خوش ذائقہ خطوط

کہا جاتا ہے کہ قلم و قرطاس کا دور لد گیا، وہ زمانہ گیا جب اہلِ قلم کے ہاتھ میں سچ مچ کا قلم ہوتا تھا۔ وہ قلم جس کی نِب سے صفحۂ قرطاس پر حرفوں کی نازک پتّیاں اور لفظوں کے رنگا رنگ پھول بکھیر دیے جاتے تھے۔ اب تو ہاتھوں کی اُنگلیاں لیپ ٹاپ کے تختۂ کلید پر، یا موبائل فون کی تختی پر تھرکتی رہتی ہیں۔ کتب و رسائل کے قارئین ہی کو نہیں، نامہ و پیغام کے ناظرین کو بھی، بقولِ اکبرؔ ’’حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا‘‘۔ اس طرح کاغذ کی خوب بچت ہورہی ہے۔ مگر کتابوں کی طباعت و اشاعت کا بِیڑا اُٹھائیے تو پتا چلتا ہے کہ کاغذ تو مہنگے سے مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اب بھی کتابیں چھاپے چلے جارہے ہیں اور ایسی ایسی کتابیں چھاپ رہے ہیں، جنھیں پڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کتنا قیمتی کاغذ ضائع کردیا گیا۔
خودکار آلاتِ ابلاغیات کی آمد سے قبل لوگ بقلم خود خط لکھا کرتے تھے اور خط کی ترسیل کے لیے قاصد کے محتاج رہا کرتے تھے۔ اب تو بہ انگشتِ خود لکھتے بھی ہیں اور بہ انگشتِ خود بھیج بھی دیا کرتے ہیں۔کیسے کیسے اشعار تھے جو خطوط نویسی کی بدولت دنیائے شعر و سخن کو میسر آئے۔ صرف غالبؔ کے چند مصرعے اور اُنھیں کا ایک شعر ملاحظہ کرلیجیے۔ ’قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں‘۔ ’یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا؟‘ ’دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر‘۔ ’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‘۔ ’غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا‘۔ ’مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے‘۔ اور:
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ، اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے، تو چھپائے نہ بنے
غالبؔ کے خطوط دنیائے اُردو ادب میں ایک مثال بنے۔ مشہور ہے کہ غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔ مکتوب نگاری کا شمار اوّل اوّل ادب میں نہیں کیا گیا۔ مگر ادیبوں کے خطوط نے اس مشغلے میں بھی ادبی شان پیدا کردی۔ اب اسے ایک ادبی صنف سمجھا جانے لگا ہے۔ بہت سے مشاہیر کے مکتوبات کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں، جن سے اُن کی زندگیوں کے اوجھل حصے بھی سامنے آگئے ہیں۔
اس وقت ہمارے مطالعے کی میز پر مشہور مصنفہ اور افسانہ نگار محترمہ نیر بانو مرحومہ کے مکاتیب کا مجموعہ دھرا ہوا ہے۔ عنوان ہے ’’مکاتیبِ نیّر‘‘۔ یہ حصۂ اول ہے۔ اس حصے میں صرف وہ خطوط شامل کیے گئے ہیں جو محترمہ نیّر بانو نے ’’اپنی بیٹی اور داماد کے نام‘‘ لکھے ہیں۔ ان خطوط کو ترتیب دینے والی خواتین محترمہ سلمیٰ یاسمین نجمی اور محترمہ فرزانہ چیمہ خود بھی مصنفات اور ماہرِ مزاحیات ہیں۔
آپا نیر بانو مرحومہ نہ صرف ادیب، ادیب گر اور دانشور تھیں بلکہ دینِ حق کو دوسروں تک پہنچانے والی سرگرم، فعال، متحرک اور باعمل مبلّغہ بھی تھیں۔ اِبلاغ و تبلیغ ایک ہی مصدر سے بنے ہوئے دو الفاظ ہیں۔ نیّر بانو نے ہر ذریعۂ ابلاغ سے دینِ حق کی تبلیغ ہی کی، خواہ وہ تقریر ہو، تصنیف ہو یا مکتوب نگاری۔
’’مکاتیب نیر‘‘ میں ۵۶ خطوط داماد کے نام اور ۱۹۵ خطوط بیٹی کے نام ہیں۔ داماد کا نام خواجہ محبوب الٰہی ہے اور بیٹی کا نام سلمیٰ یاسمین نجمی۔ کتاب بے حد دلچسپ ہے۔ ان خطوط کے مندرجات تو اُنھیں باتوں پر مشتمل ہیں جو بیٹیوں یا دامادوں سے گفتگو کے موضوعات ہوتے ہیں۔ مگریہ محض خطوط کا مجموعہ نہیں۔ بیٹیوں، دامادوں اور ساسوں کے لیے ایک ’’رہنماکتاب‘‘ (Guide Book) بھی ہے۔ خطوط کا انداز مکالماتی ہے۔ ان خطوط میں ادبی چاشنی اور دہلی کی ٹکسالی زبان کے چٹخارے تو ہَئیِں۔ مگر ’’بیٹی کے نام‘‘ خطوط میںاُس چٹوری زبان کو بھی پکوانوں کے چٹخارے خوب خوب چٹائے گئے ہیں جودہلوی پکوانوں کا مزہ لوٹنے کو لپ لپ کرتی رہتی ہے۔ مکتوبات کے دلچسپ مکالمات سے لطف اندوزی اور سبق آموزی سے پہلے ماں بیٹی کے مابین دُوبدُو ہونے والے مکالموں کی ایک جھلک دیکھ لیجیے۔ کتاب کے ذائقے اور اس کے چٹخاروں کا کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ محترمہ سلمیٰ یاسمین نجمی لکھتی ہیں:
ہم دونوں کا مکالمہ کچھ یوں ہوتا تھا:
’’سر پر ہاتھ رکھ کر روؤگی۔‘‘
’’کس کے سر پر؟‘‘ ہم حیران ہوتے۔
’’اپنے سر پر اور کس کے سر پر۔‘‘
’’امی جان رونے کے لیے سر پر ہاتھ رکھنے کی تک سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے تو آج تک کسی کو سر پر ہاتھ رکھ کر روتے نہیں دیکھا۔‘‘
’’تمھاری کٹ حجتیوں سے میں تنگ آگئی ہوں۔ تم سر پر ہاتھ رکھ کر ہی روؤگی۔‘‘
’’آخر میںکیوں روؤں گی؟ روئیں میرے دشمن۔‘‘
’’دشمن تو کیا خاک روئیں گے۔ وہ روئے گا جس کے پلّو سے تم بندھو گی۔‘‘
’’تو سر پر ہاتھ تو وہ رکھے گا نا جو روئے گا۔ آپ مجھے کیوں کہہ رہی ہیں۔ اور ہاں موصوف کیا دوپٹہ اوڑھتے ہیں، پلّو دوپٹے کا ہوتا ہے نا!!‘‘
پھر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا۔ (صفحہ: ۶۔۷)
آپا نیر بانو کے صبر کا اندازہ اُن کے ایک خط سے ہوتا ہے۔ یہ خط انھوں نے سیالکوٹ سے ۱۴؍دسمبر ۱۹۶۰ء کو اپنے داماد کے نام لکھا ہے۔ خط کے مندرجات سے پتا چلا کہ داماد صاحب اپنی نئی نویلی دُلھن کو لے کر کسی مغربی ملک میں مقیم ہوا چاہتے ہیں۔ خط کے آغاز کی بے ساختگی دیکھیے، پھر سبق لیجیے:
’’خط ملا۔ لاہور سے گھوم پھر آئی ہوں۔ یوں سمجھیے ہفتہ بھر کی چھٹی منائی۔ ارے بھائی ہاری جیتی کچھ تو مانو۔ اپنے خیال کی تائید سے خوش نہیں ہوئے تو کیا مخالفت درکار تھی؟ …(آگے چل کر لکھتی ہیں) … سلمیٰ کی طبیعت کا جتنا مجھے اندازہ ہے اس سے میں یہ سمجھی ہوں کہ ایسی موم کی بنی تو دکھائی دیتی نہیں۔ ورنہ اپنے ملک میں کیا کچھ نہیں ہے۔ ناسازگار ماحول میں اپنی فکر کو قابو میں رکھنا بھی غنیمت ہے۔ یہ محض خدا کی تائید ہے کہ فکر اور قدم بہکنے نہ پائیں۔ میں نے اس کی تربیت میں ابتدا ہی سے یہ خیال رکھا تھا کہ زبردستی نہ کچھ سکھاؤں نہ بناؤں۔ برے اور بھلے کی تمیز پیدا کی اور ارادہ و اختیار کو اُبھارا۔ اگر بھلائی کی راہ اختیار کرنی ہے تو اپنے ارادہ و اختیار سے کرو۔ دنیا میں قدم قدم پر ترغیب و تحریص کی راہیں کھلی ہیں۔ میں کب تک اُنگلی پکڑ پکڑکر چلاؤں گی۔ دوسری بات میرے ذہن میں یہ رہی کہ مخالف افکار یا عمل سے پہلے ہی تصادم میں چاروں شانے چت نہ گرے۔ ابھی بچی ہے (ایسی بچی بھی نہیں) صلاحیتیں پوری طرح بروئے کار نہیں آئیں۔ لیکن اگر دعائیں، تربیت اور خون کا ورثہ کوئی معنی رکھتا ہے تو مجھے خدا کی ذات سے امید ہے کہ وہ مجھے شرمندہ نہ کرے گا۔ اپنی بیٹی کے لیے اپنے قلم سے کچھ لکھنا عجب سا لگتا ہے۔ مگر موقع ایسا آ پڑا ہے۔ لیکن یہ بھی سوچیے کسے لکھ رہی ہوں۔ کوئی بھی انسان خوبیوں کا مجموعہ نہیں ہوا کرتا۔ فی الحال اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی برداشت کرنا پڑیں گی۔ لڑکی لڑکی ہی ہوتی ہے۔‘‘ (صفحہ: ۴۱۔۴۲)
ایک خط جو ۲۲؍اگست ۱۹۶۷ء کو سیالکوٹ سے غالباً مشرقی پاکستان بھیجا گیا ہے، اُس میں رقم طراز ہیں:
’’کل تمھارا خط ملا…میں باوجود ارادے کے کل ہی جواب نہ لکھ سکی۔ وہ میرے گھٹنے میں ضرب آگئی ہے۔کچھ توتکلیف کی مجبوری کچھ پرسشِ احوال کے لیے آنے والوں کا وقت میں تصرف۔آج رات نو بجے کے وقت فرصت ملی ہے۔
تم نے سلمیٰ کی پریشانی کی بابت لکھا ہے کہ وہ مغربی پاکستان آنے کے خیال سے ناخوش ہورہی ہے۔ یہ جھگڑا میری سمجھ میں تو آیا نہیں۔ یہ ایسی کون سی بات ہے جس کے پیچھے انسان اپنی جان کھوئے۔ میرے نزدیک اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ ہم لوگ جو ہمیشہ ہمیشہ کو اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر آئے ہیں جہاں دوبارہ پیر رکھنے کی نہ اُمید نہ توقع۔ تم دونوں میاں بیوی ہی آپس میں نمٹو۔ مجھے درمیان میں مت لاؤ۔ مجھے تم پر یقین ہے۔ آخر تم نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ وہ عقل کا فیصلہ ہوگا جذبات کا نہیں۔ عورتیں ذرا جذباتی زیادہ ہوتی ہیں۔ جب جذبات کا دباؤ کم ہوگا تو سلمیٰ بھی ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ (صفحہ:۱۱۷)
سلمیٰ ٹھیک ہوئیں یا نہیں، پتا نہیں چلا، مگرشاید یہ لوگ مشرقی پاکستان سے واپس آ ہی گئے۔ خطوط کا زمانہ گزر گیا۔ طرح طرح کے فون آگئے۔ مگر محترمہ نیر بانو مکتوب نگاری ہی کو ’’خیریت نیک مطلوب‘‘ ہونے کا ذریعہ جانتی رہیں۔ ۱۸؍ مئی ۱۹۹۴ء کو تحریر کیے جانے والے خط میں داماد صاحب کو لکھتی ہیں:
’’مجھے آپ لوگوں کی خیریت کاغذ پر چاہیے فون پر ہوائی بات نہیں، جس کے بارے میں عقل مند لوگوں نے کہا ہے یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی‘‘۔ (صفحہ:۱۲۷)
’’بیٹی کے نام‘‘ خطوط لکھتے ہوئے ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء کو اپنی افسانہ نگار ’’دِھی‘‘ کودھیمے دھیمے سمجھاتی ہیں:
’’اری پگلی ایک خلوت کا روپ ہوتا ہے ایک جلوت کا۔ خلوتیانِ راز کا درجہ جانتی ہونا۔ ہر روپ پر جدا جدا نگاہ رہنی چاہیے۔ دونوں کوگڈمڈ کرنے کی غلطی نہ کرنا۔ پکے سے پکا عارف بھی آخر انسان ہوتا ہے۔ جتنا بڑا عارف ہوگا اتنا ہی بھرپور انسان ہوگا۔ انسان کو انسان چاہیے، دنیا کو عارف۔ خدا تمھارے سہاگ کو بھرپور رکھے اور مانگ کو ٹھنڈا۔‘‘ (صفحہ:۱۳۸)
۲۷؍ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو ایک خط سیالکوٹ سے لندن بھیجا گیا جس میں بڑی بہن نجمی کو چھوٹی بہن انجم کی مصروفیتوں سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا گیا:
’’جمعیت طالبات خوب چل رہی ہے۔ دلی شوق سے خدا کے لیے کام کرتی ہے، اس کا اثر ہے۔کل بڑی رونق تھی۔ تیس لڑکیاں تھیں۔ دو مہینے ہوگئے کام ہلکا نہیں پڑا۔ یہ ضرور ہے میری مدد بھی شامل ہے مگر اصل کام کرنے والی تو وہی ہے۔ میری سب سے بڑی آرزو یہی تھی کہ میری لڑکیاں دین کے معاملہ میں میری ہم خیال، ہم نوا، مددگار اور ساتھی بنیں۔ کچھ لوگ جو دین کی روشنی حاصل کرنے کے لیے میرے گھر کا رُخ کرتے ہیں میرے بعد ان کو یہاں اندھیرا نہ ملے۔ اب مجھے امید ہوگئی کہ یہ شمع جلتی رہے گی۔ اللہ انجم کے ارادوں میں استقامت بخشے اور خدا کرے مجھے بہو بھی ایسی ہی ملے۔‘‘(صفحہ: ۱۸۱)
’’بیٹی کے نام‘‘ خطوط دلی کے چٹخارے دار پکوانوں کی تراکیب سے اَٹا اَٹ بھرے ہوئے ہیں۔ نمونے کے طور پر ایک اقتباس پڑھ لیجیے:
’’مغز دوطرح پکتا ہے۔ کچا اور اُبال کر۔ اُبلا ہوا تو آسان ہے۔ مغز جھلی کے اندر ہی دھویا اور اُبال لیا۔ پھر اس کی جھلی اور رگ
پٹھے صاف کرکے پلیٹ میں رکھ لیا۔گھی میں ایک گٹھی پیاز کا لچھا سرخ کیا اور مغز ڈال دیا اورنمک مرچ چھڑک کر بھون لیا، ہلکا سا۔ اور ہرا دھنیا اور ادرک کی ہوائیاں چھڑک کر ڈھکنا ڈھک کر اُتار لو۔ دوسری ترکیب یہ ہے کہ پہلے کچے ہی مغز کو اچھی طرح دھو ڈالو۔ جھلی اور رگیں صاف کردو۔ پھر اسے اچھی طرح پھینٹ لو۔ ایک بڑے بھیجے میں آدھا پاؤ دہی ڈال کر ساتھ ہی پھینٹ لو۔ نمک، مرچ، ہلدی اور پسا ہوا لہسن بھی ملادو۔ پتیلی میں پیاز کا بھگار تیار کرکے مغز ڈال دو اور پکنے دو۔ بھنائی پر آجائے تو اچھی طرح بھون کر اتار لو۔ ادرک، دھنیا ہرا ڈال دو۔‘‘ (صفحہ: ۱۴۵)
ان خطوط میں مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، نعیم صدیقی اور آپا حمیدہ بیگم سمیت متعدد اکابر کے تذکرے ہیں۔ تحریکی سرگرمیوں کی رُوداد ہے۔ سیاست پر تبصرے ہیں۔ بیتے ہوئے عہد کی ایک جھلک ہے اور مٹتی ہوئی تہذیب کی چلتی پھرتی تصاویر۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کتاب ہر سسر، ساس، بہو، بیٹی داماد اور مائیں کم از کم ایک بار ضرور پڑھ لیں۔ اس سے اپنے قابلِ قدر خاندانی نظام کو محفوظ رکھنے کا جذبہ پروان چڑھے گا۔
کتاب کے کُل صفحات ۳۷۲ ہیں، قیمت ۷۰۰ روپے۔ ناشر ادارۂ عفت راولپنڈی ہے، اور کتاب منگوانے کے لیے:
, +92 51 5564998 +92 51 5568998پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔