29 مئی2022ء کو بلوچستان کے34اضلاع میں سے 32اضلاع میں بلدیاتی انتخابات تکمیل کو پہنچے۔ باقی 2 اضلاع صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور لسبیلہ میں انتخابات کا انعقاد حلقہ بندیوں میں تاخیر کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں ہوگا۔ مستونگ، قلات اور صوبے کے شمالی اضلاع میں موسم موافق تھا۔ باقی سبی، نصیرآباد، جعفرآباد، کچھی، جھل مگسی، ڈیرہ بگٹی، نوشکی، چاغی، تربت، گوادر، آواران، پنجگور اور خضدار میں شدید گرمی تھی۔ تاہم اس کے باوجود لوگوں کی دلچسپی دیکھی گئی۔ الیکشن کمیشن بلوچستان نے ووٹ ڈالنے کا تناسب پچاس فیصد سے زائد بتایا ہے۔ ان 32 اضلاع میں 35 لاکھ52ہزار 298 ووٹر درج ہیں، جن میں20 لاکھ 6 ہزار 274 مرد اور 15 لاکھ 46 ہزار124 خواتین ووٹر کا اندراج ہے۔ 5 ہزار226پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے، جن میں 2 ہزار 54 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس اور ایک ہزار 974 حساس قرار دیئے گئے تھے۔ انتخابات میں 16 ہزار 195امیدواروں نے حصہ لیا، جن میں 1584بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام نے 300سے زائد نشستوں کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں پر فوقیت حاصل کرلی ہے۔ اسے قلعہ عبداللہ، خانوزئی، سرانان، موسیٰ خیل، شیرانی، ژوب، مستونگ اور واشک میں واضح اکثریت ملی ہے۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان عوامی پارٹی ہے جس نے لورالائی، صحت پور، ڈیرہ اللہ یار، اوستہ محمد، بارکھان میں برتری حاصل کی ہے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، ہرنائی، شاہرگ، دکی اور چمن کی میونسپل کمیٹیوں، جبکہ نیشنل پارٹی نے تربت میونسپل کارپوریشن میں واضح اکثریت لی ہے۔ پنجگور، خضدار، قلات، مستونگ، آواران، بارکھان اور نصیرآباد میں بھی نیشنل پارٹی کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی کے اتحاد کے ہوتے ہوئے بھی قلات سے اکثریت ملی ہے، تحصیل زہری میں نواب ثناء اللہ کی حمایت سے واضح نمائندگی ملی ہے۔ سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کی کارکردگی خاطر خواہ نہ رہی۔ ممکن ہے صوبے میں قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے اور باپ پارٹی سے تعاون جیسی پالیسیاں اثرانداز ہوئی ہوں۔ یہاں حیرت انگیز اور بھرپور عوامی پذیرائی ساحلی ضلع گوادر میں ’’گوادر حق دو تحریک‘‘کو ملی ہے۔ اس تحریک کے سربراہ جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان ہیں۔ البتہ تحریک کو گوادر اور قرب و جوار کے علاقوں کی حمایت سیاسی کے بجائے علاقائی عوامی مسائل کی بنیاد پر حاصل ہے۔ چونکہ گوادر کو حق دو تحریک کے پلیٹ فارم سے گوادر کے عوام کے روزگار بالخصوص مچھیروں کے حقِ روزگار کے تحفظ اور دوسرے مسائل جیسے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مبینہ طور پر عوام کو تکلیف، جنہیں بعض علاقوں میں آمدورفت میں مشکلات کی شکایت رہی ہے، اور ایران سرحد پر ڈیزل، پیٹرول اور دوسری اشیا اور اجناس کی اسمگلنگ پر قدغن جیسے عوامی مسائل کو اٹھایا گیا ہے۔ گوادر کے سمندر میں سندھ سے بڑے بڑے ٹرالروں کے آنے اور بے دریغ اور بڑے پیمانے پر مچھلی کے شکار سے مقامی مچھیروں کو تنگیِ روزگار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوئم سمندری مچھلی کی کمیابی پیدا ہوگئی تھی۔ اس تحریک کو گوادر میں بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، بی این پی عوامی اور دوسرے بااثر حلقوں کی مخالفت کا سامنا ہے، جنہوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں ان چار جماعتوں پر مشتمل انتخابی اتحاد تشکیل دیا تھا۔ مگر حق گوادر دو تحریک نے بھی پورے ضلع میں امیدوار کھڑے کردیے اور جس کے148نشستوں میں سے 64 نشستوں پر کونسلر کامیاب ہوئے۔ گوادر میںکامیاب ہونے والے غیر معروف، غریب اور محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے پہلی دفعہ انتخاب لڑا ہے۔ ایک چھوٹے پیمانے کے دکاندار کے ہاتھوں دو بار ڈسٹرکٹ چیئرمین بننے والے خاندان کے فرد کو شکست کھانی پڑی ہے۔ ایک جوس بیچنے والے نے کئی دہائیوں سے ایم این اے اور ایم پی اے بننے والے خاندان کے امیدوار کو ہرایا ہے۔ اس حیران کن جیت سے مخالفین کے پسینے چھوٹ گئے۔ گوادر سے بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی جیسے لوگوں کی اجارہ داری، اور دوسروں کی خاطر مدارات کی سیاست کو فی الواقع دھچکا لگا ہے۔ بہرحال اس جیت کے اثرات سمیٹنا اور اس کی بنیاد پر سیاسی اجتماعیت اور قوت کو مستقل قائم رکھنا حق دو تحریک کی بصیرت اور دانش پر منحصر ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دور وزارتِ اعلیٰ میں ضلع کیچ (تربت) میں مثالی کام کروائے ہیں، جس کی نظیر پیش کی جاتی ہے۔ اس بنا پر نیشنل پارٹی کے امیدواروں کو تربت کے عوام نے ووٹ دیا۔
بلوچستان میں نچلی سطح کی حکومتوں کے انتخابات 2013ء میں ہوئے تھے، نتیجے میں بننے والی حکومتیں کام نہ کرسکیں، حتیٰ کہ دارالحکومت کوئٹہ تک میں کوئی تبدیلی نہ لائی جاسکی۔ کوئٹہ شہر میں پشتون خوا میپ کے ڈاکٹر کلیم اللہ تھے۔ وجوہات اگر ان کی نااہلی تھی تو یقیناً بڑی وجہ ان حکومتوں کا بے اختیار ہونا بھی تھا۔ فنڈ محدود تھے اور یہ حکومتیں صوبائی حکومتوں کی راہ تکتی تھیں۔ گویا بے اختیار حکومتیں تھیں۔ نچلی سطح کی حکومتیں ویسے بھی سیاسی اشرافیہ کو کھٹکتی ہیں۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں آتے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ گلیوں، نالوں جیسے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے مختص فنڈ بھی خود استعمال کریں، کہ اگر فنڈ گلی محلوں کے نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوں تو اس صورت میں یہ محض قانون سازی تک محدود رہ کر محروم رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن موخر کرانے کے لیے صوبائی اسمبلی سے قانون سازوں نے قراردادیں پاس کیں۔ سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومت نے پوری کوشش کی کہ بلدیاتی انتخابات نہ ہوسکیں۔ اس کے لیے مختلف جواز تراشے گئے، مگر الیکشن کمیشن نے ان کے مطالبات پر کان نہ دھرے اور نہ عدالتِ عالیہ نے ان کی سنی۔
جنرل ضیاء الحق نے ارکانِ اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈ مقرر کیے تھے، وگرنہ جنرل پرویزمشرف دور میں جب ناظمین کسی حد تک بااختیار بنے تو مسائل حل اور ترقیاتی کام ہونے لگے۔ چناں چہ سیاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ بلدیاتی نظام کو مستحکم بنائیں۔ انتظامی اور مالی اختیارات ان حکومتوں و اداروں کو منتقل کریں۔ اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ ہوں اور مقامی حکومتیں بااختیار نہ ہوں تو بہتری کی توقع بھی عبث ہے۔ غرض قابلِ ستائش ہے کہ انتخابات پر کوئی بھی ادارہ اثرانداز نہیں ہوا۔ البتہ سیاسی جماعتوں نے جعلی ووٹ ڈلوانے سمیت دھاندلی کے مختلف حربوں کا استعمال کیا۔ اس بنا پر جھگڑے بھی ہوئے۔ ان جھگڑوں میں ایک شخص جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ چاغی میں جاں بحق ہونے والے شخص کے قتل کا بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی میر عارف محمد حسنی نے اپنی ہی جماعت کے رہنما چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ان کے بھائیوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں نے الیکشن کے عمل کو سبوتاژ کرانے کے لیے مختلف علاقوں میں بم دھماکے اور راکٹ حملے کرائے۔ کوہلو اور تربت میں انتخابات سے ایک دن قبل پولنگ اسٹیشن کو اڑایا گیا۔ پولنگ کے دن منگچر، تربت، نوشکی اور کوہلو میں دستی بم حملے کیے اور راکٹ داغے۔ منگچر میں لیویز اہلکار اور ایک عام شہری دھماکے میں زخمی ہوا۔