کسی بھی نظریاتی تحریک کے فروغ کے لیے فکری لٹریچر بنیادی ضرورت ہے، جس کو پڑھ کر یا سُن کر کوئی فرد تحریک اور اس کی دعوت سے متعارف ہوتا ہے۔ یہ ضرورت خالقِ کائنات اور سلطانِ کائنات نے اپنی باشعور مخلوق یعنی انسان کی فطرت میں رکھی ہے۔ اسی لیے انسان کی ہدایت کے لیے جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک نبی، پیغمبر اور رسول مبعوث کیے، وہیں کتابیں بھی نازل کیں جن میں چار کتب کے نام تو تاریخ میں محفوظ ہیں: زبور، توریت، انجیل اور قرآن مجید۔ نیز بہت سے صحائف بھی نازل کیے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید کو چونکہ قیامت تک انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا اس لیے اسے آج تک کسی زیر زبر کی کمی بیشی کے بغیر اپنی اصلی اور مکمل حیثیت میں محفوظ رکھا گیا ہے، جبکہ باقی آسمانی کتابوں میں متعلقہ قوموں نے تحریف کرکے انہیں اصلی حالت میں نہ رہنے دیا۔
اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کے ابلاغ، اشاعت اور اقامت کے لیے آغاز سے تاحال اجتماعی جدوجہد کا تصور موجود رہا ہے، اور مختلف اوقات میں بہت سے ممالک میں اس غرض کے لیے جماعتیں بناکر اجتماعی جدوجہد کو جاری رکھا گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی اس مشن کو پورا کرنے کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پر ہم فکر لوگوں نے جمع ہوکر جماعت اسلامی قائم کی، جو آج پوری توانائی کے ساتھ پاکستان، بھارت، سری لنکا، کشمیر میں مصروفِ عمل ہے، اور الحمدللہ صرف تنظیم ہی نہیں بلکہ عوام الناس کی رہنمائی اور فکری غذا کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر شعبۂ حیات سے متعلق بھرپور لٹریچر بھی رکھتی ہے۔
سید مودودیؒ نے بیس سال سے کم عمر میں قلم کے ذریعے اسلامی ضابطۂ حیات سے آگاہی اور اقامتِ دین کی عملاً جدوجہد کرنے کے لیے ذہن سازی کا مشن شروع کیا، اور 1941ء تک زندگی کے ہر موضوع پر فکری رہنمائی فراہم کی۔ ماہنامہ ترجمان القرآن مولانا کی ادارت میں نکلتا تھا۔ ہر تحریر پہلے ترجمان میں آتی، اور جب کسی موضوع پر خاصا مواد تیار ہوجاتا تو اس کو ادارہ ترجمان القرآن کی طرف سے کتابی صورت میں شائع کردیا جاتا۔ جماعت اسلامی قائم ہوجانے کے بعد جملہ لٹریچر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی شائع کرتا۔ 1958ء کے مارشل لا کے بعد ایک باقاعدہ اشاعتی ادارہ اسلامک پبلی کیشنز قائم کیا گیا جس کے پہلے منیجنگ ڈائریکٹر میاں طفیل محمد تھے۔ یہ ادارہ تاحال سرگرم عمل ہے۔ جوں جوں جماعت کا کام پھیلتا گیا اور تحریر کے میدان میں بہت سے لوگوں کی نگارشات آتی گئیں۔ غلبہ اسلام کی فکری جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لئے مختلف افراد اور اداروں نے اپنا حصہ ادا کیا، ان اشاعتی اداروں میں مختلف افراد تجارتی ادارے بھی اور غیر منافع بخش بھی۔
موٹی اور ضخیم کتب کا مطالعہ بہت کم انسانوں کا ذوق ہوتا ہے۔ اکثریت مختصر اور مؤثر تحریر کو پسند کرتی ہے، اور کتاب کی معمولی قیمت بھی ادا کرنا اکثر لوگوں پر بار محسوس ہوتا ہے، اسی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر جماعت اسلامی کے درویش رہنما مولانا خان محمد ربانیؒ امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان نے غیر تجارتی بنیاد پر ایک اشاعتی ادارہ ملتان میں ’’فرینڈز پبلی کیشن‘‘ کے نام سے قائم کیا، جس نے چھوٹے چھوٹے پملفٹ کی صورت میں ’’خطبات‘‘، ’’دینیات‘‘ اور دیگر کتب سے مخصوص عبارات لے کر ’’سوچنے کی باتیں‘‘، ’’کلمہ طیبہ کا مطلب‘‘، ’’حکومت کی خرابی خرابیوں کی جڑ‘‘، ’’جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے‘‘، ’’مکتوباتِ نبوی‘‘، ’’قرآنی دعائیں‘‘، ’’صفات المومنین‘‘، ’’صفات المجرمین‘‘ اور تربیت گاہوں کے لیے نصابِ حدیث ہزاروں کی تعداد میں شائع اور انتہائی ارزاں قیمت پر فراہم کیں۔ بہت سارے افراد نے خریدکر عوام الناس میں مفت تقسیم کیں۔ پاکستان بھر کے علاقوں کی جماعتوں نے تقسیمِ لٹریچر کی مد میں اس کو تقسیم کیا۔ بلاشبہ لاکھوں لوگوں تک اسلام کی تحریری دعوت پہنچی۔ ربانی صاحب نے خود مزدور کے طور پر اس لٹریچر کی اشاعت میں حصہ لیا، چھپائی، کٹائی، اسٹیپل، بنڈل سازی غرض ہر مرحلے پر اپنی محنت کا حصہ ڈالا اور پھر سائیکل چلانی نہ آنے کے باوجود سائیکل پر بنڈل رکھ کر مطلوبہ مقام تک پہنچائے اور دورہ جات کے دوران بھی بیرونی آرڈرز کے مطابق لٹریچر کے بنڈل ہمراہ لے جاتے تھے۔ ذاتی لگن اور دین سے اخلاص کے بغیر یہ کیسے ہوسکتا تھا! یہ عظیم خدمت انجام دے کر ربانی صاحب رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ان کی وفات کے بعداشاعتی ادارہ بند ہوگیا۔