ناموس رسالت ﷺپر بی جے پی کا حملہ عالم اسلام کے رد عمل کو منظم اور موثر بنایا جائے

اسباب تقسیم ہند یا قیام پاکستان کی وجوہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اکثریت کی تنگ نظری، انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کی علم بردار جماعت کانگریس کی ہندو قیادت کا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ اور دیگر مذاہب بلکہ خود ہندوئوں کی نچلی ذات کے لوگوں سے متعلق بھی عدم برداشت کے جذبات ہندوستان کی تقسیم کے اہم اسباب میں سرفہرست تھے ورنہ کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کے قائد اعظم محمد علی جناح سمیت تمام قابل ذکر رہنما ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے اور مل جل کر جدوجہد کے ذریعے ہندوستان کو انگریز سے آزادی دلانے کے لیے کوشاں تھے مگر جدوجہد آزادی کے ابتدائی مراحل ہی میں انہوں نے ہندو اکثریت کے رویہ اور کانگریس کی قیادت کے یک طرفہ طرز عمل سے یہ بھانپ لیا کہ ہندو اکثریت کے غلبہ تلے مسلمان اقلیت کی زندگی اجیرن ہو جائے گی چنانچہ مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور قیام پاکستان کی تحریک کو منظم کیا گیاتاکہ مسلمان اپنے الگ وطن میں اپنے دین کے رہنما اصولوں کی روشنی میں آزادانہ زندگی بسر کر سکیں، اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان بھارت میں اپنے گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر آئے مگر اس ہجرت کے دوران ہندوئوں نے مسلمانوں کو جس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا وہ تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے اس نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان قائدین کے ہندو اکثریت سے متعلق خدشات بلاجواز نہیں تھے، پھر تقسیم ہند کے بعد سے آج تک بھارت میں مسلمانوںکے خلاف ہونے والے فسادات کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچتی ہے جن میں ان گنت مسلمانوں کو شہید و زخمی کیا جا چکا ہے۔ آج بھی ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت، کروڑوں مسلمانوں کے لیے زندہ رہنا محال بنا دیا گیا ہے۔ انہیں ذرا ذرا سی بات، خصوصاً گائو کشی کا بہانہ بنا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بھارت میں کتنی ہی مساجد شہید کی جا چکی ہیںاور بہت سی مساجد کو بتوں کی پوجا کے مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے،جمعہ کے اجتماعات اور اذان دینے پر پابندیاں عائد ہیں، حجاب کو جواز بنا کر مسلمان بچیوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں تعلیمی اداروں سے نکال کر ان پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں، بھارت کی عدالتیں بھی اپنے حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کو انصاف کی فراہمی سے گریزاں ہیں، کشمیر کے باشندوں کے ساتھ اقوام متحدہ میں بار بار وعدوں کے باوجود انہیں حق خود ارادیت دینے سے مکمل انکار کر دیا گیا ہے اور موجودہ انتہا پسند بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے بھارت میں ضم کرنے کی سازش کی ہے جس کے بعد بڑی تعداد میں ہندوئوں کو بھارت کے دیگر حصوں سے کشمیر میں لاکر آباد کیا جا رہا ہے، اس طرح شہریت کے ایسے قوانین مودی کی موجودہ انتہا پسند حکومت میں بنائے گئے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یوں بھارت میں آباد مسلمان اکثریت کی انتہا پسندی اور ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں اذیت ناک صورت حال سے دو چار ہیں…!
اب تک جاری ذہنی و جسمانی اذیت کے بعد تازہ واقعات میں مسلمانوں کو روحانی اذیت پہنچانے کا اہتمام کیا گیا ہے اور مسلمانوں کی حساس ترین رگ پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی ترجمان نو پور شرما نے محسن انسانیت، نبی رحمت حضرت محمدؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ بیان دے کر پوری امت مسلمہ کی غیرت ایمانی کو للکارا ہے،یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ کے مصداق اس قسم کی حرکات قبل ازیں بھی یورپی ممالک خصوصاً فرانس میں سرکاری سرپرستی میں کی جاتی رہی ہیں جن پر اگر امت مسلمہ بھی متحد ہو کر جاندار رد عمل کا مظاہرہ کرتی تو بی جے پی کی ترجمان کو تازہ ہرزہ سرائی کی جرأت نہ ہوتی، اس حرکت کو کسی ایک فرد کی انفرادی شرارت اس لیے قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ایک جانب اگر بی جے پی نے نوپور شرما کو اس کے عہدے سے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تو دوسری جانب اس ہرزہ سرائی پر احتجاج کرنے والے بھارتی مسلمانوں کے خلاف پولیس سے تشدد کرایا جا رہا ہے اور دوسری جانب ڈیڑھ ہزار سے زائد مسلمانوں کے خلاف قومی سلامتی کے قوانین کے تحت مقدمات درج کر لیے گئے ہیں اس طرح سرکاری حوصلہ افزائی اور درپردہ سرپرستی کے سبب بی جے پی کے ایک اور رہنما نے بھی گستاخانہ ہرزہ سرائی کا اعادہ کیا ہے تاہم مقام شکر یہ ہے کہ اس واقعہ کے خلاف بھارت اور پاکستان ہی نہیں عرب ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر عوامی اور سرکاری سطح پر احتجاج ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھی جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے بھارت کے خلاف موثر آواز بلند کی ہے، پوری مسلمان دنیا میں بھارت اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی انتہا پسند حکومت اور ہندتوا کی علمبردار حکمران جماعت نے سرخ لکیر عبور کر لی ہے جس پر موثر رد عمل کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے حکومت پاکستان کو اس انتہائی جارحانہ اقدام کے جواب میں بھارتی سفیر کو دہلی واپس بھیجنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات منقطع کرنے کی جانب بڑھنا ہو گا پوری دنیا پر بھارت کے مذموم عزائم بے نقاب کرنے کے لیے بیرون ملک سفارتکاروں کو متحرک کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح مسلم دنیا میں سامنے آنے والے رد عمل اور احتجاج کو منظم کرنے کے لیے او آئی سی کو بھی متحرک کیا جانا چاہئے تاکہ احتجاج کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا جا سکے… آخری گزارش مسلم دنیا خصوصاً پاکستان کے ذرائع ابلاغ سے یہ ہے کہ وہ بھی اس ضمن میں اپنے کردار کی اہمیت کو سمجھیں اور دینی غیرت اور قومی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی اداکاروں اور کھلاڑیوں وغیرہ کو نمایاں کرنے کی بجائے بھارت اور اس کی مصنوعات و شخصیات کے بائیکاٹ کی مہم کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)