بچے کی نشوونما

بہت زیادہ ہیجان سے اجتناب کے ساتھ اکتاہٹ کا ہونا لازمی بات ہے۔ فرطِ ہیجان نہ صرف مضر صحت ہے بلکہ ہر قسم کی مسرت کے ذائقے کو کند کردیتا ہے۔ گہری تسکین کے بجائے چلبلاہٹ، دانائی کے بجائے چالاکی، اور خوب صورتی کے بجائے بنی سنوری، حیران کن چیزوں کا محتاج بنا دیتا ہے۔ میں ہیجان کی مخالفت کو انتہا تک نہیں لے جانا چاہتا۔ اس کی مناسب حد صحت کے لیے مفید ہے۔ لیکن دوسری ہر چیز کی طرح اصل بات مناسب مقدار کی ہے۔ ہیجان کی عدم موجودگی سے اس کی مریضانہ طلب ،اور اس کی زیادتی تھکن کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے پُرمسرت زندگی گزارنے کے لیے اکتاہٹ کو سہہ جانے کی تھوڑی بہت قوتِ برداشت کا ہونا لازمی ہے۔ یہ قوتِ برداشت بچپن ہی میں سکھائی جانی چاہیے۔
تمام بڑی کتابیں بعض غیر دلچسپ حصوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ تمام اعلیٰ ناول بھی روکھے پھیکے پیروں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ناول جو پہلے سے آخری صفحے تک دلچسپ ہے، ممکن ہے اعلیٰ ناول نہ ہو۔ بڑے آدمیوں کی زندگیاں تمام تر پُرلطف نہیں ہوتیں۔ سقراط کبھی کبھار کسی ضیافت میں محظوظ ہوتا تھا، لیکن اس نے زیادہ تر زندگی زینتھاپی (Xanthippe) کے ساتھ خاموشی سے گزاری۔ وہ بعد دوپہر ہوا خوری کے لیے نکلتا تو شاید راہ میں اسے کبھی کوئی دوست بھی مل جاتا۔ کانٹ (Kant) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عمر بھر کونگز برگ (Konigsberg) سے دس میل سے زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ ڈارون (Darwin) نے دنیا کا چکر لگانے کے بعد باقی تمام زندگی اپنے گھر کے اندر گزار دی۔ مارکس (Marx) نے چند ایک انقلابات پیدا کرنے کے بعد باقی زندگی برٹش میوزیم میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ مجموعی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ بڑے آدمیوں کی زندگی کی ایک خوبی خاموش زندگی ہوتی ہے۔ ان کی خوشیاں ایسی نہیں ہوتیں جو دوسروں کے لیے ہیجان کی حامل ہوں۔ کسی عظیم کامیابی کا حصول مسلسل محنت کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ محنت اتنی کٹھن اور اس قدر انہماک کی طالب ہوتی ہے کہ ان میں اتنی قوت ہی باقی نہیں رہتی جو ہیجان والی تفریحات کے لیے چاہیے۔ ان کی تفریحات تو اس نوعیت کی ہوتی ہیں جن سے ان کی جسمانی قوت بحال ہوجائے، جیسے چند روز کی فرصت میں صحت افزا مقام کی سیر وغیرہ۔
کم وبیش یکسانیت کی زندگی گزارنے کی صلاحیت بچپن میں ہی پیدا کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں آج کل کے والدین قصوروار ہیں۔ وہ بچوں کو کہیں زیادہ مجہول (Passive) تفریحات مہیا کرتے ہیں، مثلاً کھیل تماشا اور کھانے کی اچھی اشیا۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ بچے کے لیے یکسانیت کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ البتہ کبھی کبھار تفریح کے مواقع بھی ہونے چاہئیں۔ بچپن کی خوشیاں ایسی ہونی چاہئیں کہ بچہ اپنے ماحول سے اپنی کوشش اور اختراع کے ذریعے خوشی حاصل کرے۔ بچے کی زندگی میں ایسی تفریحات بہت کم ہونی چاہئیں جو ہیجان تو پیدا کردیتی ہیں لیکن جسمانی عمل کی شمولیت کا موقع نہیں دیتیں، جیسے تھیٹر، سینما وغیرہ۔ نشہ آور ادویہ میں ہیجان ہی ہوتا ہے جس کی ہر بار پہلے کی بہ نسبت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اور ہیجان کی کیفیت میں جسمانی جمود خلافِ فطرت ہے۔ بچے کی بہترین نشوونما یہ ہے کہ اسے ننھے پودے کی طرح اپنی ہی زمین میں آرام سے رہنے دیا جائے۔ بہت زیادہ سفر اور مختلف قسم کے تاثرات کا تنوع بچے کے لیے مضر ہے۔ ایسی باتوں سے بچے اس قابل نہیں ہوپاتے کہ بڑے ہوکر مفید یکسانیت کو برداشت کرسکیں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ یک رنگی، بجائے خود کوئی خوبی رکھتی ہے۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ بعض اعلیٰ باتیں صرف وہاں پنپ سکتی ہیں جہاں کسی قدر یکسانی اور یک رنگی ہو۔
(’’تسخیر مسرت‘‘۔برٹرینڈرسل۔ مترجم:پروفیسر محمد بشیر)

مجلس اقبال
اس کی تقدیر میں مظلومی و محکومی ہے
قوم جو نہ کر سکی اپنی خودی سے انصاف

پاکستان کے آج کے قومی نقشے اور ریاستی اور حکومتی معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ شعر علامہ کی جانب سے ”الہامی تبصرہ“ دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے علامہ نے یہ شعر آج لکھ کر بھیجا ہو۔ اقبالی عدالت ِ فکر کے قاضی کا کیا ہی خوب صورت فیصلہ ہے کہ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرسکے، اُس کا انجام مظلومی و محکومی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ غور کیجیے کہ انسانی اور زمینی نعمتوں سے مالامال سرزمین پاکستان کی نااہل، بدقماش اور بدعنوان قیادتوں نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے کہ نہ اس کے پاسپورٹ کی عزت نہ انسان کی۔ قرضوں کا لامتناہی ناروا بوجھ، سیکورٹی اور خارجہ پالیسیوں کی تشویش ناک صورتِ حال، قومی غربت بھی بے مثل اور حکمرانوں کی بے وفائی بھی لاشریک۔ علامہ درسِ خودی فرد اور قوم دونوں کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ آج فکر ِ اقبال پر قائم ریاست کے لیے اہم ترین ایجنڈا ہی یہ ہے کہ فرد اور قوم اپنی خودی کو پہچانیں۔