ـ15 برس کے تعطل کے بعد ترکی اسرائیل تعلقات کی بحالی

اسرائیلی صدر کی ترکی یاترا کے بعد گزشتہ ہفتے ترک وزیرخارجہ مولت چاوش اوغلو نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ترک وزیرخارجہ نے اس دوران رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین (PA) کی قیادت سے ملاقات کی اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس کے دورے میں جناب اوغلو کو متحدہ عرب امارات کے وفد کی طرح کسی قسم کے منفی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم ان کی آمد پر کوئی جوش و خروش بھی نظر نہیں آیا۔ تین سال پہلے صدر اردوان کی فلسطینیوں میں مقبولیت ترکی سے زیادہ تھی۔
بلاشبہ خلافتِ عثمانیہ اسرائیلیوں کی محسنِ اعظم ہے۔ پندرہویں صدی کے اختتام (سن 1480 کے قریب) پر ترک حکمران سلطان بایزید دوم نے یورپ میں بدسلوکی بلکہ نسل کُشی کا شکار یہودیوں کو یروشلم کے قریب آباد ہونے کی اجازت دی تھی۔ اسرائیلی اسے اپنی تاریخ کا سنہری دور گردانتے ہیں جب ترکوں کے رعب کی وجہ سے انھیں روس اور بحیرہ بلقان کے ساحلی علاقوں میں امن و امان نصیب ہوا۔
جنگِ عظیم دوم میں امریکہ، روس اور برطانیہ کے دبائو کو نظرانداز کرتے ہوئے عثمانیوں نے اس خونریزی میں حصہ نہیں لیا جسے متعصب مغرب نازیوں کی حمایت سے تعبیر کرتا ہے۔ اسی مغربی تکبر کا اظہار نائن الیون سانحے کے بعد امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے یہ کہہ کر کیا کہ ”دہشت گردی کی جنگ میں جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے“۔ جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود ترکوں نے اپنے غیر جانب دار رویّے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی یورپ میں نسل کُشی کا نشانہ بننے والے ہزاروں یہودیوں کو اپنی حفاظت میں فلسطین لاکر بسایا، جبکہ اسی دوران برطانیہ نے نازی ہمدرد کا الزام لگاکر فلسطین میں آباد یہودیوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکایا۔ اُس وقت فلسطین میں آباد یہودیوں کی غالب اکثریت روسی نژاد تھی اور روسی حکمرانوں کو بحیرہ بلقان و بحر اسود دونوں جگہ ترک بحریہ کی بالادستی پسند نہ تھی، چنانچہ روس نے بھی یہودیوں میں آگ لگائی۔ عجیب بات کہ روسی مظالم سے تنگ آکر ان روسی یہودیوں نے فلسطین ہجرت کی تھی جو عثمانی خلافت کا حصہ تھا۔ اپنی تقریروں میں روسی نژاد یہودیوں کے رہنما دیوڈ بن گوریان ترکوں کو اپنا محسن قرار دیتے تھے۔ یہ بات تو قارئین کو معلوم ہی ہوگی کہ بن گوریان موجودہ اسرائیلی ریاست کے بانی قرار دیے جاتے ہیں۔ آنجہانی، اسرائیل کے پہلے وزیراعظم تھے۔
قیامِ اسرائیل کے صرف ایک سال بعد تعصب و بدگمانی کے باوجود ترکی نے مارچ 1949ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرلیے۔ اس اعتبار سے ترکی دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک ہے۔ دلچسپ بات کہ اُس وقت تک اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اور ترکی نے عالمی ادارے میں قیامِ اسرائیل اور تقسیمِ فلسطین کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سابق ترک صدر عصمت انونو اسرائیل کے پُرجوش حامی تھے۔ وزیراعظم محمد شمس الدین کویاتلے نے عجلت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی۔ ان کا موقف تھا کہ جب بحر روم کے کسی بھی دوسرے مسلم ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو اس کام میں پہل کرکے مسلم برادری کو ناراض کرنا مناسب نہیں۔ لیکن صدر عصمت انونو کے آگے اُن کی ایک نہ چل سکی۔ اتفاق سے اس واقعے کے صرف سوا سال بعد مئی 1950ء میں اسلامی خیالات کے حامل عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی۔ جناب عدنان میندریس کو ترکی میں تحریکِ اسلامی کا پہلا سیاسی رہنما مانا جاتا ہے۔ جناب میندریس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات پر ناراضی کا اظہار کیا لیکن وہ فیصلہ تبدیل نہ کرا سکے۔ چند سال بعد انھیں جن الزامات کے تحت تختہ دار پر لٹکایا گیا ان میں ”اسرائیل مخالف جذبات کی حوصلہ افزائی“ بھی شامل تھا۔ ترکی میں 1949ء کے بعد سے اس صدی کے آٖغاز تک عوامی سطح پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے باب میں کسی قسم کی بے چینی یا ناگواری کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ جون 1967ء کی چھ روزہ جنگ، جس میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ پرقبضہ کیا، اس پر ترکی نے اسرائیل کی مخالفت کی۔ انقرہ نے اقوام متحدہ کی اُس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں مقبوضۃ عرب علاقے خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اسرائیل کو جارح قرار دینے والی قرارداد پر رائے شماری کے دوران ترکی غیر جانب دار رہا۔ دوسال بعد اس کی وضاحت کرتے ہوئے رباط (مراکش)کے او آئی سی اجلاس میں ترک وزیر خارجہ احسان صابری نے کہا کہ قرارداد کی حمایت سے اسرائیل ترک سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے تھے۔
دوسری طرف ترکوں کو اپنے قبلہ اوّل (مسجد اقصیٰ) میں نوافل ادا کرنے کا بہت شوق ہے۔ ہر سال ہزاروں ترک بیت المقدس کا سفر کرتے ہیں۔ ترکی کے عیسائی باشندے بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش بیت اللحم، کلیسائے میلاد (Church of Nativity)اور جبلِ صہیون کے قدیم مسیحی قبرستان کی زیارت کو جاتے ہیں۔ اس بنا پر ترکوں اور فلسطینیوں کے باہمی تعلقات بہت گہرے ہیں اور ان مظلوموں کی حالتِ زار کے بارے میں ترک عوام کی فکر بہت واضح ہے۔
رجب طیب اردوان اور ان کے سیاسی و نظریاتی استاد پروفیسر نجم الدین اربکان وہ دو ترک رہنما ہیں جنھوں نے کھل کر فلسطینیوں کی پشتیبانی کی۔ اردوان نے 2003ء کی انتخابی مہم کے دوران بہت دوٹوک انداز میں فلسطینیوں کے حقوق کی بات کی، اپنے جلسوں میں انھوں نے کہا کہ ترک کئی صدیوں تک بیت المقدس کے خادم رہے ہیں اور اس حیثیت سے فلسطینیوں کی اعانت ہمارا مذہبی، ملّی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
اسرائیل اور ترکی کے درمیان حقیقی کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب غزہ کی اسرائیل اور مصر کی جانب سے ناکہ بندی کے خلاف مئی 2010ء میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ترک تنظیم انسانی یاردم (حقوق) وقف یا IHHنے امدادی سامان سے لدی کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ آزادی کارواں (Gaza Freedom Flotilla) میں 37 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 663 افراد سوار تھے، جن میں پاکستان کے ممتاز صحافی سید طلعت حسین، اقوام متحدہ کے شریک معتمد ڈینس ہالیڈے، موریطانیہ میں امریکہ کے سابق سفیر، اسرائیلی اور یورپی پارلیمان کے کچھ ارکان شامل تھے، حتیٰ کہ چند اسرائیلی یہودی خواتین بھی ان کشتیوں پر سوار تھیں۔ قبرص کی بندرگاہ پر روانگی سے پہلے صحافیوں کو جہازوں کا تفصیلی معائنہ کروایا گیا۔ اسرائیلی جریدے ہرٹز کے نمائندے نے کہا کہ جہاز پر لدے سامان، مسافروں اور عملے کے ارکان کے پاس ایک چاقو تک نہ تھا۔ 6 چھوٹے جہازوں پر مشتمل اس قافلے میں دو پر امریکی، دو پر یونانی اور ایک پر کیمرون کے پرچم لہرا رہے تھے، صرف غزہ نامی جہاز ترکی کی ملکیت تھا۔ تین مال بردار جہازوں پر غذائی اجناس، دوا، معذوروں کے لیے کرسیاں (وہیل چیئر)، کپڑے، جوتے اور بچوں میں تقسیم کے لیے نقدی کے بھرے لفافے شامل تھے جن کی کُل مالیت کسٹم کی دستاویز میں 2 کروڑ ڈالر بتائی گئی۔
30 اور 31 مئی کی درمیانی شب جب یہ کارواں بحر روم میں اسرائیلی آبی حدود سے خاصی دور تھا، فوجی کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسرائیلی فوجی ان جہازوں پر اتر گئے اور سامان کی تلاشی لینا شروع کردی۔ اس دوران جہاز پر سوار انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے، جس پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کردی۔ گولیوں سے 9 ترک کارکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
اس واقعے سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات بے حد کشیدہ ہوگئے، اور جب چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے قافلے پر اسرائیلی حملے کو غیر منصفانہ اور جارحیت پر مبنی قرار دیا تو ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک سے نکال دیا۔ جس کے بعد ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات عملاً ختم ہوگئے۔ مارچ 2013ء میں اسرائیلی وزیراعظم نے جناب اردوان کو فون کرکے اس واقعے پر معافی مانگ لی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ ترکی سے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے کو اَنا کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے معذرت کی ہے۔
معافی کے بعد تعلقات میں بہتری کا آغاز ہوا اور 2016ء کے آغاز پر دونوں ملکوں کے سفارت خانوں نے کام شروع کردیا۔ جون 2017ء میں ترک وزارتِ خزانہ نے دعویٰ کیاکہ اسرائیل نے بحری کارواں پر حملے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے دو کروڑ ڈالر خون بہا ادا کیا ہے۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اس کی تصدیق یا تردید سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم (نیتن یاہو) نے اس واقعے پر اسرائیلی عوام کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا ہے اور جان کے زیاں پر لواحقین کو اس کا تاوان ملنا چاہیے۔
اس کے بعد بھی غزہ پر بمباری اور فلسطین کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔ دسمبر 2019ء میں صدر ٹرمپ نے جب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا تو ترک اسرائیل کشیدگی پھر بڑھ گئی۔ اس فیصلے کے خلاف فلسطینیوں نے زبردست احتجاج کیا اور اس دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی درجن فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ فوج کی اس بہیمانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے صدر اردوان نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا، جس پر اسرائیل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے فیصلے کی بھی ترکی نے مذمت کی۔
فلسطین کے علاوہ مشرقی بحر روم کے معدنی وسائل کے معاملے پر بھی ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اسرائیل اس حوالے سے قبرص اور یونان کے موقف کا حامی ہے۔ گزشتہ سال اسرائیل نے بحر روم سے یورپ کو گیس کی فراہمی کے لیے قبرص اور یونان کے تعاون سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس پائپ لائن کو مشرقی بحر روم کے جس حصے سے گزرنا تھا اسے ترکی اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ ترک بحریہ نے دھمکی دی کہ وہ بزور طاقت پائپ لائن بچھانے کے کام کو روکے گی۔ ترکی کے اس سخت رویّے کی بنا پر منصوبہ ختم کردیا گیا۔ صدر اردوان نے اس فیصلے کو اسرائیل کی جانب سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار قرار دیا، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ یورپ کو گیس کی فراہمی کے لیے وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ترک صدر کا یہ بیان ان کے ابتدائی موقف کی نفی ہے۔ بحر روم میں لیویاتھن کے نام سے مشہور یہ گیس میدان غزہ کے ساحلوں سے قریب ہے اور 990 ارب مکعب میٹر گیس کے اس ذخیرے کو ترک صدر نے فلسطین کی ملکیت قرار دیا تھا۔
دوسرے ممالک کی طرح کورونا کی وجہ سے ترک معیشت شدید دبائو میں ہے۔ روس سے فضائی دفاعی نظام خریدنے کی بنا پر امریکہ نے ترکی پر پابندیاں لگادی ہیں جس سے ترک برآمدات متاثر ہورہی ہیں۔ مشرقی بحر روم کے معاملے میں صرف یونان ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک خاص طور سے اٹلی اور فرانس کے تعلقات بھی ترکی سے کشیدہ ہیں جن کی تیل کمپنیوں کو ترک بحریہ نے اُن علاقوں سے نکال دیا ہے جنہیں انقرہ اپنے علاقے قرار دیتا ہے۔
معیشت کی بحالی اس وقت ترک قیادت کی ترجیح ہے، اور اقتصادیات کو بہتر کرنے کے لیے صدر اردوان علاقائی اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ترک صدر کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ جناب اردوان نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف بھی خیرسگالی کے پیغامات کے ساتھ ایلچی بھجوائے ہیں اور قاہرہ سے آنے والے اشارے حوصلہ افزا ہیں۔
بلاشبہ معیشت کی بہتری کے لیے علاقے میں پائیدار امن ضروری ہے اور سفارتی تعلقات کی بہتری سے تنازعات کے پُرامن حل میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی پر فلسطینیوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ایک ایک کرکے تمام عرب ممالک نے آزاد فلسطین کی شرط کو پسِ پشت ڈال کر اسرائیل سے دوستی استوار کرلی ہے، اور جن ملکوں نے اب تک صہیونی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا وہ بھی اسرائیل سے تقریباً ہر سطح پر تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی رہی سہی سیاسی اور اخلاقی پشت پناہی ختم ہوچکی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنا پر فلسطینی ایران اور لبنان کی حزب اللہ کی حمایت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ فی الوقت ترکی فلسطینیوں، خاص طور سے اہلِ غزہ کا سب سے مضبوط پشت پناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قربت سے غزہ میں سوگ کی سی کیفیت ہے۔
اپنے دورئہ اسرائیل میں ترک وزیرخارجہ نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ترکی فلسطین سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کرچکا ہے۔ تل ابیب میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب اوغلو نے کہا کہ مشرقی بیت المقدس دارالحکومت کے ساتھ آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست، القدس کی حیثیت، غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے اور فلسطینیوں کے حقوق پر انقرہ کے موقف اور عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی سے اسرائیلیوں کو معقولیت پر آمادہ کرنے کی کوششوں کو تقویت پہنچے گی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ایسے ہی دلائل متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رہنمائوں نے بھی دیے تھے۔
ترکی اسرائیل تعلقات کی بحالی /مسعود ابدالی اسرائیلی رہنمائوں کا خیال ہے کہ اس وقت اسرائیل سے زیادہ ترکی کو اچھے تعلقات کی ضرورت ہے، اور نوشتہ دیوار پڑھ کر صدر اردوان یوٹرن لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے سیاسی مراکزِ دانش (THINK TANKS) نے اسرائیلی وزارتِ خارجہ کو بدلتے ہوئے ترک رویّے کا جو تجزیہ پیش کیا ہے اس کے مطابق ترک معیشت کی خرابی نے اسرائیل کے ساتھ تعلق میں بہتری کے لیے ترکی پر دبائؤ بڑھایا ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ تعلقات کے بعد ترکی سے دوستی اسرائیل کی ’ضرورت‘ نہیں رہی۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین شام کے سوا کسی اور جگہ تعاون کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ شام کی جانب سے کُرد دہشت گردوں کی پشتیبانی پر ترکی کو تشویش ہے اور اسرائیل کو بھی شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی پسند نہیں۔ تاہم یہاں بھی تل ابیب اور انقرہ میں مکمل ہم آہنگی نہیں کہ شام کے معاملے پر اختلاف ہوتے ہوئے بھی ترکی کے ایران سے تعلقات اچھے ہیں اور امریکی اعتراضات کے باوجود ترکی ایران سے تیل اور گیس خرید رہا ہے۔
خیال ہے کہ اسرائیل، اب ترکی کو حماس کی حمایت ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ صحافتی ذرائع کے مطابق اسرائیلی صدر انقرہ میں اپنے ترک ہم منصب کے کان میں یہ بات ڈال چکے ہیں کہ اسرائیل حماس کو اپنی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور حماس کے بارے میں نقطہ نظر کی بنیادی تبدیلی کے بغیر اسرائیل ترک تعلقات میں نتیجہ خیز تبدیلی ممکن نہیں۔ تل ابیب کا کہنا ہے کہ حماس کے ”دہشت گردوں“ کو ترکی میں سفارت کاروٓں کا درجہ حاصل ہے اور یہ صورت حال اسرائیل کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ دیکھنا ہے کہ صدر اردوان الفت کی نئی منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے فلسطینیوں سے کیے گئے وعدوں کو کیسے نبھاتے ہیں۔
……………..
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔