ سب افسانہ طرازی ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کی بصیرت کے سوا یہ بات کسی کو نظر نہیں آئی کہ پاکستان دو لخت ہونے والا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب قیامِ پاکستان کے بعد ہم کمزور ترین تھے تو پاکستان زندہ و تابندہ رہا۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی، اُس وقت ملک کا نظریہ توانا تھا۔ یہ وہ نظریہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھالا تھا‘ جس نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ بنایا تھا‘ جس نے افراد کے وکیل کو ایک مذہب‘ ایک تہذیب اور ایک قوم کا وکیل بنا کر کھڑا کیا تھا‘ جس نے پاکستان کے ناممکن کو ممکن میں تبدیل کیا تھا۔ یہ نظریہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی زندہ اور توانا تھا۔ دوسری اہم چیز بے مثال قیادت تھی۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد تک قائداعظم حیات رہے۔ قائد اعظم تاریخ کی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں ان کے سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ نے حرفِ آخر لکھ دیا ہے۔ ولپرٹ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ تبدیل کیا ہے۔ ایسے لوگ اور بھی کم ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ بدلا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست کو وجود بخشا ہو۔ قائداعظم نے یہ تینوں کام کیے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی طاقت کا ایک سرچشمہ قوم کا اتحاد تھا۔ قوم میں اُس وقت تک نظریۂ پاکستان کا شعور موجود تھا۔ قوم کو اپنی تقدیر ایک نظر آتی تھی۔ بدقسمتی سے سقوط ڈھاکہ کے وقت نہ ملک میں نظریہ مؤثر تھا، نہ ملک کے پاس بڑی قیادت تھی‘ نہ قوم میں اتحاد تھا۔ چنانچہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ فوج اُس وقت موجود تھی مگر فوج نظریہ‘ قیادت اور قومی اتحاد کا نعم البدل نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ فوج کی موجودگی میں ملک بکھر گیا اور فوج اسے بکھرنے سے نہ روک ،سکی بلکہ ہمارے 90 ہزار فوجیوںنے بھارت جیسے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے۔
ہمیں یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جب پاکستان پیپلزپاٹی نے حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں کے ساتھ ’’ایم آر ڈی‘‘ کے نام سے سیاسی اتحاد بنایا اور جنرل ضیا الحق کے خلاف تحریک چلائی تو جنرل ضیا نے سندھ میں تحریک کے خلاف بدترین طاقت کا استعمال کیا۔ اس وقت سندھ میں گن شپ ہیلی کاپٹر تک استعمال کیے گئے۔ چنانچہ پیپلزپارٹی کے رہنما ہی نہیں پروفیسر غفور احمد اور شاہ احمد نورانی جیسے سیاست دانوں کے بیانات میں کہا جاتا تھا کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ دیہی سندھ کے حالات کی مخدوشی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی تک نے اس سلسلے میں ایک بیان داغ دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ دیہی سندھ پاکستان کے ساتھ رہا مگر اس وقت بھی ملک میں نظریاتی خلا تھا‘ قیادت کا فقدان تھا اور قومی اتحاد ناپید تھا۔
شہری سندھ میں جنرل ضیا الحق کی پروردہ ایم کیو ایم نے ایک عفریت کی صورت اختیار کرلی تھی۔ چنانچہ 1992 ء میں اس کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو ہر طرف کراچی کے ملک سے الگ ہونے کی باتیں ہونے لگیں۔ اُس زمانے میں الطاف حسین پُر تشدد ہڑتالیں کرا رہے تھے۔ انہوں نے ایک سال میں 54 پُرتشدد ہڑتالیں کرائیں۔ دو بار انہوں نے دو‘ دو دن کی ہڑتالیں بھی کرائیں جس سے کراچی میں اشیائے خورونوش کی سخت قلت پیدا ہوگئی۔ ایک دن ہم دفتر سے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر میں بچوں کے لیے دودھ تک نہیں ہے۔ ہم دودھ کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ پانچ پانچ‘ دس دس لوگوں کی ٹولیاں اِدھر اُدھر کھڑی ہیں اور ہر ٹولے میں ایک ہی بات ہو رہی ہے کہ ’’بس بہت ہوچکا‘ اب کراچی کو الگ ہوجانا چاہیے۔‘‘ خدا کا شکر ہے یہ دور بھی جیسے تیسے گزر گیا۔ لیکن اُس دور میں بھی ملک کا نظریہ کمزور تھا‘ بڑی قیادت ناپید تھی اور قوم منقسم تھی۔
جنرل پرویز نے نواب اکبر بگٹی کو اعلان کرکے مارا۔ انہوںنے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ انہیں کس سمت سے آنے والی کس چیز نے Hit کیا ہے۔ یہی ہوا۔ انہیں ڈرون کے ذریعے مار گرایا گیا۔ اور اس عمل نے پورے بلوچستان کو ایک آتشِ فشاں بنا دیا۔ اِس وقت بھی بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک موجود ہے‘ بلوچستان کے سیکڑوں لوگ ’’لاپتا‘‘ ہیں‘ بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے اور بھارت بلوچستان کی آگ کو بھڑکانے کے لیے کوشاں ہے۔ بلوچستان کا یہ حال بھی نظریے کی عدم موجودگی‘ بڑی قیادت کی عدم دستیابی اور قومی اتحاد کی گم شدگی کا شاخسانہ ہے۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے تین ہوائی اڈے امریکہ کو دے دیے‘ ملک کی واحد بندر گاہ امریکہ کے حوالے کر دی‘ یہاں تک کہ انہوں نے امریکہ کی جنگ کو خود گود لے لیا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا ہو گئی۔ یہ خانہ جنگی 75 ہزار لوگوں کو نگل گئی۔ اس خانہ جنگی سے ملک کو 1120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس خانہ جنگی نے ملک کی بقا اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ جنرل پرویز ایسے امریکہ پرست بنے کہ مغربی پریس صدر بش کی رعایت سے انہیں ’’بشرف‘‘ کہنے لگا۔ اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے ان کے لیے دعا کرنے لگا۔ ملک میں نظریے کی بالادستی ہوتی‘ ملک کو بڑی قیادت فراہم ہوتی اور قوم میں اتحاد ہوتا تو یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔
یہ ہے وہ تاریخی تناظر جس کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں عمران خان کے انٹرویو کے مندرجات کو دیکھنا چاہیے۔ اس وقت ملک میں نظریے کا یہ عالم ہے کہ کرکٹ کا کھیل قوم کو متحد کرتا ہے‘ مگر ملک کا نظریہ قوم کو متحد نہیں کرتا۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو آئین میں قید کرکے رکھ دیا ہے‘ یہ طبقہ اسلام کو آئین سے نکلنے نہیں دیتا۔ ملک کو ایک ایسی قیادت فراہم ہے جو برسوںکے پار کیا ایک مہینے کے پار بھی نہیں دیکھ سکتی۔ جنرل ایوب‘ بھٹو اور جنرل ضیا الحق تو ’’بونے‘‘ تھے مگر نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن تو ’’بالشتیے‘‘ ہیں، ایسے لوگ قوموں پر سزا کے طور پر مسلط کیے جاتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ملک و قوم کا ’’اثاثہ‘‘ ہوتی ہیں مگر نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ملک و قوم کا ’’بوجھ‘‘ ہیں۔ نواز لیگ پنجابی پارٹی ہے‘ پیپلزپارٹی سندھی پارٹی ہے اور تحریک انصاف ’’ٹی پارٹی‘‘ ہے۔ ملک میں قومی اتحاد کا عالم یہ ہے کہ قوم ایک سطح پر پنجابی‘ مہاجر‘ سندھی‘ پشتون اور بلوچی میں بٹی ہوئی ہے‘ دوسری سطح پر فرقوں اور مسلکوں کا شکار ہے۔ تاریخ کے اس مرحلے پر ہماری معاشی حالت اتنی خراب ہے کہ ایسی خراب معاشی حالت تو 1971ء کے وقت بھی نہیں تھی۔ ملک پر 120 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضوں کا بوجھ ہے۔ ہمارا قومی بجٹ 6,000 ارب روپے کا ہوتا ہے تو 3,000 ارب روپے صرف قرضوں کے سود میں چلے جاتے ہیں‘ 1200 ارب دفاع پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ رقم کا بڑا حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے اور اس طرح ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے ہمارے پاس رقم ہی نہیں بچتی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ پاکستان دوسرا سری لنکا بن کر ابھر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی بھی محب وطن پاکستانی کی خواہش نہیں ہوسکتی مگر حقائق سے آنکھیں چرانا بھی درست نہیں۔ ہم 1971ء میں حقائق سے چشم پوشی کی قیمت آدھے ملک کی صورت میں ادا کر چکے ہیں۔ اصول ہے دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک مار کر پیتا ہے اور ہم کو دودھ کیا چھاچھ بھی جلاتی ہے۔