’’سبقت ممنوع‘‘

’’یہ بتائیے کہ برق چمکتی ہے یا برق گرتی ہے؟‘‘
صاحبو! یہ سوال ہے سید شہاب الدین کا، سعودی عرب کے شہر جدّہ سے۔ سوال کی آڑ میں شہاب بھائی نے ہمارے نام ایک طویل ’برق نامہ‘ بھی تحریر کر مارا ہے۔ آج کل ہر چیز ’برقی‘ ہوتی جارہی ہے، بلکہ ہر شے ’برقیائی‘ جا رہی ہے۔ نامہ ہی نہیں نامہ بر بھی۔ یہ شکوہ فقط داغؔ ہی کو تھا، جو قاصد کو روانہ کرنے کے بعد گھر کے باہر ٹیڑھے کھڑے ہوکر اُس کی رفتار اور اُس کی چال ڈھال کا بغور معائنہ کرر ہے تھے کہ
قاصد یہاں سے برق تھا پر نصف راہ سے
بیمار کی ہے چال، قدم ناتواں کے ہیں
مگر اب قاصد کی بیماری و ناتوانی کا برقی علاج کردیا گیا ہے۔ بجلی کے جھٹکوں نے اسے چاق و چوبند اور مستعد و ’’چُستعد‘‘ بنادیا ہے۔ برقی قاصد اب ہماری اُنگلیوں کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ انگلیاںتختۂ کلید پر تھرکتی رہتی ہیں۔ جوں ہی خط مکمل ہوتا ہے یہ برقی نامہ بر ایک اشارۂ انگشت پر فقط لمحے بھر میں نامہ بنامِ یار کو سات سمندر پار تک پہنچا آتا ہے۔ اس سے زیادہ برق رفتاری اور کیا ہوگی؟
شہاب بھائی! لغت کے لحاظ سے تو ’برق‘ چمکتی ہے۔ بادلوں کی رگڑ سے چمک اٹھنے والی بجلی کو برق کہا جاتا ہے۔ زمین پر گرنے والی بجلی ’صاعقہ‘ کہلاتی ہے۔ اپنی زمین پر دیکھیے تو نہ جانے کتنی ’صاعقائیں‘ لوگوں پر بجلی گراتی نظر آئیں۔ مگر جیسا کہ آپ نے خط میں نشان دہی فرمائی، علامہ اقبالؔ نے مسلمانوں پر گرنے والی ہر آسمانی ’صاعقہ‘ کو برق ہی گردانا ہے: ’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘۔ اقبالؔ ہی نے نہیں، اُردو کے دیگر شعرا نے بھی ’برق گرنے‘ یا ’برق بن کر گرنے‘ کی تراکیب استعمال کی ہیں۔ چلیے اس بحث کا خاتمہ ہم ’کلیۂ رئیسانی‘ کی مدد سے کیے دیتے ہیں۔ اُردو میں برق، رعد، صاعقہ اور کہربا سب بجلی ہیں، سو: ’’بجلی بجلی ہوتی ہے، گرے یا چمکے یا چلی جائے‘‘۔
ویسے برق کے لفظی معنی ظاہر ہونے، چمکنے یا روشن ہونے کے ہیں۔ مجازاً چمکتی چیزوں کو بھی برق سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اگر کسی کا لباس اُجلا اور خوب چمک رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’سفید بَرّاق لباس زیب تن کر رکھا ہے‘۔ ’بَرّاق‘ انتہائی سفید کے معنوں میں ہے، مثلاً ’زاغِ شب بگلے کے پر سے بھی کہیں بَرّاق ہو‘۔ زاغِ شب کا مطلب ہے رات کا کوّا، یہ سیاسی پرندہ رات بھر ٹی وی پر کائیں کائیں کرتا رہتا ہے۔ بہرحال لغوی برق تو کوندتی ہے۔ ’رعد‘ اُس آواز کو کہتے ہیں جو بادلوں کی رگڑ سے پیدا ہو۔ اسے کڑک، گرج یا Thunder کہا جاتا ہے۔ اُردو میں اس کا رشتہ بھی بجلی ہی سے جوڑتے ہیں۔ لہٰذا اِس دل دہلاتی آواز کو اردو میں ’بجلی کا کڑکا‘ کہا گیا۔ بقول حالیؔ:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
’بجلی کڑکنے‘ کی اسی آواز کو ’بادل گرجنا‘ بھی کہتے ہیں۔ اللہ جانے کہاوتیں کہنے والوں سے کس نے کہہ دیا کہ ’جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں‘۔ بھلا آسمان پر چڑھ کر کس نے تصدیق کی ہے؟ ’صاعقہ‘جیسا کہ اوپر عرض کیا، زمین پر گرنے والی بجلی کو کہتے ہیں۔ اردو نثر میں ان معنوں میں اس لفظ کا استعمال کثرت سے نہیں ہوا۔ شعروں میں البتہ ہوا ہے۔ انیسؔ کا ایک شعر ہے:
اِک صاعقہ گرتے ہوئے جو دُور سے دیکھا
موسیٰ نے اسی نور کو تھا طور سے دیکھا
اس شعر سے پتا چلتا ہے کہ صاعقہ مذکر ہے۔ اہلِ لغت نے بھی اس لفظ کو’اسمِ مذکر‘ ہی لکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں مؤنث کا اسم صاعقہ ہوتا ہے۔ شعرا نے صاعقہ کا لفظ بالعموم طُور پر گرنے والی بجلی کے لیے استعمال کیا ہے۔ ’’محاصرۂ ادرنہ‘‘ میں اقبالؔ بتاتے ہیں کہ محصور ہوجانے کے بعد شکریؔ نے ’آئینِ جنگ‘(Martial Law) نافذ کرکے ذمیوں کو اپنا مال ذخیرۂ لشکر میں جمع کرانے کا حکم دیا:
لیکن فقیہِ شہر نے جس دم سنی یہ بات
گرما کے مثل صاعقۂ طور ہو گیا
ذمی کا مال لشکرِ مسلم پہ ہے حرام
فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہو گیا
’صاعقہ‘ کے لیے شعر میں بھی برق یا بجلی کے الفاظ زیادہ استعمال کیے گئے ہیں۔ ’برقِ حوادث اللہ اللہ، جھوم رہی ہے شاخِ نشیمن‘۔ ’برق نے میرا نشیمن نہ جلایا ہو کہیں‘۔ ’گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو‘۔ ’بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو‘۔ وغیرہ۔
’کہربا‘ مصنوعی بجلی کو کہتے ہیں۔ عالمِ عرب میں Electricity کو ’کہربا‘ ہی کہا جاتا ہے۔ بجلی سے چلنے والی ہر چیز ’کہربائی‘ ہوتی ہے۔ بجلی کا کام کرنے والا شخص یعنی الیکٹریشن بھی ’کہربائی‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں مصنوعی بجلی بھی برق ہے۔ پر برقی رَو کم کم ہی آتی ہے۔ جاتی زیادہ ہے۔ کسی سے کوئی کام پھرتی سے کروانا ہو تو پہلے کہا جاتا تھا کہ ’بجلی کی طرح جائیو اور بجلی کی طرح آئیو‘۔ مگر یہ محاورہ اب متروک ہوچکا ہے کہ اب اگر کسی نے اس پر عمل کیا تو سمجھو گھنٹوں کے لیے گیا۔ بجلی سے چلنے والی مشینوں کا شمار کبھی ہم ’برقی آلات‘ میں کرتے تھے۔ برقی جھاڑو، برقی پنکھا، برقی زینہ اور برقی ترازو وغیرہ۔ ’ہائیڈرو الیکٹری سٹی‘ یعنی پانی سے بننے والی بجلی کے لیے ہم نے علمِ طبیعیات میں ’برقاب‘ کی اصطلاح پڑھی۔ کیسی دل کش اصطلاح ہے: ’برقِ آب‘۔ پازیٹو یا نیگیٹو الیکٹرک چارج کے لیے طبیعیات میں ’مثبت یا منفی برقی بار‘ جیسے مختصر الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ الیکٹرو میگنیٹک ویوز کو ’برقناطیسی لہریں‘ اور کسی چیز کی ’الیکٹری فکیشن‘ کو ’برقانا‘کہا جاتا تھا۔ الیکٹرون کو ’برقیہ‘ کہتے تھے۔ ٹیلی گرام سے بھیجا جانے والا پیغام بھی ’برقیہ‘ تھا۔ ’الیکٹرونک میل‘ یا ’ای میل‘ کے لیے اردو میں اِس چھوٹے سے حسین لفظ کو استعمال کرنا شروع کردیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ مسلسل استعمال سے یہ لفظ یقیناً عام اور مانوس ہوسکتا ہے۔ جب تک قرضے کا ڈنڈا دِکھا کر انگریزی زبان کو ہم پر بزور مسلط نہیں کیا گیا تھا، ہمارے اداروں کے نام اُردو میں بھی لکھے جاتے تھے۔ مثلاً KDA ’ادارۂ ترقیاتِ کراچی‘ ہوتا تھا، KMCبلدیہ عظمیٰ کراچی، KESC’ادارۂ فراہمیِ برق کراچی‘ اور KW&SBکو ’ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب، کراچی‘ کہتے تھے۔ اسی طرح WAPDA’ادارۂ ترقیاتِ برق و آب‘ تھا۔ اگرLDA اور CDAکا نام بھی علی الترتیب ’ادارۂ ترقیاتِ لاہور‘ اور ’ادارئہ ترقیاتِ دارالحکومت‘ رکھ دیا جائے تو کیا ولایتی قرضے(اونچی شرحِ سود پر) ملنا بند ہوجائیں گے؟ صاحب! ولایتی ملکوں نے تو اپنے ہر ادارے کا نام اپنی ہی زبان میں رکھا ہے۔ تو اُن کی نقل کیجیے نا! ہم اپنے ملک کے کسی محکمے میں داخل ہوں تو ان محکموں سے کوئی اپنائیت محسوس نہیں ہوتی۔ کمروں پر لگی تختیوں اور میز پر دھرے کاغذوں کی زبان دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی پرائے ملک کے کسی دفتر میں داخل ہوگئے ہوں۔ یہی حال بڑے بڑے بازاروں اور بڑی بڑی شاہراہوں کا ہے۔ کابل کی مصروف ترین شاہراہوں کے کنارے آپ کو ایک تنبیہی تختی نظر آئے گی ’’سبقت ممنوع‘‘۔ اپنی شاہراہوں پر اپنی زبان استعمال کرنے کے معاملے میں، شاید اسی تختی کے احترام میں، ہم افغانیوں پر سبقت نہیں لے سکے۔ ہم ہی کیا؟ لڑائی مار کُٹائی میں تو افغانیوں سے انگریز سبقت لے سکے، نہ روسی نہ امریکی۔ سب اپنا اپنا منہ پِٹا کے گئے۔’حقیقی آزادی‘ تو افغانیوں کو حاصل ہے۔