”مسلسل رونا لگا ہوا ہے، عجیب طریقے کی بے چینی… نہ دودھ پی رہا ہے نہ ہی پانی، ابکائیاں آرہی ہیں، بخار بھی ٹوٹ نہیں رہا ڈاکٹر صاحب، پتا نہیں کیا کیا پلا چکی ہوں! کیا کروں آخر“۔
شدید گرمیوں کے دن، درجہ حرارت چالیس سے اوپر، اور ایسے کمرے جن کے اوپر کوئی اور چھت نہیں۔ ان میں حبس، گھٹن، درجہ حرارت باہر چالیس اور اندر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مزید زیادہ ہے۔
گرمی لگنا، گرمی کی وجہ سے ڈھیلا پن، وغیرہ۔
تین مختلف درجات میں گرمی اپنا اثر انسانی جسم پر ڈالتی ہے، اور اس کی وجہ سے بچے متاثر ہوکر وہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے، اس میں مزید خرابی اُس وقت آتی ہے جب والدین سمجھ نہیں پاتے۔
گرمی کی وجہ سے پسینہ آنا شروع ہوتا ہے، اور اس کو اگر پانی پلا کر یا بہت چھوٹے بچوں میں زیادہ دودھ پلا کر پورا نہ کیا جائے تو پانی کی کمی ہوجاتی ہے، اس پانی کی کمی کی وجہ سے بچے میں چڑچڑا پن شروع ہوجاتا ہے، یہ چیز اگر بڑھ جائے تو بخار سا محسوس ہونے لگتا ہے، پیشاب کم ہوجاتا ہے، پیشاب کا رنگ زیادہ پیلا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ان علامات کو اگر سمجھا نہ جائے تو خرابی بڑھتی جاتی ہے، چڑچڑا پن ڈھیلے پن میں بدلنا شروع ہوجاتا ہے، کوئی چیز پلانے کی کوشش کریں تو ابکائی، الٹی آتی ہے اور پانی کی مزید کمی ہوجاتی ہے، جسم میں پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ نمکیات بھی توازن برقرار رکھ نہیں پاتے اور کبھی کبھی جسم میں نمک بہت زیادہ ہوجائے تو بچے کو جھٹکے لگ جاتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ شدید گرمی کے دنوں میں Heat Exhaustion یا گرمی کی شدت سے ڈھیلا پن سمجھ لیں، اس کے ساتھ ہی Heat cramps یا گرمی کی وجہ سے جسم میں پٹھوں کی اکڑن اور درد وغیرہ شروع ہوجاتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ بچہ یا کوئی بھی شخص گرمی میں گرم کمرے میں، گرم گاڑی میں موجود ہے، وہاں اس کو ہوا میسر نہیں یا کم ہے، گرم ہے، ایسے میں ٹھنڈا ہونے کے مواقع نہیں، بچے کے جسم کا پانی تیزی سے پسینے کی صورت میں ضائع ہوگا اور تھوڑی دیر بعد وہ چکر اور ڈھیلا پن محسوس کرے گا، دل کی رفتار بڑھ جائے گی اور کنفیوز سا محسوس ہوگا۔ جسم کا درجہ حرارت بھی بڑھا ہوا محسوس ہوگا۔ اگر اس ماحول سے اسے نہیں نکالا گیا، یا ٹھنڈک کا کوئی انتظام نہیں کیا جاسکا تو وہ بے ہوش بھی ہوسکتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ بہت دیر تک گرمی میں باہر سورج کی روشنی میں رہے.. وجوہات اس کی جو بھی ہوں.. شدت کی وجہ سے گرمی لگ سکتی ہے، اس کو ہیٹ اسٹروک کہتے ہیں۔ درجہ حرارت 104-105 تک پہنچ جائے تو جسم کا پسینہ ضائع ہوکر جسم خشک ہوجائے گا اور جسم کی جلد ٹھنڈی محسوس ہوگی مگر درجہ حرارت بہت ہوگا، دل کی رفتار بہت تیز ہوگی، کنفیوژن ہوگا، جھٹکے ہوں گے۔ یعنی آپ گرمی کی شدت کی وجہ سے پانی اور نمکیات کے غیر متوازن ہونے سے شاک (shock) کی کیفیت میں چلے جائیں گے۔
یاد کریں چند سال پہلے رمضان کے مہینے میں کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے کئی اموات ہوئی تھیں۔ ان تمام باتوں کا مقصد آپ کو خوف زدہ کرنا بالکل نہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ وہ معلومات آپ تک پہنچا دیں جس سے آپ گرمی کے دنوں میں اس کی شدت سے خود بھی محفوظ رہیں اور اپنے بچوں کو بھی محفوظ رکھ سکیں۔
اب کام کی بات: ”کریں کیا؟“ یہ سوال بہت پوچھا جاتا ہے۔
چھت کا کمرہ ہے، چادروں کی چھت ہے، گرمی سے تپنے لگتا ہے اور بجلی بھی چلی جاتی ہے، اب کیا کریں؟ یہ بالکل عملی صورت حال ہے۔
مجبوری ہے کہ گھر میں بچت کرکے بیٹری سے چلنے والے پنکھے کا انتظام رکھیں، چاہے دیگر اخراجات میں کٹوتی کرنی پڑے، گھر کے پردوں کو پانی سے گیلا کردیں، بچوں کو ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنائیں، گہرے رنگ کے کپڑے گرمیوں میں نہ پہنائیں، تین چار ماہ سے چھوٹے بچوں کو مائیں بار بار دودھ پلائیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ مائیں خود زیادہ پانی پئیں، کم از کم دس بارہ گلاس، پانی کے علاؤہ ORS بھی کچھ پی سکتی ہیں، چاول کی پیچ، لیموں پانی، سکنجبین، شہد ملا پانی، تاکہ ماں کا دودھ زیادہ بہتر مقدار میں چھوٹے بچوں کو مل سکے۔
بچوں کو لپیٹ کر بالکل نہ رکھیں، صرف ایک کپڑوں کی تہہ۔ زیادہ کپڑے پہنائیں گے تو گرمی زیادہ لگے گی۔
چار مہینے سے زیادہ عمر کے بچوں کو پانی پلایا جاسکتا ہے، اور تھوڑا بہت گرمی کے دنوں میں ORS بھی، دودھ زیادہ سے زیادہ پلائیں، بچے کے پیشاب کے رنگ پر نظر رکھیں، اگر زیادہ پیلا ہے تو پانی کی کمی ہورہی ہے، خیال کریں۔
اسی طرح بڑے بچوں کو زیادہ پانی اور کچھ ORS ضرور دیں۔ بازار کے کولاز،سافٹ ڈرنکس کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ تازہ پھلوں کا رس دے سکتے ہیں۔
دھوپ کے اوقات میں باہر بلا ضرورت نہ نکلیں، اور نکلنا ضروری ہو جیسے اسکول سے واپسی یا ڈاکٹر کا وزٹ تو ہلکے کپڑے، چھتری، اور ہیٹ کا استعمال کریں، گاڑی کے شیشے اگر کھڑی ہے تو کھلے رکھیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ گرمی لگ گئی ہے تو فوراً ٹھنڈی ہوادار جگہ پر لٹائیں، ٹانگیں کسی چیز پر رکھ کر اوپر کردیں، کپڑے ڈھیلے کردیں، کم کردیں، فوراً ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنا شروع کردیں تاکہ جسم کے درجہ حرارت کو کم کیا جاسکے، اور اگر مریض پورے ہوش و حواس میں ہے تو اس کو پانی پلائیں۔ اگر مریض کنفیوز ہے، یا ہوش میں نہیں تو ہرگز ہرگز کچھ پلانے کی کوشش نہ کریں، فوری طور پر مریض کو اسپتال پہنچانے کا انتظام کریں۔
گرمی کے دنوں میں خود بھی احتیاط کریں اور اپنے آس پاس والوں کو بھی بتائیں کہ گرمی لگنا خطرناک ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔