ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل سب سے بڑا مسئلہ کیوں؟
مغرب اب تک شکست و ریخت کا شکار کیوں نہ ہوسکا؟ یہ وہ سوال ہے جو مغرب پر تنقید کرنے والوں کے لیے اہم ترین ہے۔ اس کا سادہ سا جواب عوام کا ریاست پر اعتماد ہے۔ مغرب کی جدید ریاست کہ جس کی بنیاد ہی جمہور کی آزادی پر رکھی گئی اور گزشتہ دو سو سال میں اس ریاست نے اپنے آپ کو مذہب سے بتدریج اس قدر دور کردیا کہ آج مغرب میں رہنے بسنے والوں کی بڑی تعداد لادین ہے، یعنی وہ کسی بھی مذہب یا دین کی پیروی نہیں کرتے بلکہ کھلے عام اپنے آپ کو لادین کہتے ہیں۔ یہی کچھ ریاست میں موجود مغربی نظامِ جمہوریت کی بنیاد بھی ہے کہ جہاں ”عوام کی ریاست عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے“ کا تصور کارفرما ہے۔ ریاست اپنے قوانین عوامی امنگوں کے مطابق بناتی ہے گوکہ دعویٰ تو یہی ہے، لیکن ذرا اس کا ایک اجمالی جائزہ بھی سامنے رہنا چاہیے۔
حکومتوں کی تشکیل کے لیے منعقدہ انتخابات میں عوام کی شرکت اس نظام پر عوامی اعتماد کو جانچنے کا ایک اہم پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ عوام کا اپنے نمائندوں کو منتخب کرنا اس جمہوری عمل کو استحکام بخشتا ہے کہ جہاں وہ نمائندے مغربی جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کے لیے قانون سازی اور ان کو سہولیات بہم پہنچاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس جمہوری عمل یعنی انتخابات میں اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے عمل میں کتنے فیصد افراد حصہ لیتے ہیں؟ اس کا تجزیہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جمہوریت پر عوام کے اعتماد کا اندازہ لگایا جاسکے۔ برطانیہ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات اس لیے بھی اہم تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ یہی مقامی حکومتیں جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہیں اور صحت، تعلیم اور سوشل سیکورٹی کا سارا کام یہی مقامی حکومتیں سرانجام دیتی ہیں، اور ان مقامی حکومتوں میں کامیاب ہونے والے ہی آگے چل کر ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی میئر لندن رہ چکے ہیں۔ برطانوی دارالعوام کی جاری کردہ دستاویز کے مطابق گزشتہ 100 سال سے برطانیہ میں انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے والوں کی شرح 71 فیصد سے زائد رہی ہے جوکہ اب تک جمہوریت پر عوام کے اعتماد کا اظہار ہے۔ اگر ہم اس کو مزید دیکھنا چاہیں تو برطانوی انتخابات میں سب سے کم ووٹ ڈالنے کی شرح 2001ء کے عام انتخابات میں 59.4 فیصد ریکارڈ کی گئی جو کہ بعد میں بتدریج بڑھ کر پھر 60 فیصد سے زائد ہوگئی۔ اس بات کو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی بھی نظامِ حکومت عوام کے اعتماد اور ان کی شمولیت کے بغیر نہ پروان چڑھ سکتا ہے اور نہ ہی باقی رہ سکتا ہے، لہٰذا مغربی جمہوریت کی ہزار خرابیوں کے باوجود اس میں موجود احتساب کا نظام ابھی تک عوام کا جمہوریت پر یقین قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کی مثال اس سے بھی واضح ہے کہ گزشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پر دورانِ کورونا لاک ڈاؤن وزیراعظم ہاؤس میں اپنے عملے کے ساتھ پارٹیاں کرنے کا انکشاف ہوا۔ گوکہ یہ پارٹیاں سالگرہ و دیگر کے حوالے سے تھیں، لیکن کیونکہ یہ لاک ڈاؤن قانون کی خلاف ورزی تھی لہٰذا برطانوی پولیس حرکت میں آئی اور وزیراعظم سمیت دیگر افراد جوکہ اس پارٹی کا حصہ تھے، کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا اور تحقیق کے بعد برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر افراد کو جنہوں نے اس پارٹی میں شرکت کی، لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے جرمانہ عائد کیا۔ برطانوی وزیراعظم نے بھی ان الزامات کی آزادانہ تحقیق کے لیے ایک سینئر بیوروکریٹ کی صدارت میں کمیشن قائم کیا، اس کمیشن نے بھی وزیراعظم کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔ یہ ہے آزادانہ جمہوری معاشرے کی روایت، کہ جہاں پولیس سے لے کر بیوروکریسی تک بغیر کسی دباؤ کے کام کرتی ہے اور وزیراعظم جیسے فرد کو بھی جوکہ سربراہِ حکومت ہے، کسی جرم پر ایک عام شہری کے پلڑے میں رکھتی ہے۔ قانون و انصاف ایک عام شہری اور ایک بااثر فرد ہر ایک کے لیے برابر ہیں۔ یہی اقدار مغرب کو بہت سی برائیوں کے باوجود ابھی تک دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز کیے ہوئے ہیں۔
ریاست کا اہم ترین کام عوام کی فلاح و بہبود ہے، اور مغرب میں ریاست اس سے غافل نہیں ہے۔ اس کام کے لیے ریاست میڈیا، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں پر اپنے وسائل صرف کرتی ہے۔ میڈیا اس کے لیے ذہن سازی کرتا ہے، لوگوں کو تعلیم دیتا ہے اور ان کو ایک اچھی طرزِ زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے فرد کا معاون و مددگار ہو، جہاں مغرب اپنے فلاحِ معاشرہ کے اصولوں کے مطابق معاشرے بنائے، اس کا آغاز اسکول سے کیا جاتا ہے کہ جہاں ایک بچے کو اسکول میں بنیادی اخلاقیات کی مغرب کے زاویے سے تعلیم دی جاتی ہے اور اس کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ماحول کہ جہاں انسان کو رہنا ہے، اس کو آلودہ ہونے سے بچانا، درخت لگانا، دوسروں کو ان کا حق دینا، اپنی باری کا انتظار کرنا، قطار لگانا، دوسروں کی دل آزاری و دل شکنی نہ کرنا، حوصلہ افزائی کرنا، سچ بولنا، جھوٹ سے مکمل اجتناب، بڑوں کا ادب وغیرہ… یہ سب معاملات بچوں کو اسکول میں بطور نصاب بھی اور دیگر سرگرمیوں سے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے پورے مغرب میں یکساں نصاب رائج ہے کہ جہاں بچوں کو کیا پڑھانا ہے اور کیا کچھ دیگر سرگرمیوں سے سکھانا ہے اس کا پورا پیکیج موجود ہے۔ ہر ادارے کو اس کی مکمل پابندی کرنا ہوتی ہے کیونکہ یہاں پر اسکول کے معائنے کا سرکاری نظام بھی بہت سخت ہے کہ جس کی مکمل رپورٹ جاری کرکے اسکولوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ہر بچے کو تعلیم دینا ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ سولہ سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرنا ہر بچے پر لازم ہے، اگر کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا تو اس کے والدین کو جرمانہ اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا حتمی نتیجہ بچے کو ریاستی تحویل میں لینا بھی ہوسکتا ہے۔ اسکول سے فارغ ہوکر اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرنے والوں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ کا اہتمام ہے کہ جس سے کوئی بھی فرد اپنی متعلقہ فیلڈ میں ٹریننگ حاصل کرکے روزگار کا بندوست کرتا ہے۔
عوامی فلاح کے ضمن میں حکومت عوام سے غافل نہیں ہوسکتی۔ صحتِ عامہ کا ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا ہے جس میں ہر فرد کو صحت کی مکمل سہولت بلا کسی ترجیح کے مفت میں حاصل ہے۔ صحتِ عامہ کا مطلب کسی کا بیمار ہوکر اسپتال تک جانا نہیں بلکہ اس بیماری اور ان بیماریوں کے تدارک کے لیے حکومت ازخود قبل از وقت اقدامات کرتی ہے، مثلاً شدید سردی میں نمونیا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے لہٰذا حکومت کم آمدنی والے افراد کے گھر کو گرم رکھنے کے لیے فنڈز مختص کرتی ہے تاکہ سردی کی شدت کی وجہ سے کوئی فرد بیمار ہوکر اسپتال کا رخ نہ کرے، یا یہ تعداد کم سے کم ہو۔
تعلیم و صحتِ عامہ کے ساتھ جو نظام قابلِ ستائش ہے وہ امنِ عامہ و پولیس کا نظام ہے۔ بظاہر یہاں پر نہ تو پولیس ناکے ہیں اور نہ ہی اسلحہ بردار پولیس.. لیکن نظام ایسا تشکیل دیا گیا ہے کہ ہر فرد کسی بھی غیر قانونی بات کو فوری پولیس کو رپورٹ کرتا ہے، یعنی معاشرے کا ہر فرد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا معاون ہے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ پولیس کو بھی اسی سماج کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اور پولیس عام آدمی ہو یا خاص.. ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرتی ہے۔ اس نظام کی کامیابی جس سوچ میں پنہاں ہے وہ یہ کہ پولیس کا کام عوام کی بہبود ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پولیس محض چالان کاٹنے اور مجرموں کو پکڑنے کا نام نہیں، بلکہ وہ معاشرے کی بنیادوں سے کسی بھی انحراف پر کارروائی کرتی ہے اور سب کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرتی ہے۔ پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے کو بحال رکھنے کے لیے حکومت خود بھی سروے منعقد کرواتی ہے اور آزاد ذرائع اس پر رپورٹ بھی مرتب کرتے ہیں، ان تمام رپورٹس و سروے پر حکومت اقدامات کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال: گزشتہ دنوں لندن میں ایک پولیس افسر نے اپنی کزن کو تشدد کے بعد قتل کیا تو معاشرے میں ایک بھونچال آگیا، عوام پولیس کے اس کردار پر شدید غم و غصّے کی حالت میں تھے۔ پولیس کمشنر نے خود میڈیا کے سامنے آکر اس قتل کی وضاحت دینے کے بجائے ایک پولیس افسر کے انفرادی فعل پر پوری پولیس فورس کی جانب سے معافی مانگی۔ یہ ہے وہ رویہ جو اداروں پر اعتماد کو بحال رکھتا ہے۔
مغرب میں اداروں اور ان کے انتظام و انصرام کو اولیت حاصل ہے اور کسی بھی فرد، حتیٰ کہ وزیراعظم کے لیے بھی ادارے اپنے قوانین میں کوئی ردو بدل کرنے کے بجائے قوانین کے مطابق کارروائی کرتے ہیں۔
بظاہر دنیا کو ”جنت کا ٹکرا“ بنادینے کے باوجود مغرب میں بھی بے چینی، بے یقینی اور مایوسی نے بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان مایوسیوں، ناامیدیوں اور بے یقینی کا دوسرا نام جدید سائنس نے ڈپریشن رکھا ہے۔ اس وقت مغرب میں ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل سب سے اہم مسئلہ ہیں۔ جہاں جدید سائنس نے انسان کی طبعی عمر میں اضافہ کیا ہے وہیں اس کو نت نئے دکھوں سے بھی دوچار کردیا ہے، اور زیادہ عمر بھی مغرب میں اب ایک مسئلے کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ ڈپریشن اور اعصابی تنائو یہاں کا ایک عام مسئلہ ہے کہ جس میں ہر قوم اور ہر رنگ و نسل کے لوگ شامل ہیں۔ یہ ڈپریشن مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن ان سب میں قدرِ مشترک انسان کا خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمہ وقت سرگرداں رہنا… صبر، شکر و قناعت کے بجائے ہل من مزید کی دوڑ ہے جس کی جھلک ہم کو مغرب میں خوب نظر آتی ہے۔ مغرب میں نفسیاتی مسائل صبر و شکر اور قناعت نہ کرنے سے وابستہ ہیں۔ اب جدید مغربی دنیا اس بات پر بڑا سرمایہ خرچ کرکے تحقیق کررہی ہے کہ انسان کو خوش کیسے رکھا جائے؟ کیونکہ یہ مادی پیمانے، یہ نظام زندگی بھی انسان کی تمام خواہشات کو پورا کرنے کے لیے شاید ناکافی ہے۔ مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن برطانیہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ اس پر ایک مفصل تبصرہ ہے، تاہم اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہاں بیان کرنا صورت حال کی عکاسی ہی ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق ہر 6 میں سے ایک برطانوی باشندہ ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہے، اور اس میں سب سے زیادہ تعداد 16 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے۔ اور اگر جنس کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان خواتین میں ذہنی و نفسیاتی مسائل کا تناسب مردوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں یہ اضافہ تناسب کے لحاظ سے دو سے تین گنا ہوچکا ہے۔ یعنی اس سب مادی ترقی کے باوجود کہ جہاں خوراک، گھر، روزگار یا روزگار الاؤنس، سب کچھ ریاست کی ذمہ داری ہے وہاں کا نوجوان بھی اس سے مطمئن نہیں ہے اور اس بے اطمینانی میں کمی آنے کے بجائے روز اضافہ ہورہا ہے۔ اس بے اطمینانی اور بے چینی کے مظاہر مختلف صورتوں میں نظر آتے ہیں، مثلاً زندگی کا خاتمہ کرلینا… اور مغربی ممالک میں کہ جہاں خودکشی جرم ہے، وہاں بھی اس کو جائز بنانے کے لیے قانون سازی کے لیے لابنگ کی جارہی ہے۔ دوسرا مختلف اقسام کا نشہ جس میں شراب اس کی کم سے کم حد ہے۔ تیسرا جوکہ اب مغرب میں شاید دوبارہ اہم سمجھا جانے لگا ہے وہ ہے مذہب کی جانب رجوع، گوکہ اس کی رفتار کسی قدر کم ہے لیکن یہ بھی ایک آپشن ہے جس کو اختیار کیا جاتا ہے۔ بظاہر جنت نظیر مغرب کہ جہاں ”ریاست ماں کے جیسی“ کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہاں بھی انسانیت کسی اور چیز کی تلاش میں ہے، اور یہ بے اطمینانی حکومتی اقدامات، ریسرچ اور نت نئے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس صورتِ حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس بڑی تعداد میں اسلام یا اسلام کا نظام اُن کی ترجیح تاحال نہ بن سکا؟ اس سوال کے جواب میں گوکہ بہت سے تجزیے و تبصرے کیے جاسکتے ہیں لیکن کوشش ہوگی کہ آئندہ اس پر ہی بات کی جائے کہ کیوں ابھی تک مغرب میں رہنے والے اسلام کو متبادل کے طور پر نہیں دیکھ رہے؟