دہلی میں بھارتی عدالت نے تحریک آزادی کے راہنما محمد یاسین ملک کو عمرقید کی سزا سنادی ہے۔ یاسین ملک پر 120 الزامات پر مبنی فردِ جرم عائد کی گئی تھی جس کا دفاع کرنے سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ سنائیں اور مجھے پھانسی دیں، میں اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ یاسین ملک کی اس بات کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ بھارتی اداروں کی طرف سے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کے حق میں دلائل دئیے گئے تھے جن کا ذکر عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی کیا تھا۔
محفوظ فیصلہ سنانے کے دن یاسین ملک کو دوبارہ سخت حفاظتی حصار میں عدالت لایا گیا۔ اس موقع پرجج نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت سے ان کی سزائے موت کی درخواست کی ہے، جس پر یاسین ملک نے کہا کہ وہ عدالت سے کسی قسم کی بھیک نہیں مانگیں گے مگر عدالت کو ان کے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ جج نے یہ کہہ کر ”اب ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے“ سوالوں کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے دن کشمیر میں ہڑتال تھی جبکہ بھارتی فوج نے کسی بھی صورتِ حال سے بچنے کے لیے شہر و دیہات میں کرفیو نافذ کررکھا تھا۔ اس کے باوجود لوگوں کی ٹولیاں سری نگر کے مائسمہ علاقے میں یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوکر ان کی حمایت میں نعرے لگاتی رہیں۔ بھارتی فوج نے ایسے درجن بھر نوجوانوں کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے نہایت ذلت آمیز انداز میں پیش کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں لوگوں کی آواز کو دبانے کے لیے جبر کا تہہ در تہہ نظام قائم کررکھا ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں نے بھرپور احتجاج کرکے بھارتی عدالت کے فیصلے کو مسترد کیا۔ آزاد کشمیر میں مکمل شٹر ڈائون رہا اور اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے لائن آف کنٹرول پر چکوٹھی کے قریب احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بیرونی دنیا میں بسنے والے کشمیری بھی اس روز اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کشمیر میں 5 اگست 2019ء سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی کے لیے قائم روایتی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے بھی اس فیصلے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اس سے امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ یاسین ملک کی سزا کے فیصلے کے روز اُن کے گھر کی کھڑی پر اُن کی ہمشیرہ کی قرآن پاک پڑھتے ہوئے ایک تصویر وائرل ہوئی۔
یاسین ملک بھارتی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے پہلے سربرآوردہ کشمیری راہنما ہیں۔ اس سے پہلے بھارت نے جرم آزادی میں یا تو مقبول بٹ اور افضل گورو کی طرح حریت پسندوں کو تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا، یا پھر سید علی گیلانی کی طرح غیر اعلانیہ عمرقید میں رکھ کر اُن کے جہانِ فانی سے رخصت ہونے کا انتظار کیا، اور اب شبیر احمد شاہ اور دوسرے قائدین مختلف مقدمات میں جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یاسین ملک کشمیر کی اُس سیاسی قیادت کا حصہ ہیں جس نے اپنا حال قوم کے آزاد و باوقار مستقبل کے لیے وقف کیے رکھا۔ اس راہ کو منتخب کرنے والوں کی زندگیاں یا تو جیلوں میں گزر گئیں یا پھر صعوبتوں کی کسی اور زنجیر نے انہیں تاحیات جکڑے رکھا۔ اس نسل نے اپنا حال خراب کرکے قوم کا مستقبل سنوارنے کا بارِ عظیم سنبھال لیا۔ یہ کوئی آسان راستہ نہیں بلکہ کانٹوں بھری راہ ہے۔ دس سال کی نظربندی کے بعد اس راہ پر چلنے والے سید علی گیلانی کا جنازہ بھی چھین کر رات کی تاریکی میں دفن کرکے اُن کی قبر پر پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس راہ میں چلنے والے مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کے پھندوں پر چڑھاکر ان کی قبروں کے نشان بھی نہیں چھوڑے جاتے کہ مبادا یہ نشان نئی نسل کے لیے قوت کا سامان بن جائیں۔ اس راہ کا انتخاب کرنے والے اشرف صحرائی کسی روز جیلوں کی تنگ و تاریک فضا میں اپنوں سے دور گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتے ہیں۔ اسی قطار میں شبیر شاہ، نعیم خان اور مسرت عالم جیسے لوگ ہیں اور نہ جانے کب ان کی باری آجائے۔ کشمیریوں کی اس نسل سے بھارت خصوصی طور پر خار کھاتا ہے کہ اس نسل نے بھارت کے قبضے کو چیلنج کیا، اور یوں کشمیر ایک انقلاب سے آشنا ہوا۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس نسل کو حراست میں جان سے ختم کرکے یا پھانسی دے کر اور طویل عرصے تک جیلوں میں رکھ کر کشمیریوں کی نئی نسل کو آزادی جیسے نعروں سے توبہ تائب کرا سکتا ہے۔ اس نسل کے خاتمے کے بعد کشمیر میں نہ تو آزادی کے حوالے سے دوبارہ کوئی فصل لہلہائے گی اور نہ اس کی آبیاری کی کوئی جرات کرسکے گا۔ اس لیے وہ ایک پوری نسل کو نشانِ عبرت بنائے ہوئے ہے۔ کچھ یہی سوچ کر بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت چھیننے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ سرکاری فرمان نے جموں وکشمیر کو یونین ٹیریٹری کا نام تو دیا مگر کشمیریوں کے دل ودماغ تسخیر نہ کیے جاسکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں بدستور ایک دلدل میں کھڑا ہے اور اس کا اعتراف بھارت کے معتدل مزاج دانشور بھی کررہے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے دی وائر ٹی وی کے کرن تھارپر کو کشمیر کے حوالے سے ایک اہم انٹرویو میں کہا کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر کی صورتِ حال مزید سنگین ہوکر رہ گئی ہے۔کشمیر میں تحریک ایک نئے انداز اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔