پاکستان کی سیاست دو بنیادی ایشوز پر تقسیم ہے۔ ایک طبقہ جس کی قیادت عمران خان کے پاس ہے، مسائل کے حل کے لیے فوری شفاف انتخابات اور نگران حکومت کا قیام چاہتا ہے۔ جبکہ اس وقت کی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا مؤقف دوسرا ہے۔ ان کے بقول فوری انتخابات کسی ایک جماعت یا فرد کی خواہش پر نہیں ہوں گے بلکہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ کی مدد سے متفقہ طور پر انتخابات کے وقت کا تعین کریں گی۔ حکومت اور اس کی اہم اتحادی جماعتیں بالخصوص پیپلزپارٹی فوری انتخابات کی حمایت کے بجائے اگست 2023ء میں ہی انتخابات کی حامی ہیں، کیونکہ ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ اوّل تو ایک فرد یا جماعت کی خواہش پر ہم کیوں کمزوری دکھائیں؟ اور دوئم فوری انتخابات اور ان کے نتائج بھی ہمارے خلاف ہوسکتے ہیں۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے اسلام آباد میں اپنے لانگ مارچ یا دھرنے کو فوری طور پر ختم کرکے ایک بڑا سیاسی سرپرائز دیا ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ اسلام آباد پہنچ کر عمران خان کی یہ مفاہمتی حکمتِ عملی یا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دی جانے والی مہلت کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے۔ کیونکہ عمران خان کا مؤقف تھا کہ وہ اسلام آباد سے اُس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک نئے انتخابات کی تاریخ اور نگران حکومت کے قیام کا اعلان نہیں ہوجاتا۔ یقینی طور پر عمران خان کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوا، اس کے پیچھے یقیناً کچھ پس پردہ کھیل یا یقین دہانیاں ہیں جن کی بنیاد پر وہ وقتی طور پر بیک فٹ پر ہوئے ہیں۔ عمران خان نے بنیادی طور پر گیند ڈی میں لاکر چھوڑ دی ہے اور موقع دیا ہے کہ فیصلہ ساز خود ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرکے بال کو ڈی سے گول پوسٹ میں ڈال دیں۔ عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل معرکہ نئے انتخابات کا فوری اعلان ہے، اور وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جن کو دبائو میں لانا تھا یا جن کو فوری انتخابات کا فیصلہ کرنا ہے وہ ٹریک پر آگئے ہیں۔
عمران خان کے برعکس وزیراعظم شہبازشریف نے دوٹوک انداز میں پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ وہ کسی کے دبائو میں آکر فوری انتخابات کا فیصلہ نہیںکریں گے اور انتخابات اپنی مقررہ مدت کے بعد ہی ہوں گے۔ اگر شہبازشریف یا ان کے اتحادیوں سمیت اسٹیبلشمنٹ بھی انتخابات کے بارے میں کسی جلدی کا شکار نہیں تو فوری انتخابات کے اس مطالبے کی منظوری آسان نہیں ہوگی۔کیونکہ ایک طرف تمام سیاسی قوتیں ہیں جو عملی طور پر حکومت کا حصہ ہیں اور فوری انتخابات کو وہ اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھتی ہیں۔ جبکہ سیاسی فریقین میں عمران خان تنہا ہیں اور ان کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی بڑی حمایت حاصل نہیں۔ اگرچہ انہوں نے ایک مقبول مزاحمتی تحریک پیدا کی ہوئی ہے اور ان کے جلسے بھی خاصے بڑے تھے۔ ان کا اپنی حکومت کے گرانے میں عالمی اور داخلی سازش کا بیانیہ بھی بہت مقبول ہوا ہے اور لوگ ان کی حکومتی کارکردگی سے زیادہ ان کے سیاسی بیانیے کو اہمیت دے رہے ہیں۔
لیکن سوال یہی ہے کہ اگر اگلے چھ دن میں عمران خان کا فوری انتخابات کا مطالبہ نہیں مانا جاتا اور یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ اُن کی جانب سے لانگ مارچ کا خاتمہ کسی بڑی سیاسی یقین دہانی کے بعد ہوا تھا، تو اگلا منظرنامہ کیا ہوگا؟ کیا واقعی عمران خان دوبارہ اپنی عملی سیاسی مزاحمت کی بنیاد پر اسلام آباد میں سیاسی چڑھائی کریں گے؟ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یقینی طور پر ایک نیا سیاسی، انتظامی بحران ہماری قومی سیاست کو دیکھنے کو ملے گا۔ کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان آسانی سے نہ تو گھر بیٹھنے والے ہیں اور نہ ہی وہ اس حکومت کو آسانی سے کام کرنے دیں گے۔ اس لیے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا خود موجودہ حکومت کے لیے بھی ناممکن ہی ہوگا اور وہ بھی عمران خان کی مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں ردعمل کی سیاست کا شکار ہوگی۔ اسی طرح اگر عمران خان دوبارہ اسلام آباد کی طرف نئی مہم جوئی کرتے ہیں تو کیا اس بار کے لانگ مارچ سے نئے لانگ مارچ کا نتیجہ مختلف ہوگا؟ کیونکہ ایسا نہیں لگتا کہ موجودہ حکومت ان کو کسی بھی صورت میں اسلام آباد آنے کی اجازت دے گی۔ ایسی صورت میں ٹکرائو اور عدم استحکام کی صورت حال زیادہ خطرناک نظر آتی ہے جو کسی بھی صورت میں ریاستی و قومی مفاد میں نہیں ہوگی۔ کاش ایسا ہو کہ آنے والے چند دنوں میں حکومت اور عمران خان کے درمیان انتخابی تاریخ پر معاملات طے ہوجائیں، وگرنہ دوسری صورت میں تصادم ہوگا اور حالات بہتری کے بجائے مزید انتشار کی جانب جائیں گے جس سے ملک آگے جانے کے بجائے مزید پیچھے کی طرف دھکیلا جائے گا۔کیونکہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ اس لڑائی میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑائی جاری رہے گی اور اس کا حل نیا مینڈیٹ ہی ہوسکتا ہے۔
فوری انتخابات یا مقررہ مدت میں انتخابات کے حوالے سے ایک بڑا تضاد یا ٹکرائو ہمیں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی نظر آتا ہے، کیونکہ حکمران جماعت میں اس اہم مسئلے پر سیاسی تقسیم ہے۔ شہبازشریف اور ان کے حامی فوری انتخابات کے حامی نہیں اور اس میں اُن کو پیپلزپارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) میں ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں عوامی ریلیف دینا ہمارے بس میں نہیں، اور اگر ہم حکومت جاری رکھتے ہیں تو اگلے برس کے انتخابات میں عوامی ردعمل کی صورت میں اس کی بھاری سیاسی قیمت ہمیں دینا ہوگی۔ اس لیے اس طبقے کا خیال ہے کہ ہمیں سابقہ حکومت کا سیاسی و معاشی بوجھ اٹھانے کے بجائے ساری توجہ فوری انتخابات پر ہی دینی ہوگی اور یہ بیانیہ بنانا ہوگا کہ ملک کے موجودہ مسائل ہمارے نہیں بلکہ عمران خان حکومت کے پیدا کردہ ہیں۔ اس طبقے کے بقول ہمیں پیپلزپارٹی کی سیاسی چال سے خود کو باہر نکالنا ہوگا جو تحریک انصاف سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں سیاسی ٹارگٹ پر رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) میں ایک مجموعی سوچ یہ بھی موجود ہے کہ اگر ہمیں واقعی اگلے برس یا مقررہ مدت تک حکومت چلانی ہے تو اس سارے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کس حد تک ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی اورکیسے وہ ہمارے بڑے سیاسی حریف عمران خان کو دیوار سے لگائے گی؟
عمران خان اگرچہ قومی اسمبلی سے اپنے ارکان سمیت مستعفی ہوچکے ہیں اور ان کے استعفوں کو تاحال قبول نہیں کیا گیا، مگر تحریک انصاف کسی بھی صورت میں پارلیمنٹ نہیں جانا چاہتی، لیکن اس میں ایک تضاد یہ ہے کہ اگر عمران خان قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ دیگر صوبائی اسمبلیوں میں اپنے ارکان کو بچانا چاہتے ہیں اور استعفوں کی سیاست کے لیے تیار نہیں؟ اگر واقعی عمران خان فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں تو حکمت عملی یہی ہونی چاہیے کہ وہ دیگر صوبائی اسمبلیوں سے علیحدہ ہوں اور ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کریں، اور اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخابات کا عمل ممکن نہیں ہوگا۔ وگرنہ دوسری صورت میں محض قومی اسمبلیوں سے استعفوں کا کارڈ کچھ بڑے نتائج نہیں دے سکے گا۔ پاکستان کا موجودہ داخلی و خارجی بحران ایک بڑے ایجنڈے کی طرف متوجہ کرتا ہے، ایک ایسا ایجنڈا جو ملک کو سیاسی اور معاشی بنیادوں پر مضبوط بناسکے۔ یہ حالات غیر معمولی ہیں اور اقدامات بھی غیر معمولی ہوں گے۔ اس حالیہ بحران کے حل کے لیے ملک میں موجود تمام فریقین کو سر جوڑ کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ حالات جس ڈگر پر جارہے ہیں اس بحران کا ایک حل مضبوط اور مربوط سیاسی نظام کی موجودگی ہے، اور یہ نئے نظام، نئے انتخابات جو واقعی منصفانہ اور شفاف ہوں، کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ ہم جتنی دیر فوری انتخابات سے گریز کریں گے حالات میں محاذ آرائی کا عمل کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں نئے انتخابات کے ساتھ ساتھ منصفانہ اور شفاف انتخابات پر توجہ دینی ہوگی۔کیونکہ اگر انتخابات جلد ہو بھی جائیں اور جو ہار جائیں وہ انتخابی نتائج کو ہی قبول کرنے سے انکار کردیں تو بحران کیسے کم ہوگا؟